کیا عمر ابن خطاب نے خود نماز تراویح ادا کی؟

اہل تسنّن کے یہاں ماہ رمضان میں ایک خاص نماز کا چلن ہے۔ وہ اس مستحب نماز کو دوسرے خلیفہ عمر ابن خطّاب کی ایجاد جانتے ہوے با جماعت ادا کرتے ہیں۔ وہ اس بدعت کو بدعتِ حسنہ شمار کرتے ہیں اور اس نماز کو نماز تراویح کہتے ہیں۔ اس نماز کو لیکر اب اُن میں یہ اختلاف بھی ہے کہ اس میں کتنی رکعات ہونی چاہیئے آٹھ رکعات یا کہ بارہ؟ اس میں دونوں گروہ اپنے دلائل پیش کرتے ہیں مگر سب کا اتّفاق اس بات پر ضرور ہے کہ یہ نماز رسولؐ الله نہ خود پڑھی ہے اور نہ ہی اس کا حکم دیا ہے- یہ تو بس عمر کی ایجاد ہے۔

تراویح کی ابتداء کس طرح ہوئ اس سے متعلق یہ بتایاجاتا ہے کہ-ایک مرتبہ عمر ابن خطاب اپنے دور خلافت کے دوسرے سال میں ماہ رمضان کی آخری دس راتوں میں کسی ایک رات مسجد کا دورہ کر رہے تھے۔ (یہ بات ذہن میں رہے کہ آخری دس رات سے مراد طاق راتیں ہیں)
انھوں نے چند مسلمانوں کو عبادت میں مشغول دیکھا۔ کچھ چار کی تعداد میں تھے، کچھ اس سے زیادہ اور کچھ اکیلے ہی عبادت میں مسروف تھے- عمر نے سوچا، “ہر مسلمان کا علیحدہ علیحدہ عبادت کرنے سے بہتر ہے کہ میں ان کو ایک امام کے پیچھے جمع کردوں”۔ اس ارادہ سے انہوں نے لوگوں کو حکم دیا کہ اس مستحب نماز کو جماعت کے ساتھ ادا کریں اور اُبی بن کعب سے اس جماعت کی قیادت کر نے کا حکم دیا۔

لوگوں نے اس ہدایت پر عمل کیا اوراس نماز کو بجماعت ادا کرنے لگے۔اس نماز کی رکعتوں کی تعداد مقرر نہ تھی کیونکہ ہر مسلمان اپنی قابلیت اور استعداد کے مطابق عبادت کرتا تھا کوئ زیادہ تو کوئ کم.کسی بھی روایت میں اس نماز کی رکعتوں کی تعداد کا ذکر نہیں ہے .پھر بھی یہ لوگ اپنی اپنی تراویح کو صحیح ثابت کرنے کے لئے،ان کا ہر گروہ ،عمر کی اس بدعت کو آٹھ، گیارہ، تیرہ یا بیس رکعتوں میں ادا کرنے لگے۔ اتنا ہی نہیں بلکہ ہر ایک گروہ رکعتوں کی تعداد کے اختلاف کی بنا پرایک دوسرے کی نماز کو باطل بھی بتاتا ہے.

جبکہ حقیقت یہ ہے کہ اس کا ثبوت کسی کے پاس نہیں ہے اور نہ ہی عمر کے قول میں یا اس کے عمل میں اس کا کہیں ذکر ملتاہے،کیونکہ عمر نے خود اپنی زندگی میں تراویح کبھی نہیں ادا کی. اس نے صرف ثواب حاصل کرنے کے لئے ایک ہی امام کے پیچھے تمام نمازیوں کو کھڑا کیا اور اس حکم کی نگرانی کے لئے ہر روز مسجد کا دورہ بھی کرتا رہا- اس حقیقت کا انکار کرنا مشکل تھا کہ عمر نے خود کبھی تراویح نہیں پڑھی اس لیئے صرف اپنے دل کی تسلّی کے لئے وہ کہنے لگے کہ عمر اپنے گھر ہی میں نماز تراویح ادا کیا کرتے تھے. البتہ اس کا نہ تو کوئی گواہ ہے اور نہ ہی کوئ دستاوزیزی ثبوت ہے.

حافظ محمد عبداللہ غازی پوری، جو اہل حدیث کے ایک معروف عالم ہیں، ابن عباس سے ایک روایت کو نقل کرنے کے بعد، اس سے یہ نتیجہ نکالتے ہیں کہ ،عمر خود تراویح کی نماز باجماعت ادا نہیں کرتے تھے۔ شاید، وہ اس بات کے قائل تھے کہ اسے گھر پر ہی تنہا انجام دیا جائے، خاص طور پر طاق راتوں میں۔ لہذا، امام طحاوی حنفی نے کہا کہ، گھر میں تراویح نماز پڑھنا بہتر ہے !!![١]
سلفی عالم کریم الدین مولانا انور شاہ کے الفاظ دہراتے ہیں، “یہ نقطہ نظر عمر کے عمل سے ہے کہ وہ نماز تراویح اپنے گھر میں آخری راتوں میں ادا کیا کرتے تھے، جب کہ انہوں نے لوگوں کو حکم دیا تھا کہ با جماعت مسجد میں ادا کریں۔[٢]

بہر حال، نماز باجماعت شروع ہو گئی البتہ اس کا نام نہیں دیا گیا. لوگ صرف مستحب نماز کی نیت سے یہ نماز پڑھتے رہے. دن گذرتے رہے. یہ عمر کے دور حکومت تک جاری رہا. بنی امیہ کے ہر دوسرے خلیفہ نے اس نماز کی رکعت اور اوقات تبدیل کر تے گئے. آٹھ، تیرہ، بیس، چوبیس، چھتیس اور یہاں تک کہ چالیس رکعت نماز بھی ادا ہوئی ہے۔ کبھی نماز عشا کے فورا بعد تو کبھی دیر رات میں یہ جماعت قائم کی گئی ۔

روایت میں ہے کہ اس نماز کی رکعات کی زیادتی کی وجہ سے مسلمانوں کو کبھی کبھی عصا کا سہارا بھی لینا پڑا ہے تاکہ وہ غش سے گر نہ جائیں۔ جب چالیس رکعت مسلسل ادا کرنا بہت ہی مشکل ہو گیا تو ایک قانون ایجاد کیا کہ ہر چار رکعت کے بعد وقفہ دیا جانا چاہئے۔ اس وقفہ کو عربی میں ترویحہ کہا جاتا ہے۔

مولانا محمد امین صفدر صاحب(دیوبندی)، تجلیّات صفدر میں، لفظ تراویح کی وضاحت کرتے اس طرح کرتے ہیں کہ، “یہ نماز اس لیے نماز تراویح کہی گئی کیونکہ نمازکے ہر چار رکعت کے بعد اس میں وقفہ کیا جاتا ہے۔ تراویح ترویحہ کی جمع ہے جس کا معنی ہے کچھ وقت کے لئے آرام کرنا۔ تراویح اسم جمع ہے اور عربی میں، جمع کم از کم تین یا تین سے زیادہ کے لئے استعمال کیا جاتا ہے. لہذا، چار رکعت کو ترویحہ(واحد) بلایا جائے گا، آٹھ رکعت کو تراوحتین (دوہری) کے طور پر بلایا جائے گا اور بارہ رکعت کو تراویح (جمع) کہا جائے گا. امت اس پر متّفق ہے اور اس سے کسی قرآنی آیت یا روایت سے مقابلہ نہیں کیا جا سکتا. [٣] ”

چونکہ یہ وقفہ کا قانون ایک غورو فکر کے بعد آیا اور اس کو مسلمانوں نے ایجاد کیا ہے ، اس وجہ سے یہ لفظ “تراویح” نہ تو قرآن میں ہے اور نہ ہی کسی حدیث رسولؐ میں ملتا ہے۔

۱۔رکعت التراویح ، ص۳۹
۲۔رکعت التراویح ، ص۳۹
۳۔تجلیات صفدر، ج۵، ص۲۹
اقتباس: حقیقت تراویح اور بدعت الصریح، جناب ابن حیدر۔

Short URL : https://saqlain.org/so/hvzx