اللہ کا دوست اور اس کا دشمن کون ہے؟

اللہ کو راضی کرنے کے لئے اس کے دوستوں سے دوستی کرنا ضروری ہے اور اس سے بھی بڑھ کر اللہ کے دشمنوں سے دشمنی رکھنا ضروری ہے
ایک دلچسپ واقعے میں ، ہم یہ سیکھتے ہیں کہ مسلمان اللہ کے دوست اور اس کے دشمنوں کو آسانی سے کیسے پہچان سکتے ہیں:
ایک شخص نے رسول اللہ (ص) سے دریافت کیا: اے اللہ کے رسولؐ! میں کس طرح جان سکتا ہوں کہ میری دوستی اور میری دشمنی اللہ کے واسطے ہے اور اللہ کا دوست کون ہے ، جس کے ساتھ مجھے دوستی کرنی چاہئے اور اللہ کا دشمن کون ہے ، جس کو مجھے اپنا دشمن سمجھنا چاہئے؟

رسول خدا (ص) نے علی (ع) کی طرف اشارہ کیا اور فرمایا: کیا تم اس شخص کو دیکھ رہے ہو؟

اس شخص نے جواب دیا: ہاں ، اللہ کے رسول
حضور نے فرمایا: وہ جو علیؑ کا دوست ہے ، وہ اللہ کا دوست ہے ، لہذا تم کو بھی اس سے دوستی کرنا چاہئے۔ اسی طرح ، جو علی کا دشمن ہے ، وہ اللہ کا دشمن ہے۔ لہذا ، تم کو بھی اسے اپنا دشمن سمجھنا چاہئے۔
اس کے دوست کے ساتھ دوستی کرو ، چاہے علیؑ نے تمھارے کے باپ یا تمھارے کے بیٹے کو مار ڈالا ہو۔ علیؑ کے دشمن سے دشمنی رکھو ، خواہ وہ تمھارا باپ ہویا بیٹا۔
(تفسیر امام حسن عسکری علیہ السلام کا صفحہ ٤٩ زیر سوره فاتحہ آیت نمبر ٧)
یہ اور اسی طرح کی روایات اللہ کے دوست اور دشمنوں کی واضح طور پر نشاندہی کرتی ہیں۔

اگرچہ علی (ع) کے دوست اچھی طرح سے معروف ہیں ، لیکن وہ امام (ع) کے دشمن ہیں جو مسلمانوں میں کسی حد تک بحث و مباحثے کا سبب بنے ہیں۔
وہ لوگ جنہوں نے امام (ع) کے ساتھ جنگ کی اور ان کے حقوق کے بارے میں ان سے اختلاف کیا ، ان کے گھر والوں پر حملہ کیا اور ان کی املاک غصب کیں ، ان کی شناخت تو مسلمان کرتے ہیں ، لیکن وہ ان کو علی (ع) کے دشمن اور اسی کی بنا پر الله کے دشمن سمجھنے کو تیار نہیں ہیں ۔

ایک اہم نقطہ جو مسلمانوں کو اس طرح کی روایات سے محروم نہیں رکھنا چاہئے وہ یہ ہے کہ جب وہ امیرالمومنین علیہ السلام سے دشمنی کی بنا رسول خدا (ص) کے صحابہ اور ازواج کو اللہ کے دشمن کے طور پر پہچاننے میں ہچکچاتے ہیں ، در حقیقت، خدا کے رسولؐ نے ان کو یہ حکم دیا ہے کہ وہ ان سے بیزار رہیں یہاں تک کہ اگر وہ ان کے اپنے باپ اور بیٹے ہی کیوں نہ ہو
جب کسی کے اپنے باپ / بیٹے کو لازمی طور پر دشمن سمجھا جائے ، تو پھر رسول اللہ (ص) کے صحابہ اور بیویوں سے ہچکچاہٹ کرنے کا سوال ہی کہاں ہے ؟

Short URL : https://saqlain.org/6uv9