ام الموئمنین جناب خدیجہؑ: مومنوں کی حقیقی ماں

قرآن کریم نے ازواج نبیؐ کو موءمنین کی ماں ہونے کا رتبہ اور درجہ دیا ہے. حقیقی معنوں میں اس لقب کی سب سے زیادہ مستحق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پہلی زوجہ جناب خدیجة الکبراء کی ذات پاک ہے.افسوس اس بات کا ہے کہ موءرّخین اسلام نے جناب خدیجہ سلام اللہ علیھا کے فضائل اُس طرح نہیں بیان کیے جو اُن کے شایانِ شان ہیں. بنی اُمیّہ نے ہمیشہ سے بنی ہاشم کی دشمنی میں اُن کے ہر ایک فرد کے فضائل و مناقب تاحدِّ امکان چھپائے. اسی بغض و حسد کا نتیجہ تھا کہ بنی امیّہ کی حکومت میں امیر الموءمنین جیسی شخصیّت پر منبروں سے مسلسل لعنتیں بھیجی گئیں (معاذاللہ). اِسی دربار کے تاریخ لکھنے والوں نے اپنے منصوبے کے تحت جناب خدیجہؑ کے فضائل کم کر کے صرف یہی مشہور کیا کہ اُن کا بس مال ہی اسلام کے کام آیا. حالانکہ اُن کی خدمتیں اس سے کئ گنا زیادہ ہیں.
آپؑ ہی کے آنگن میں اسلام کے اس لہلہاتے درخت کا بیج بویا گیا. آپؑ ہی نے اسلام کی شروع سے پرورش کی,جبکہ کفّار قریش اس نئے مذہب کے سخت مخالف تھے. اگر جناب خدیجہؑ کی خدمتیں نہ ہوتیں تو اسلام کی کلی مکّہ کے ریگستان میں مرجھا کر رہ جاتی. ہر وہ چیز جس کی ضرورت اسلام کو تھی جناب خدیجہؑ نے پیش کر دی. جب سے نبی کریمؐ کے دوش مبارک پر نبوّت کا بوجھ پڑا, آپؑ نے اُن کا بھر پور ساتھ دیا.
دین کی تبلیغ میں آپؑ رسولؐ اللہ کے شانہ بشانہ رہیں. رسولؐ اللہ مستقل کئ شب و روز غارِ ہرا میں خدا کے بلاوے پر چلے جاتے, تو اُن کی ضرورت کی چیزیں آپؑ فراہم کرتیں. مشرکینِ مکّہ اسلام اور اس کے رسولؐ کا مزاق اڑاتے, ان کی باتوں پر طنزیہ جملہ کستے, جس سے آنحضرتؐ کو دلی تکلیف ہوتی, مگر گھر پہنچ کر یہ ساری تکلیفیں جناب خدیجہؑ کے اخلاق و محبّت کے سبب کافور ہوجاتیں. آپؑ کی وفات کے بعد بھی دوسری ازواج کی موجودگی کے باوجود آپؐ نے ہمیشہ جناب خدیجہؑ کی کمی کو محسوس کی ہے. رسول الله صلی الله علیہ و آلہ وسلم اس قدر اُن کی خدمتوں اور محبّت کا ذکر کرتے کہ بعض ازواجِ رسولؐ اُن سے حسد کرنے لگیں. آپؑ کا سارا مال غرباء و مساکین مسلمانوں کی کفالت پر خرچ ہوا. جب اسلام کی تبلیغ کا آغاز سرزمینِ مکّہ پر ہوا تو سب سے پہلے غلاموں اور سماجی طور پر کمزور لوگوں نے اِسے قبول کیا. اِن میں جناب بلال, جناب یاسر اور ان کی اہلیہ کی مثالیں دی جاتی ہیں. نتیجہ یہ ہوا کہ اِن غلاموں کے آقا اِن پر اور مظالم کرنے لگے. رسولؐ اللہ اِن غلاموں کو اُن کے آقاوں سے خرید کر آزاد کر دیتے. یہی ابتدائ فرزندانِ اسلام تھے جن کی کفالت میں جناب خدیجہؑ کی دولت استعمال ہوئ. نہ صرف یہ بلکہ جب کفّارِ مکّہ کے مظالم مسلمانوں پر حد سے زیادہ بڑھنے لگے تو رسولؐ اللہ نے ان میں کچھ کو حبشہ کی طرف ہجرت کر جانے کا حکم دیا, مقصد یہ تھا کہ اس سے اُن کی جان بھی بچ جائے اور پیغامات اسلام بھی دوسرے علاقوں تک پھیل جائیں. اس سفر کے اخراجات میں بھی جناب خدیجہؑ کی دولت خرچ ہوئ ہے. تاریخ بتاتی ہے کہ اس طرح کے دو سفر مسلمانوں نے کیے ہیں.
شعبِ ابوطالبؑ کی سختیّوں میں آپؑ خود بھوکی رہ کر مسلمانوں کی شکم پروری کرتی رہیں. اس طرح آپؑ کی مادری شفقت میں اسلام اور مسلمانوں کی نشو نما ہوئ ہے.
آپؑ کی دیگر خدمات رسولؐ اللہ کا ہر حال میں ساتھ دینا بھی ہے اور دو ایسی شخصیّتوں کی پرورش ہے,جنھوں نے اسلام کی بنیاد کو مضبوط رکّھا- امیر الموئمنین جناب علی ابن ابی طالب علیہ السلام اور سیّدة نساء العالمین جناب فاطمہ سلام اللہ علیہا. یہ دونوں وہ ہستیاں تھیں,جنھوں نے ہر گام اور ہر محاذ پر رسولؐ اللہ کی نصرت و مدد کی ہے. جناب سیّدہ ؐ نے اپنے پدربزرگوار کی اس طرح خدمت کی جس طرح ایک ماں اپنے بچّے کی خدمت کرتی ہے. یہی وجہ ہے کہ سرورؐ کائنات اپنی چہیتی بیٹی کو “ام ابیہا” کہا کرتے تھے…..
المیہ یہ ہے کہ
رسولؐ اللہ نے زندگی بھر جس زوجہ کی محبّت کا بارہا اظہار کیا, امّت نے انہیں فراموش کر دیا اور جس زوجہ نے رسولؐ کو بارہا اذیّت پہنچائ اُس کا قصیدہ مسلمان صبح و شام پڑھتے رہتے ہیں.

Short URL : https://saqlain.org/cu93