شیعہ اثنا عشری اور اہل تسنّن یہ مسلمانوں کے دو بڑے فرقے ہیں۔ان میں جن باتوں کااختلاف ہے ان میں سب سے اہم مسلہ- خلافتِ ابوبکر ہے۔ شیعہ، رسولؐ الله کی رحلت کے فورًا بعدحضرت علیؑ کو رسولؐ کا جانشین مانتے ہیں اور ابوبکر کی خلافت کا ازسرِ نو انکار کرتے ہیں اور اُن کی خلافت کے منکر ہیں۔وہ ابوبکر کی خلافت کو ہر نظریہ سے باطل اور غیر اسلامی قرار دیتے ہیں۔ جبکہ اہل تسنّن نہ صرف یہ کہ ابوبکر کی خلافت کو پوری طرح سے اسلامی مانتے ہیں بلکہ خلافت ابوبکر کا انکار کرنے والے کو یعنی شیعوں کو رافضی کہتے ہیں۔
اہل تسنّن کا یہ بھی عقیدہ ہے کہ سرورِ کائنات صلی الله علیہ وآلہ وسلم نے اپنی زندگی میں کسی کو اپنا خلیفہ نامزد نہیں کیا تھا۔ آنحضرتؐ نے اس کام کو اُمّت کے لیے چھوڑ دیا تھا کہ وہ خود اپنے لیے خلیفہ یا امام منتخب کر لیں۔ مگر وہ چاہتے یہی تھے کہ اُن کے بعد ابوبکر ہی خلیفہ بنیں۔ اپنی اس بات کو ثابت کرنے کے لیے اہل تسنّن کچھ دلائل پیش کرتے ہیں۔ اُن میں سے ایک یہ ہے کہ آنحضرتؐ نے اپنی زندگی کے آخری ایّام میں ابوبکر کو نمازِ جماعت پڑھانے کا حکم دیا -اس طرح، ان کے مطابق،ابوبکر کا رسولؐ کی زندگی میں نماز کی امامت کرنا بتاتا ہے کہ رسولؐ الله چاہتے تھے اُن کے بعد ابوبکر ہی ان کے جانشین بنیں۔
اس دلیل پر مندرجہ ذیل سوال کھڑے ہوتے ہیں:
1) یہ بات تو طے ہے کہ رسولؐ الله نے کبھی بھی یہ نہیں کہا کہ میرے بعد ابوبکر خلیفہ ہونگے۔ کیونکہ خود ابوبکر نے بھی سقیفہ میں یہ دلیل نہیں پیش کی کہ رسولؐ الله نے ان کو خلیفہ بنایا ہے۔ وہاں وہ قریش کے حقِّ خلافت کی ہی بات کرتے رہے۔ اس لیے ابوبکر کی خلافت نہ قرآن میں ہے نہ ہی حدیث میں تو اس کو اسلامی حکومت نہیں کہا جا سکتا ہے-اس طرح جو مسلمان ابوبکر کی خلافت بلکہ تمام خلفاءِ راشدین کی خلافت کے منکر ہیں ان کو رافضی کہنا غلط ہے-
2) اگر اہل تسنّن کی یہ بات مان بھی لی جائے کہ آنحضرتؐ نے کہا نہیں ہے مگر اُن کی منشا یہی تھی کہ ابوبکر ہی اُن کے جانشین ہوں تب بھی یہ سوال اٹھتا ہے کہ آنحضرتؐ نے کیوں اُن کے نام کا اعلان نہیں کیا۔ قرآن کی کوئ آیت اس بارے میں نہیں ہے کہ رسولؐ کو اپنا خلیفہ چننے کا اختیار نہیں ہے۔ نہ ہی کوئ حدیث اس طرح کی ہے کہ کسی نے آنحضرتؐ سے آپ کے جانشین کے بارے میں سوال کیا ہو اور آپؐ نے منع کردیا ہو کہ خدا نے مجھے اپنا جانشین بنانے سے منع کیا ہے۔
3) اہل تسنّن یہ بھی دعوٰی کرتے ہیں کہ ابوبکر کی خلافت پر امت کا اجماع تھا یعنی تمام اصحاب ان کی خلافت پر راضی تھے۔ اگر ایسا ہے تو آنحضرتؐ کو ان کو نماز کی پیش نمازی کے لیے اصرار کرنے کی کیا ضرورت تھی۔ مسلمان بہر حال ابوبکر کو خلیفہ مان ہی رہے تھے۔
4) اہل تسنّن کی مستند کتابوں میں یہ حدیث بھی ملتی ہے کہ سرورِؐ کائنات نے ابوبکر کو نماز پڑھنے کے لیے کہا مگر انہوں نے یا کچھ روایت کے مطابق عائشہ نے رسولؐ الله کو اس بات سے روک دیا پھر حضورؐ نے عمر سے کہا اور پھر کسی اور کو نماز پڑھانے کو کہا۔ اس سے اس بات کا پتہ چلتا ہے کہ آنحضرتؐ کا مقصد صرف نماز کی امامت ہی تھا خلافت دینا مقصود نہ تھا۔ ورنہ اگر مقصد خلافت ہوتا تو آپؐ کسی اور کا نام نہ لیتے۔
5) یہ بھی ایک تاریخی حقیقت ہے کہ آنحضرتؐ جب بھی مدینہ سے باہر تشریف لے جاتے تھے تو اپنی جگہ کسی ایک صحابی کو والیءِ مدینہ منتخب کرتے اور یہ شخص تمام امور کے ساتھ ساتھ نماز کی امامت بھی کیا کرتا تھا (جیسے رسولؐ الله نے جنگِ تبوک کے لیے جاتے وقت حضرت علیؑ کو مدینہ کا والی مقرر کیا تھا۔) اس طرح نماز کی امامت کرنا ابوبکر کا حقِّ خلافت ثابت نہیں کرتا۔
6)حالانکہ یہ بات مستحکم نہیں ہے کہ رسولؐ الله نے ابوبکر کو نماز کی امامت کرنے کے لیے کہا۔ لیکن اگر اس کو صحیح مان بھی لیا جائے کہ چونکہ ابوبکر نے مسلمانوں کی پیش نمازی کی تھی اس لیے ان کا خلیفہ ہونا ثابت ہے تو تاریخ اسلام میں اور کون سے خلیفہ رہے جو اس طرح پیش نمازی کی وجہ سے خلیفہ مقرر کیے گئے۔ کتنے مسلمان بادشاہ یا سلطان پیش نمازی کیا کرتے تھے یا کون کون سے پیش نماز اس قابلیت کی وجہ سے مسلمانوں کے حکمران بنے۔ کسی معمولی مسجد کو چھوڑیئے ۔کیا حرمین شریفین کے پیش امام مسلمان حکومتوں کے بادشاہ ہیں؟