جب عوام نے بغاوت کرکے تیسرے خلیفہ عثمان بن عفّان کو قتل کردیا تو خلافت کی گدّی یک بارگی خالی ہوگئ۔ لوگ ہجوم در ہجوم مولائے کائنات علی ابن ابی طالب علیہما السلام کے پاس آے تاکہ وہ امت کی باگ ڑور اپنے ہاتھوں میں لے لیں یعنی ان کے چوتھے خلیفہ بن جائیں۔ مگر آپؑ انکار کرتے رہے یہاں تک کہ ان لوگوں کے اصرار پر آپؑ کو مجبورًا یہ حکومت قبول کرنی پڑی۔ پھر یہی لوگ ان کے خلاف جنگ پر آمادہ ہوگئے۔ ان ہی میں ایک گروہ خوارج کا تھا۔ یہ گروہ جنگ صفین کے دوران وجود میں آیا۔ ان کا یہ کہنا تھا کہ “الحکم للہ” -حکومت صرف الله کرسکتا ہے اور حکم بھی صرف اسی کا چلےگا۔ انہوں نے اس جملہ کو سمجھنے میں بہت بڑی غلطی کی اور ان کی اس غلط فکر نے شدّت اختیار کر لی یہاں تک کہ وہ اپنی اس خام خیالی میں علی علیہ السلام کو کافر سمجھنے لگے۔ حتیٰ کہ ان کی اس شدت پسندی نے ان کو خلیفہء برحق مولاے کائنات علی علیہ السلام سے جنگ کرنے پر اکسایا۔ آخر کار نہروان کے علاقے میں یہ جنگ مولاے کائنات کی فوج اور خوارج کے درمیان ہوئ جس میں بہت سے خوارج مارے گے۔ سیاسی طور پر یہ لوگ نابود ہوگئے مگر ان کی فکر ان کے بعد بھی زندہ رہی۔ تاریخ میں عبد الله بن نافع نام کے ایک خوارج کا مناظرہ امام باقرؑ سے ملتا ہےجس کو ہم یہاں پیش کررہے ہیں۔
روایت میں ہے کہ عبداللّٰہ بن نافع ارزق نام کے ایک شخص کو ایک ایسے عالم کی تلاش تھی جو اس کے ساتھ مناظرہ کرے اور اسے کے لیے یہ ثابت کر دے کہ امیرالمؤمنین علیؑ بن ابی طالبؑ اہل نہروان کی جنگ میں حق بجانب تھے اور انھوں نے اس معاملے میں کوئ ظلم نہیں کیا تھا۔
وہ چاہ رہا تھا کہ اولاد علی علیہ السلام میں سے ہی کوئ اس سے یہ مناظرہ کرے مگر وہ اس بات سے ناواقف تھا کہ اولاد امیرالمؤمنین علیہ السلام میں کوئ عالم ہے جو اسے اس کی جہالت کا احساس دلا سکتا ہے۔
جب اس نے لوگوں سے دریافت کیا تو اس کو پتہ چلا کہ امیر الموءمنین علیہ السلام کی نسلِ پاک میں سے ایک عالم موجود ہے جن کا نام محمّد باقر ہے اور وہ مدینہ میں مقیم ہیں۔
حضرت محمدؑ بن علیؑ بن الحسینؑ کے وجود بابرکت کی خبر پاتے ہی وہ اپنے بڑے ساتھیوں کی ایک جماعت کے ساتھ مدینہ ان سے ملاقات کے لیے آیا۔
امامؑ کو جب اس بات کی خبر ملی تو نے دریافت کیا کہ اسے مجھ سے کیا کام ہے؟ یہ تو مجھ سے اور میرے پدر بزرگوار سے صبح وشام بیزاری کا اظہار کرتا ہے۔
جب امامؑ کے کوفہ کے رہنے والے صحابی ابو بصیر نے امامؑ سے اس کے آنے کا سبب بیان کیا تو امامؑ نے فرمایا “یہ میرے پاس مناظرہ کے لیے آیا ہے؟” ابو بصیر نے عرض کیا “جی ہاں ایسا ہی ہے۔”
امامؑ نے اپنے غلام کو حکم دیا کہ اس مسافر کے ٹہرنے کا انتظام کرو،اس کی سواری کو ٹھہراؤ اور اس کی مناسب میزبانی کرو اور اسے کل آنے کو کہو۔
دوسرے دن عبداللّٰہ بن نافع اپنے مخصوص ساتھیوں کے ساتھ حضرت کی خدمت میں حاضر ہوا، امام ؑ نے مہاجرین و انصار کو جمع کیا۔ جب امامؑ تشریف لائے تو ایسا معلوم ہوتا تھا کہ ماہ نیم نکل آیا ہو۔
پھر امامؑ نے حمد خدا بیان کی توحید و رسالت کی گواہی دینے کے بعد لوگوں سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا “اے گروہ مہاجرین و انصار تم میں سے جو شخص امیرالمؤمنین علیؑ بن ابی طالبؑ کے مناقب سے واقف ہے بیان کرے۔”
لوگ کھڑے ہو ہو کر مناقب امیرالمؤمنینؑ بیان کرنے لگے۔ عبداللّٰہ بن نافع نے کہا کہ “میں ان مناقب کو تسلیم کرتا ہوں لیکن امیرالمؤمنین علی بن ابی طالب علیہ السلام تو ‘حکمین’ کے تقرر کے بعد (معاذاللّٰہ) کافر ہو گئے۔” لوگ مناقب بیان کرتے رہے یہاں تک کہ رسول خداؐ کی حدیث بیان ہوئی کہ “کل میں اس مرد کو علم دوں گا جو خدا اور اس کے رسول صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم کو دوست رکھنے والا ہے اور خدا اور رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اسے دوست رکھتے ہیں وہ بڑھ بڑھ کرحملہ کرنے والا ہے اور فرار اختیار کرنے والا نہیں ہے اور میدان جہاد سے اس وقت تک نہ لوٹے گا جب تک خداوند عالم اسے فتح عنایت نہ فرما دے”۔
اس کے بعد امامؑ عبداللّٰہ بن نافع سے مخاطب ہوئے :”بتاؤ تم اس حدیث کے بارے میں کیا کہتے ہو؟” اس نے جواب دیا: “بے شک حدیث صحیح ہے لیکن بعد میں ان سے کفر کا اظہار ہوا۔” جس پر امامؑ نے فرمایا “تیری ماں تیرے غم میں روئے!!
تو بتا جس دن خدا نے علیؑ بن ابی طالبؑ کو اپنا محبوب بنایا ان سے محبت کی، کیا خدا کے علم میں نہیں تھا کہ یہ اہل نہروان کو قتل کریں گے؟
اگر تو یہ کہتا ہے کہ خدا نہیں جانتا تھا تو تو کافر ٹھہرا۔”
عبداللّٰہ نے تسلیم کیا کہ خدا جانتا تھا، امامؑ نے پوچھا خداوند عالم نے حضرت علیؑ بن ابی طالب ؑ سے اس وجہ سے محبت کی کہ علیؑ اس کی اطاعت کریں گے یا اس لیے کہ وہ اس کی نافرمانی کریں گے؟ ابن نافع نے کہا اس وجہ سے محبت کی کہ وہ اس کی اطاعت کریں گے۔
امامؑ نے فرمایا “بس اب بحث ختم ہوئی، تونے مان لیا کہ علی ابن ابی طالب نے خوارج کو اللہ کی اطاعت میں قتل کیا تھا”، وہ کہتا ہوا اٹھا کہ “آپ حضرات سفید و سیاہ سب کا علم رکھتے ہیں۔
خدا بہتر جانتا ہے کہ اپنی رسالت کو کن لوگوں میں قرار دے۔”