ام الموءمنین جناب خدیجہ سلام الّلہ علیہا

وَ وَجَدَكَ عاءلا فاغني

ہم نے آپ کو محتاج پایا تو آپ کو غنی کر دیا.

جناب خدیجہؑ بنت خوّیلد نہ صرف یہ کہ رسولؐ خدا کی عزیزترین زوجہ ہیں بلکہ سب سے پہلے اسلام قبول کرنے والی خاتون بھی ہیں. بعض روایتوں کہ مطابق آپؑ ہی کی ذات مبارک تھی جس نے شروع سے ہی حضرت ختمی مرتبتؐ کو سہارا دیا اور انؐ کی حوصلہ افزائ کی جب سے آپؐ کے دوش مبارک پر بار نبوّت رکّھا گیا. آپؑ نے اسلام کی تبلیغ کے لئے اپنا سارا مال رسولؐ الله کی خدمت میں پیش کر دیا. یہ مال خدیجہؑ ہی تھا جس نے مسلمانوں کی کفالت کی جبکہ ساری دنیا نے ان کا بائکاٹ کر دیا تھا. اگر یہ سرمایا اسلام کے پاس نہ ہوتا تو اسلام کی کلی مکّہ کے صہرا میں ہی مرجھا کر رہ جاتی . آج یہ اسلام کا باغیچہ اس طرح نہ لہلہاتا .رسولؐ الله نے جب خانہ خدا میں مشرکین مکّہ کی سخت مخالفت کے باوجود، نماز پڈھنا شروع کیا تو آپ کے ہمراہ جناب خدیجہؑ بھی رہیں اور کھلے عام اپنے ایمان کا مظاہرہ کیا۔
تاریخ بتاتی ہے کہ رسولؐ الله سے آپؑ کا عقد ہونے سے پہلے جناب خدیجہؑ کا شمار عرب کے مشہور تاجروں میں ہوا کرتا تھا. بلکہ آپؑ کا لقب ہی امیرة العرب تھا. آپؑ کا لقب طاہرہ بھی لوگوں میں معروف تھا, اس کی وجہ یہ تھی کہ آپؑ دوسرے تاجروں کی طرح تجارت میں بےایمانی یا مکر و فریب سے کام نہ لیتیں تھیں. آپؑ اپنی آمدنی کا زیادہ تر حصّہ اپنے اقرباء کی کفالت پر خرچ کر دیتیں تھیں.اسی وجہ سے ان کے عزیز انہیں خدیجة الکبرآ کہا کرتے تھے. آپؑ کی دولت کا چرچہ اور شرافت عربوں میں مشہور رہا.شائد یہی وجہ تھی کہ جناب ابو طالبؑ آپ کی تجارتی نمائدگی کرتے تھے. ایسے ہی ایک سفر میں جناب ابوطالبؑ نے اپنی جان سے زیادہ عزیز بھتیجہ محمّد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو ہمراہ لے لیا. اس سفر کی داستانوں نے جناب خدیجہؐ کے دل میں رسولؐ الله کی محبّت پیدا کر دی جس نے آگے چل کر ایک مقدّس عقد کی شکل اختیّار کر لیا .آپؑ کے ذریئے الله نے رسولؐ الله کو اولاد عطا فرمائیں جن میں خاتون محشر جناب فاطمہؐ زہرا بھی ہیں. آپؑ کی حیات طیّبہ میں رسولؐ الله نے دوسرا نکاح نہیں کیا. آپؑ کی رحلت کے بعد رسولؐ الله نے اور بھی عقد فرمائے مگر جو محبّت آپؐ کے دل میں جناب خدیجہؑ کے لئے تھی وہ کسی اور کے لئے نہیں تھی. شائد خدا کو بھی یہ منظور ہوا کہ کوئ زوجہء رسولؐ جناب خدیجہؐ کا مقابلہ نہ کرے اسی لئے کسی اور کو اولاد کی نعمت نہ عطا کیا .شہید سبط جعفر نے کیا خوب کہا ہے:-
ہو خدیجہؑ پہ لاکھوں درود سلام
دہر میں جن سے نسلے نبیؐ رہ گئ.

جناب خدیجہؑ کی خدمات کا صلہ الله نے انھیں یہ دیا کہ انھیں چار نساء العامین میں شامل کر دیا. یہ وہ چار محترم خاتون ہیں جنھوں نے اپنے زمانہ کی حجّت خدا کی خدمت و پرورش کی ہے. ان میں ایک جناب آسیہؑ (زوجہء فرعون) ہیں, جنھوں نے جناب موسیؑ کی پرورش و حفاظت خود فرعون کے محل میں کیا. دوسرے جناب مریمؑ بنت عمران مادر جناب عیسیؑ ہیں جنکی طہارت کا ذکر قرآن مجید میں آیا ہے. جبکہ سیّدة النساء العالمین آپؑ کی دختر جناب فاطمة الزہراء ہیں جنہوں نے رسولؐ اللہ کی خدمت اس طرح کی کہ سرور کاءنات انھیں ام ابیہا بلانے لگے.

انؑ کی رحلت کے بعد بھی آنحضرتؐ جناب خدیجہؑ کو بڈی محبّت سے یاد کرتے رہے حتی کہ آپؐ کی دوسری ازواج کو ان سے حسد ہونے لگا. ایک بی بی نے تو اس جلن کا اظہار بھی رسولؐ کے سامنے کردیا حالانکہ اس بی بی کو یہ اندازہ تھا کہ اس طرح جناب خدیجہؑ کا ذکر کرنا رسولؐ اللہ کو نا گوار گزرے گا- اور وہی ہوا حضورؐ کو ان کے نازیبہ جملوں سے دلی تکلیف پہونچی اور آپؐ نے یہ ظاہر کردیا کہ ان کے نزدیک خدیجہؑ جیسا کوئ نہیں ہے .نہ صرف یہ بلکہ آنحضرتؐ جناب خدیجہؑ کےاحباب سے بھی نہایت شفقّت سے پیش آتے تھے.
آپؑ کی زندگی کا سب سے مشکل دور شعب ابو طالبؑ میں گزرا جب تمام اہل مکّہ نے بنی ہاشم کا اس بات پر باءکاٹ کر دیا کہ وہ محمّد صلی الله علیہ و آلہ وسلم کے دین کی ہمایت کر رہے تھے. ان دو سے تین سال کے عرصے میں اس خاندان کو بڈی مصیبتیں اٹھانی پڈی: زندگی سخت ہوگئ تھی, امن و آمان ختم ہو گیا, کھانے پینے کی چیزیں میسّر نہیں تھیں, کبھی کبھی ایک ہی کھجور کو دو فرد میں بانٹ کر گزارا ہوتا. اس دور کی تکلیفوں کا ہی گہرا اثر تھا کہ وہاں سے آزادی کے کچھ ہی دنوں بعد جناب خدیجہؑ نے فانی دنیا کو چھوڈ کر ابدی زندگی قبول کرلی. مفلسی کا یہ عالم تھا کہ اپنی شریک حیات کو دینے کے لئے سرور کاءناتؐ کے پاس کفن تک نہ تھا. اس سال کو آپؐ عام الحزن کے نام سے یاد فرماتے کیونکہ اسی سال آپ کے چچا اور محسن اسلام جناب ابو طالبؑ کا بھی انتقال ہوا تھا. جناب خدیجہؑ کی رحلت کے بعد حضورؐ کی زندگی دوبارہ اس طرح خشحال نہ ہو سکی.

Short URL : https://saqlain.org/h3i7