بسم الله الرحمن الرحيم
امام موسیٰ کاظم علیہ السلام اور فدک کے حدوداربعہ
فدک کے غصب ہونے کا واقعہ تاریخ اسلام میں ایک عظیم حیثیت رکھتا ہے۔ اس واقعے میں رسولؐ کی بیٹی اور رسولؐ کا خلیفہ ہونے کا دعوی کرنے والے حاکم کا اختلاف تھا۔ اس زمانے میں خلیفہ نے فدک دینے سے انکار کر دیا اور اس کو سرکاری ملکیت بنا لیا جبکہ رسول الله صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسے جناب فاطمہ سلام الله علیہا کی ذاتی ملکیت میں دے دیا تھا۔ مگر بعد میں آنے والے خلفاء نے عوام کی بھلائی حاصل کرنے کے لیے اس باغ کو اولاد فاطمہؑ کو لوٹایا تا کہ لوگ انھیں آل محمّدؐ کا خیر خواہ سمجھیں۔ اسی طرح کی ایک ترکیب بنی عبّاس کے ایک بادشاہ ہارون رشید نے کی ۔۔۔۔
علامہ یوسف بغدادی سبط ابن جوزی حنفی تحریر فرماتے ہیں کہ ایک دن ہارون رشید نے حضرت امام موسیٰ کاظم علیہ السلام سے کہا کہ آپ فدک لینا چاہیں تو میں دے دوں،آپ نے فرمایا کہ میں جب اس کے حدود بتاؤں گا تو تو اسے دینے پر راضی نہ ہوگا اور میں اسی وقت لے سکتا ہوں۔
جب اس کے پورے حدود دیئے جائیں، اس نے پوچھا کہ اس کے حدود کیا ہیں آپ نے فرمایا پہلی حد، عدن ہے ، دوسری حد سمر قند ہے، تیسری حد افریقہ ہے، اور چوتهی حد سیف البحر ہے جو خزر اور آرمینیہ کے قریب ہے۔
یہ سن کر ہارون رشید آگ بگولہ ہوگیا -اور کہنے لگا کہ پهر ہمارے لیے کیا رہا؟ حضرت نے فرمایا کہ اسی لیے تو میں نے لینے سے انکار تها – اسی واقعہ کے بعد ہی سے ہارون رشید حضرت کے در پئے قتل ہوگیا ۔
حوالہ : خواص الامتہ علامہ سبط ابن جوزی صفحہ نمبر 416 طبع لاہور
اس حدیث میں جو حدود بتاۓ گے ہیں وہ اس وقت کی مسلم حکومت کی سرحدیں تھیں۔ اس سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ فدک صرف ایک باغ نہیں ہے بلکہ پوری اسلامی مملکت ہے۔ یعنی امام نے ہارون رشید پر یہ ظاہر کر دیا کہ تجھے اگر ہمارا حق لوٹانا ہے تو ہمارا حق مسلمانوں کی حکومت ہے وہ ہمیں لوٹادے۔
اس سے یہ بھی واضح ہوجاتا ہے کہ جناب فاطمہ سلام الله علیہا کا مطالبہ صرف باغ فدک نہ تھا بلکہ یہ ان کے شوہر حضرت علیؑ کے مطالبہء خلافت کا پیش خیمہ تھا جسے ابو بکر نے غصب کرلیا تھا۔