Imam Sajjad (as)

امام زین العابدین علیہ السلام ‘زین المجاہدین’ بھی ہیں۔

جب کربلا کے قیدیوں کو ابن زیاد ملعون کے دربار میں پیش کیا گیا تو اس ملعون نے دوران گفتگو امام زین العابدینؑ کو قتل کر دینے کی دھمکی دی۔
امام علیہ السلام نے اس لعین کو اس طرح جواب دیا: “اے ابن زیاد کیا تو ہم کو قتل سے ڈراتا ہے؟
کیا تو نے اب بھی نہیں جانا کہ قتل ہوجانا ہماری عادت ہے اور راہ خدا میں شہید ہوجانا ہمارے لیے کرامت ہے۔”
(الفتوح، ج 1، ص 229؛ العوالم الإمام الحسين (عليه السلام)، ص 384)

اہل تسنن کے یہاں یہ قول، رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے منسوب کیا جاتا ہے کہ آنحضرتؐ نے فرمایا “إن من أعظم الجهاد كلمة عدل عند سلطان جائر” (جامع ترمزی 2194) “بیشک سب سے عظیم جہاد یہ ہے کہ ایک ظالم بادشاہ کے سامنے کلمہ حق بولا جائے۔” رسولؐ اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اقوال میں یہ قول بھی مشہور ہے کہ میدان جنگ میں اسلام کی خاطر جنگ کرنا جہاد تو ہے مگر اسے ‘جہاد اصغر’ سمجھا جاتا ہے۔ ‘جہاد اکبر’ یہ ہے کہ انسان خود اپنے نفس سے جنگ کرے۔ اسی عنوان میں اپنے اعضا و جوارح سے لوگوں کو نیکی کی دعوت دینا اور برائ سے روکنا بھی ایک عظیم جہاد ہے۔ اس جہادِ عظیم کی ایک شکل یہ ہے کہ ایک ظالم بادشاہ کو ظلم سے روکا جائے اور اس کے ذریعہ سے معاشرے کی اصلاح کی جائے۔ کیوں کہ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ‘الناس علیٰ دین ملوکھم’ ‘عوام اپنے بادشاہ کے راستے پر چلتے ہیں۔’

تمام انبیاء کرام اپنے اپنے زمانے میں اس جہاد کو انجام دیتے رہے ہیں۔ ان سب کو اپنی اپنی قوم کے طاقت ور اور بارسوخ افراد سے جہاد بالسان کرنا پڑا اور اس کی وجہ سے ان کو تبلیغ دین میں سخت مزاحمت کا سامنا کرنا پڑتا تھا۔ مثلاً جناب موسیٰؑ کو فرعون کے ستم برداشت کرنے پڑے تو جناب ابراہیمؑ کو نمرود کی مخالفت کا سامنا کرنا پڑا۔ یقینًا تمام انبیاء کرام مجاہد اسلام رہے ہیں۔ مگر جس طرح کا جہاد چوتھے امام حضرت زین العابدین علیہ السلام کو کرنا پڑا وہ اپنی مثال آپ ہے۔

بارِ امامت جب آپؑ کے کاندھوں پر آیا تو آپؑ شدید مسائل میں مبتلا تھے۔ روز عاشورہ کے مصائب برداشت کرنا، سید الشہدا (ع) کی شہادت کا غم، دیگر احباب کی شہادت کا غم، بیماری کی شدت اور اس پر اسیری کی زحمتیں، خیام حسینیؑ کا جلا دیا جانا، اہل حرم کا قیدی بنایا جانا، آپؑ کو ان تمام مصائب و آلام کا بہ یک وقت سامنا کرنا پڑا۔ اس کے بعد کربلا سے کوفہ اور کوفہ سے شام کے سفر میں دشمنوں کے لعن و طعن کو بھی مسلسل برداشت کرنا پڑا۔ ان تمام مراحل میں سب سے مشکل وقت دربار شام میں یزید ملعون کا سامنا کرنا تھا۔ یزید شراب سے زیادہ اپنی حکومت کے نشے میں ڈوبا ہوا تھا۔ وہ لعین سید الشہداء (ع) کے سر اقدس کی بے حرمتی کر رہا تھا اور اہل حرم کے قیدی بنائے جانے کا جشن منا رہا تھا۔ اس ملعون نے چاہا کہ اپنے دربار میں رسولؐ اللہ کے خاندان کی بے حرمتی کرے۔ مگر امام زین العابدینؑ نے اس کے غرور کو توڑنے والا ایک ایسا خطبہ ارشاد فرمایا جو تاریخ میں آج تک یزید کی شکست کا اعلان بن کر چسپاں ہوگیا ہے۔

دربار یزید میں امام زین العابدینؑ کا خطبہ:

بِسْمِ اللّٰهِِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيْم

اے لوگو! خدا نے ہم اہلبیتِؑ رسولؐ کو چھ امتیازات اورسات فضیلتوں سے نوازا ہے۔
ہمارے چھ امتیازات
•علم،
•حلم،
• بخشش و سخاوت، •فصاحت،
• شجاعت اور
• مؤمنین کے دلوں میں اللہ نے ہمارے لیے محبت کو ودیعت کیا ہے۔

ہماری سات فضیلتیں یہ ہیں:
• ہم خدا کے برگزیدہ ہیں پیغمبرحضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ہم میں سے ہیں۔
• صدیق اکبر امیر المؤمنین علی بن ابی طالب ہم میں سے ہیں۔
• جعفر طیار ہم میں سے ہیں۔
• شیر خدا اور شیر رسول خدا حمزہ بن عبد المطلب سید الشہداء ہم میں سے ہیں۔
• اس امت کے دو سبط حسن و حسین علیہ السلام ہم میں سے ہیں۔
• زہرائے بتول سلام اللہ علیہا ہم میں سے ہیں اور
• مہدی امت بھی ہم میں سے ہیں۔

لوگو! اس مختصر تعارف کے بعد جو مجھے جان گیا وہ جان گیا اور جو مجھے نہیں جانتا وہ جان لے کہ میں اپنے خاندان اور آباء و اجداد کو متعارف کروا کر اپنا تعارف کراتا ہوں۔

لوگو! میں مکہ و مِنٰی کا بیٹا ہوں،
میں زمزم و صفا کا بیٹا ہوں،
میں اس بزرگوار کا بیٹا ہوں جس نے حجرالاسود کو اپنی عبا کے پلو سے اٹھاکر اپنے مقام پر نصب کیا،
میں بہترینِ عالِم کا بیٹا ہوں،
میں اس عظیم ہستی کا بیٹا ہوں جس نے احرام باندھا اور طواف کیا اور سعی بجا لائے،
میں بہترین طواف کرنے والوں اور بہترین لبیک کہنے والوں کا بیٹا ہوں؛
میں اس بزرگوار کا بیٹا ہوں، جو براق پر سوار ہوئے،
میں ان کا بیٹا ہوں جنھوں نے معراج کی شب مسجدالحرام سے مسجدالاقصٰی کی طرف سیر کی،
میں اس ہستی کا بیٹا ہوں جن کو جبرئیلؑ سدرۃ المنتہی تک لے گئے،
میں ان کا بیٹا ہوں جو معراج پر اللہ سے سب زیادہ قریب ہوئے اور سب سے زیادہ قریب تر ہوئے حتیٰ کہ ان کے اور خدا کے درمیان دو کمان یا اس سے کم کا فاصلہ رہ گیا۔
میں ہوں اس اعلیٰ صفات کا بیٹا جس نے آسمان کے فرشتوں کے ہمراہ نماز ادا کی۔
میں اس رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا بیٹا ہوں جس کو خدائے بزرگ و برتر نے وحی بھیجی،
میں محمد مصطفٰی (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) اور علی مرتضی (علیہ السلام) کا بیٹا ہوں۔
میں اس شخصیت کا بیٹا ہوں جس نے مشرکین اور اللہ کے نافرمانوں کی ناک خاک میں رگڑ دی حتی کہ کفار و مشرکین نے کلمہ توحید کا اقرار کر لیا،
میں اس عظیم مجاہد کا بیٹا ہوں جنھوں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کے سامنے اور آپ (ص) کی رکاب میں دو تلواروں اور دو نیزوں سے جہاد کیا اور دوبار ہجرت کی اور دوبار رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کے ہاتھ پر بیعت کی؛ بدر وحنین میں کفار کے خلاف شجاعانہ جہاد کیا اورلمحہ بھر کفر نہیں برتا۔

میں اس پیشوا کا بیٹا ہوں جو مؤمنین میں سب سے زيادہ نیک و صالح، انبیاء علیہم السلام کے وارث، ملحدین کا قلع قمع کرنے والے، مسلمانوں کے امیر، مجاہدوں کے روشن چراغ، عبادت کرنے والوں کی زینت، خوف خدا سے گریہ و بکا کرنے والوں کے تاج، اور سب سے زیادہ صبر و استقامت کرنے والے اور آل یٰس (یعنی آل محمد (ص)) میں سب سے زیادہ قیام و عبادت کرنے والے ہیں۔میرے دادا (علی) وہ ہيں جن کو جبرئیل (ع) کی تائید و حمایت اور میکائیل (ع) کی مدد و نصرت حاصل ہے۔

میں مسلمانوں کی ناموس کے محافظ و پاسدار کا بیٹا ہوں؛ وہی جو مارقین (جنگ نہروان میں دین سے خارج ہونے والے خوارج)، ناکثین (پیمان شکن کرنے والے اہل جمل) اور قاسطین (صفین میں امیرالمؤمنین (ع) کے خلاف صف آرا ہونے والے اہل ستم) کو ہلاک کرنے والے ہیں، جنھوں نے اپنے ناصبی دشمنوں کے خلاف جہاد کیا۔

میں تمام قریشیوں میں سب سے افضل اور برتر و قابل فخر شخصیت کا بیٹا ہوں اور اولین مؤمن کا بیٹا ہوں جنھوں نے خدا اور رسول (ص) کی دعوت پر لبیک کہا اور سابقین میں سب سے اول، متجاوزین اور جارحین کو توڑ کر رکھنے والے اور مشرکین کو نیست و نابود کرنے والے تھے۔

میں اس شخصیت کا فرزند ہوں جو منافقین کے لئے اللہ کے پھینکے ہوئے تیر کی مانند، عبادت گذاروں کی زبان حکمت ، دین خدا کے حامی و یار و یاور، اللہ کے ولی امر(صاحب ولایت و خلافت)، حکمت الہیہ کا بوستان اور علوم الہیہ کے حامل تھے؛ وہ جوانمرد، سخی، حسین چہرے کے مالک، تمام نیکیوں اور اچھائیوں کے جامع، سید و سرور، پاک و طاہر، بزرگوار، ابطحی، اللہ کی مشیت پر بہت زیادہ راضی، دشواریوں میں پیش قدم، والا ہمت اور ارادہ کرکے ہدف کو بہرصورت حاصل کرنے والے، ہمیشہ روزہ رکھنے والے، ہر آلودگی سے پاک، بہت زیادہ نمازگزار اور بہت زیادہ قیام کرنے والے تھے؛ انھوں نے دشمنان اسلام کی کمر توڑ دی، اور کفر کی جماعتوں کا شیرازہ بکھیر دیا؛ سب سے زیادہ صاحب جرأت، سب سے زیادہ صاحب قوت و شجاعت ہیبت، کفار کے مقابلے میں خلل ناپذیر، شیر دلاور، جب جنگ کے دوران میں نیزے آپس میں ٹکراتے اورجب فریقین کی اگلے صفیں قریب ہوجاتی تھیں وہ کفار کو چکی کی مانند پیس دیتے تھے اور آندھی کی مانند منتشر کردیتے تھے۔ وہ حجاز کے شیر اور عراق کے سید و آقا ہیں جو مکی و مدنی و خیفی و عقبی، بدری و احدی و شجر؛ اور مہاجری ہیں جو تمام میدانوں میں حاضر رہے اور وہ سیدالعرب ہیں، میدان جنگ کے شیر دلاور، اور دو مشعروں کے وارث (اس امت کے دو) سبطین “حسن و حسین (ع)” کے والد ہیں؛ ہاں! یہ میرے دادا علی بن ابی طالب علیہ السلام ہیں۔

امام زین العابدین نے مزید فرمایا: میں فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کا بیٹا ہوں میں عالمین کی تمام خواتین کی سیدہ کا بیٹا ہوں۔

پس امام زین العابدین نے اپنا تعارف کراتے ہوئے اس قدر “انا انا” فرمایا کہ حاضرین دھاڑیں مار مار کر اور فریادیں کرتے ہوئے رونے لگے اور یزید شدید خوف و ہراس کا شکار ہوا کہ کہیں لوگ اس کے خلاف بغاوت پر نہ اتر آئیں۔ پس اس ملعون نے مؤذن کو حکم دیا کہ اذان دے اور اس طرح اس نے امام (ع) کا کلام قطع کردیا۔

مؤذن نے کہا:

الله أكبر , الله أكبر

امام زین العابدین (ع) نے فرمایا: یقینًا خدا سب سے بڑا ہے اور کوئی چیز بھی اس سے بڑی نہیں ہے۔

مؤذن نے کہا:

أشهد أن لاإله إلا الله

امام زین العابدین (ع) نے فرمایا: میرے بال، میری جلد، میرا گوشت اور میرا خون سب اللہ کی وحدانیت پر گواہی دیتے ہیں۔

مؤذن نے کہا: أشهد أن محمدا رسول الله

امام زین العابدین (ع) نے سر سے عمامہ اتارا اور مؤذن سے مخاطب ہوکر فرمایا: اے مؤذن! تمھیں اسی محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا واسطہ، یہیں رک جاؤ لمحہ بھر، تا کہ میں ایک بات کہہ دوں؛ اور پھرمنبر کے اوپر سے یزید ملعون سے مخاطب ہوئے اور فرمایا:
اے یزید! کیا محمد (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) میرے نانا ہیں یا تمھارے؟ اگر کہو کہ تمھارے نانا ہیں تو جھوٹ بولو گے اور کافر ہوجاؤ گے اور اگر سمجھتے ہوکہ آنحضرت (ص) میرے نانا ہیں تو بتاؤ کہ تم نے ان کی عترت اور خاندان کو قتل کیوں کیا؟؟
اور تم نے میرے والد کو کیوں قتل کیا؟؟ اور ان کے اور میرے خاندان کو اسیر کیوں کیا؟؟

(مناقب ابن شهرآشوب، ۱۳۷۹: ۴/۱۶۸ – ۱۶۹؛ الاحتجاج طبرسی، ۱۴۰۳: ۲/۳۱۰‌-۳۱۲‌؛ حسینی‌ موسوی، ۱۴۱۸: ۲/۳۹۱-۳۹۶)

Short URL : https://saqlain.org/so/dphs