امّ المومنین خدیجہؑ سے عائشہ کا حسد

حضرت خدیجہؑ رسولِ خداؐ کی پہلی زوجہ ہونے کے ساتھ ساتھ اسلام قبول کرنے والی پہلی خاتون بھی ہیں. آنحضرتؐ کی نگاہ میں وہ ایک عظیم الشّان مقام اور بلند مرتبہ رکھنے والی خاتون ہیں. آنحضرتؐ کسی بھی عورت کو حضرت خدیجہؑ کے ہم پلّہ نہیں قرار دیتے تھے اور ہمیشہ ان کی تعریف و توصیف فرماتے رہتے تھے. یہی نہیں بلکہ انھیں اپنی دوسری تمام ازواج پر بھی فوقیت دیتے تھے. نہ صرف جناب خدیجہؑ بلکہ اُن سے وابستہ ہر فرد کی تعظیم کے لئے آنحضرتؐ کوشاں رہتے تھے-
رسولِ خداؐ حضرت خدیجہؑ سے اس قدر محبت اور ان کا اتنا احترام کرتے تھے کہ جب تک وہ زندہ رہیں آنحضرتؐ نے دوسری شادی نہیں کی- حضرت خدیجہؑ کے بارے میں رسولِ خداؐ کی قدر دانی صرف حضرت خدیجہؑ کی زندگی تک ہی محدود نہیں تھی بلکہ ان کی رحلت کے بعد بھی آنحضرتؐ انھیں یاد فرماتے تھے اور ان کی تعریف و تکریم فرماتے تھے-

پیغمبر اسلامؐ نے فرمایا ہے:

“اشْتَاقَتِ‏ الْجَنَّةُ إِلَى‏ أَرْبَعٍ‏ مِنَ‏ النِّسَاءِ- مَرْيَمَ بِنْتِ عِمْرَانَ وَ آسِيَةَ بِنْتِ مُزَاحِمٍ زَوْجَةِ فِرْعَوْنَ وَ هِيَ زَوْجَةُ النَّبِيِّ فِي الْجَنَّةِ وَ خَدِيجَةَ بِنْتِ خُوَيْلِدٍ زَوْجَةِ النَّبِيِّ فِي الدُّنْيَا وَ الْآخِرَةِ وَ فَاطِمَةَ بِنْتِ مُحَمَّد” [١]

ترجمہ:
بہشت چار عورتوں کی مشتاق ہے، مریم بنت عمران، آسیہ بنت مزاحم {فرعون کی بیوی} کہ بہشت میں پیغمبر کی بیوی ہے، خدیجہ بنت خویلد، دنیا و آخرت میں رسولِ خداؐ کی بیوی اور فاطمہ بنت محمدؐ۔
کتب صحاح اور مسانید کے مطالعہ سے یہ ظاہر ہوجاتا ہے کہ عائشہ کو رسولؐ الله کی دوسری بیویوں سے بہت زیادہ حسد رہا کرتا تھا. “واقعہ مغافیر” اس کی کھلی مثال ہے. اسی طرح جناب ماریہ والدہ ابراہیم کے ساتھ جو انہوں کیا اس کا ذکرتو قرآن کی تفاسیر میں بھی درج ہے. اتنا ہی نہیں بلکہ عائشہ کو رسولؐ الله کی پہلی زوجہ جناب خدیجہؑ سے بہت زیادہ حسد رہا جبکہ اُن کاپہلے ہی انتقال ہو چکا تھا. کتاب صحیح بخاری کتاب ٧٣ کی ایک روایت میں عائشہ کے جملے ملتے ہیں کہ ” مجھے رسولؐ الله کی کسی زوجہ سے اتنی جلن نہیں ہوئ جتنی خدیجہؑ سے ہوئ حالانکہ میں نے انہیں دیکھا بھی نہیں تھا……
عائشہ سے منقول ایک اور روایت صحیح مسلم میں اس طرح ہے کہ:-
رسولؐ خدا گھر سے باہر نہیں نکلتے تھے مگر یہ کہ خدیجہ کو یاد کرتے تھے اور ان کی تعریف کرتے تھے۔ ایک دن میرے صبر کا پیمانہ بھر گیا اور میں نے کہا، وہ تو صرف ایک بوڑھیا تھی اور خدا نے اس کے بدلے میں اس سے بہتر آپ کو دی ہیں۔

پیغمبر اکرمؐ اس طرح غضبناک ہوئے کہ آپ کے سر کے بال غصّے کی وجہ سے ہلنے لگے اس کے بعد فرمایا:

“وَ اللَّهِ لَقَدْ آمَنَتْ‏ بِي‏ إِذْ كَفَرَ النَّاسُ‏ وَ آوَتْنِي إِذْ رَفَضَنِي النَّاسُ وَ صَدَّقَتْنِي إِذْ كَذَّبَنِي النَّاسُ وَ رُزِقَتْ مِنِّي الْوَلَدَ حَيْثُ حُرِمْتُمُوهُ قَالَتْ فَغَدَا وَ رَاحَ عَلَيَّ بِهَا شَهْر”[٢]

ترجمہ:
خدا کی قسم خدانے مجھکو اس سے بہتر کوئ عورت عطا نہیں کی وہ مجھ پر اس وقت ایمان لائیں جب لوگ کفر اختیار کئے ھوئے تھے انہوں نے میری اس وقت تصدیق کی جب لوگ مجھکو جھٹلا رہے تھے اور انہوں نے اپنے مال کے ذریعہ میری اُس وقت مدد کی جب لوگوں نے مجھے ہر چیز سے محروم کردیا تھا اور خدا نے صرف
انھیں کے ذریعہ مجھے اولاد عطا فرمائی اور میری کسی دوسری بیوی کے ذریعہ مجھے صاحب اولاد نہیں کیا۔”

رسول اکرم (صلی الله علیہ وآلہ وسلم) کے اس جواب سے آنحضرتؐ کی حضرت خدیجہؑ کیلئے محبت اور عقیدت واحترام کا اندازہ ہو تا ہے۔ وہیں اس روایت میں عائشہ کا رسولؐ الله کے سامنے اُنکی چہیتی بیوی کو بڑھیا کہنا عائشہ کے حسد کا اندازہ کراتا ہے جبکہ اُن کو اس بات کا بخوبی علم تھا کہ یہ جملہ آنحضرتؐ کی سخت ناراضگی کا سبب بنےگا. اس روایت سے یہ حقیقت بھی ظاہر ہو جاتی ہے کہ جناب خدیجہؑ ہی رسولؐ الله کی سب سے افضل زوجہ ہیں اور کوئ نھی دوسری بیوی اُن کے جیسی نہیں ہے.

پیغمبر اکرمؐ نے کبھی بھی جناب خدیجہ کو فراموش نہیں کیا اور ہمیشہ ان کے اخلاق حسنہ اور ان کی خوبیوں کو یاد کیا کرتے تھے۔ اور ان خواتین کے ساتھ بھی حسن سلوک کرتے تھے جو جناب خدیجہؑ کی دوست تھیں۔ ایک اور روایت میں عائشہ کا ہی قول ہےکہ “مجھے ازواج پیغمبر میں سے کسی پر اتنا حسد نہیں ہوا جتنا خدیجہ پر ہوا اس لیے کہ پیغمبرؐ ہمیشہ انہیں یاد کرتے تھے اور اگر گوسفند ذبح کرتے تھے تو خدیجہؑ کی دوستوں کے لیے بھی بھیجتے تھے.”
اس روایت سے
جناب عائشہ کہتی ہیں:
” ایک دن ایک بوڑھی عورت رسول خدا {ص} کی خدمت میں آگئی، آنحضرت نے اس کا کافی احترام کیا اور اس کے ساتھ مہربانی سے پیش آئے، جب یہ بوڑھی عورت چلی گئی، میں نے پیغمبر اکرمؐ سے اس عورت کے ساتھ مہربانی اور لطف و کرم سے پیش آنے کی وجہ پوچھی-

رسولِخداؐ نے جواب میں فرمایا:

“إِنَّهَا كَانَتْ‏ تَأْتِينَا زَمَنَ خَدِيجَةَ وَ إِنَّ حُسْنَ الْعَهْدِ مِنَ الْإِيمَان‏”[٣]

ترجمہ:
یہ بو ڑھی عورت اس زمانہ میں ہمارے گھر آتی تھی، جب خدیجہؑ زندہ تھیں اور خدیجہ کی امداد اور مہربانیوں سے سرشار ہوکر چلی جاتی تھی، بیشک نیکیوں اور سابقہ عہد و پیمان کی حفاظت کرنا ایمان کی نشانی ہے-”
رسولؐ اللہ اپنی نور چشم اور جگر گوشہ جناب فاطمہؐ کو
نسبتِ خدیجہؑ کی وجہ سے بھی بہت عزیز رکھتے تھے. اور
.شائد یہی نسبت ایک وجہ تھی کہ عائشہ کو جناب خدیجہؑ کی دختر جناب فاطمہؐ سے بھی نفرت رہاکرتی تھی.

حوالہ جات
[١] کشف الغمہ فی معرفۃ الائمۃ، ج1، ص٤٦٦۔
[٢] مکاتب الرسول(ص)، ج۳، ص٦٥٥۔
[٣] کشف الغمہ فی معرفۃ الائمۃ، ج١، ص٥٠٨۔

Short URL : https://saqlain.org/jiwp