ایک دن امام جعفر صادق علیہ السلام کا ایک شاگرد فضّال ابن حسن کوفی اور اس کے ایک دوست کا ابو حنیفہ سے سامنا ہوا کہ اس وقت ابو حنیفہ سے علم فقہ و علم حدیث پڑھنے والے اس کے بہت سے شاگرد بھی اس کے ساتھ تھے۔
فضّال نے اپنے دوست سے کہا کہ خدا کی قسم میں ابو حنیفہ کو علمی طور پر شرمندہ کیے بغیر نہیں چھوڑوں گا، فضال کے دوست نے اس سے کہا:
تم ابو حنیفہ کے علمی مقام اور دلائل سے استدلال کرنے کی قوت سے آگاہ ہو۔ فضال نے کہا: چپ ہو جاؤ ! کیا تم نے کبھی دیکھا ہے کہ ایک گمراہ انسان کی دلیل، مؤمن کی دلیل پر غالب آ جائے ؟
فضال نے آگے ہو کر سلام کیا تو وہاں پر حاضر تمام لوگوں نے اسکے سلام کا جواب دیا۔
فضّال نے ابو حنیفہ سے مخاطب ہو کر کہا: تم پر خدا کی رحمت ہو ! میرا ایک بھائی ہے کہ جو کہتا ہے کہ رسولؐ خدا کے بعد بہترین مخلوق علیؑ ابن ابی طالب ہیں لیکن میں اس سے کہتا ہوں کہ نہ ایسا نہیں ہے بلکہ بہترین مخلوق رسولؐ خدا کے بعد ابو بکر اور اس کے بعد عمر ہیں، آپ کی اس بارے میں کیا رائے ہے ؟
ابو حنيفہ نے تھوڑا غور کرنے کے بعد سر اوپر اٹھایا اور کہا: (اس سے کہو) ابو بکر اور عمر کی منزلت و عزت کے لیے یہی کافی ہے کہ وہ دونوں رسولؐ خدا کے پہلو میں دفن ہیں، (حالانکہ علیؑ ابن ابی طالب بہت دور نجف میں دفن ہیں) کیا ان دونوں کی علیؑ پر برتری و افضلیت کے لیے اس سے بڑھ کر کوئی بہتر دلیل ہو سکتی ہے؟
فضّال نے کہا: میں نے بالکل یہی بات اس کو بتائ، لیکن اس نے مجھے جواب دیا کہ:
خدا کی قسم اگر تم ان دونوں کے برحق و افضل ہونے پر دلیل رسولؐ خدا کے ساتھ دفن ہونا بتاوگےتو مجہے یہ بتاو کہ : ایک ایسی جگہ پر دفن ہو ناکہ جس پر وہ دونوں کسی بھی قسم کا کوئی حق نہیں رکھتے کیونکر فضیلت ہو سکتی ہے، ان دونوں نے تو رسولؐ خدا پر ظلم کیا ہے، کیونکہ اگر وہ جگہ ابو بکر و عمر کی تھی(جو کہ نہیں تھی) اور انھوں نے اس جگہ کو رسولؐ خدا کی خدمت میں ہدیہ کے طور پر پیش کیا تھا تو اب انھوں نے ہدیہ کے طور پر دی گئی جگہ میں دفن ہو کر بہت ہی برا کام کیا ہے، اس لیے کہ انھوں نے اپنے اس کام سے رسولؐ خدا کو دیا ہوا ہدیہ واپس لے لیا اور اسے اپنے استعمال و اختیار میں لے لیا اور یہ کام ایک طرح سے وعدہ خلافی اور عہد شکنی شمار ہوتا ہے۔
ابو حنيفہ نے تھوڑی دیر خاموش ہونے کے بعد کہا: تم اپنے بھائی سے کہو کہ اصل میں وہ زمین نہ تو ان دونوں کی تھی اور نہ ہی رسولؐ خدا کی، بلکہ وہ زمین عائشہ اور حفصہ کا حق میراث تھی، اسی لیے وہ سب وہاں دفن ہوئے ہیں۔
فضال نے ابو حنیفہ سے کہا کہ میں نے اتفاق سے یہی بات اپنے بھائی سے کہی ہے، لیکن اس نے پلٹ کر مجھے یہ جواب دیا کہ:
کیا تم جانتے ہو کہ رسولؐ خدا جب دنیا سے گئے تو ان کی نو بیویاں تھیں تو پھر اس زمین میں ہر بیوی کا حصہ 1/8 ہو گا، لہذا ہر زوجہ کے لیے تو بہت ہی کم جگہ حصے میں آئے گی، تو اب ان دونوں نے کیسے اپنے حق سے اضافی جگہ کو اپنے اختیار میں لیا اور غصب کر لیا؟؟
اس کے علاوہ کیا وجہ ہے کہ رسولؐ خدا کی بیٹی فاطمہؑ زہرا اپنے والد گرامی سے میراث نہ پائیں!؟ لیکن عائشہ اور حفصہ کو رسولؑ خدا کی بیویاں ہونے کے باوجود ان حضرت سے میراث ملے!
ابو حنيفہ نے جب اس بات کو سنا تو اپنے شاگردوں سے کہا: اس کو مجھ سے دور ہٹاؤ کہ یہ رافضی خبیث ہے۔
(الفصول المختاره ، سيّد مرتضي ، ص74 كنز الفوائد ، ابو الفتوح كراجكي ، ص 135 احتجاج طبرسي ج2 ص149)