یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ وفاتِ سرورِ کائنات کے بعد بنتِ رسولؐ جناب فاطمہ صلوٰت اللہ علیہا پر مصائب و آلام ٹوٹ پڑے۔ ان کے لیے والد کی جدائ کا غم کم نہ تھا کہ ان پر امّت نے مظالم ڈھانا شروع کردیا۔ان کے اموال ان سے چھین لیے گئے۔ ان کی میراث غصب کرلی گئ۔ آپؐ پر اور آپ کے خانوادے پر ظلم کیا گیا۔ آپؐ کو اس قدر اذیّت دی گئ کہ آپؐ ہر نماز میں اپنے اوپر ظلم کرنے والوں کے لیے بد دعا کیا کرتی تھیں۔ یہی سبب ہے کہ جناب سیّدہ سلام الله علیھا کہ تمام چاہنے والے ان پر ظلم کرنے والوں اظہار براءت اور لعنت کرتے ہیں۔ بلکہ ائمہ طاہرین علیہم السلام کے نزدیک یہ ایک مستحسن عمل ہے۔ اس ضمن میں اس مشہور واقعہ سے استفادہ کرتے ہیں۔
ہیثم بن عبداللہ ناقد بشار مکاری سے نقل کرتے ہیں: بشار کہتے ہیں:
کوفہ میں اپنے مولا کی خدمت میں شرفیاب ہوا تو دیکھا آپؑ کے سامنے خرمائے طبرزد کا ایک طشت رکھا ہوا ہے اور حضرتؑ تناول فرما رہے ہیں۔
امامؑ نے فرمایا: اے بشار آؤ تم بھی تناول کرو۔
میں نے عرض کیا: اللہ مبارک کرے اور خدا ئے متعال مجھے آپؑ پر قربان کرے، میں نے راستہ میں جو چیز دیکھی ہے اس کی وجہ سے میرا دل بیٹھا جارہا ہے۔ اور کوئی چیز اچھی نہیں لگ رہی ہے۔
امامؑ نے فرمایا: تمہیں میرے حق کی قسم آؤ ذرا تناول تو کرو۔
بشار کہتے ہیں: میں امامؑ سے قریب ہوا اور طشت سے رطب لے کر تناول کیا۔ پھر حضرتؑ نے فرمایا بشار تم نے کیا دیکھا ہے۔ وہ کیا ماجراء ہے؟
عرض کیا: آقا ! میں نے حکومت کے کارندوں کو دیکھا ایک عورت کو مارتے پیٹتے اسے زندان کی طرف لے جارہے ہیں اور وہ عورت اس حالت میں فریاد کرتی ہے۔ المستغاث باللہ و رسولہ (خدا اور اس کے رسول سے مدد چاہتی ہوں) مگر کوئی اس کی مدد نہیں کرتا ہے۔
حضرتؐ نے فرمایا: اسے کیوں مار رہے تھے؟
عرض کیا: جو میں نے لوگوں سے سنا ہے وہ یہ کہ جب اس کے پیر پھسلے تو زمین پر گر پڑی تو اس کے منہ سے بے ساختہ جملہ نکلا:
لعن اللہ ظالمیک یا فاطمہؐ
اے بی بی فاطمہؐ! جنہوں نے آپ پر ظلم کیا ہے خدا ان پر لعنت کرے۔
پس اسی وجہ سے وہ اس مصیبت میں مبتلا ہوئی ہے۔
بشار کہتے ہیں: میں نے دیکھا امام ؑ نے اپنا ہاتھ کھانے سے روک لیا اور مسلسل گریہ فرماتے جاتے ہیں یہاں تک کہ میں نے دیکھا کہ آپؑ کا رومال، ریش مبارک، اور سینہ کا حصہ آنسوؤں سے ترہوگیا ہے۔ آپؑ نے فرمایا:
اے بشار! اٹھو اور چلو مسجد سہلہ چلتے ہیں تاکہ اس مؤمنہ کی رہائی کے لئے اللہ تعالیٰ سے دعا کریں۔
راوی کہتا ہے: اِدھر امامؑ نے ایک چاہنے والے کو حاکم کے دربار کی طرف روانہ کیا اور دستور دیا کہ وہ وہیں پر رہے اور وہاں سے ہٹے نہیں اگر کوئی حادثہ رونما ہوتا ہے تو مجھے باخبر کرے۔
بشار کہتے ہیں: ہم امامؑ کے ہمراہ مسجد سہلہ آئے ہم دونوں نے دو رکعت نماز ادا کی اس کے بعد امامؑ نے اپنے دست مبارک کو آسمان کی طرف بلند فرمایا اور بارگاہ خدا میں اس عورت کے لیے دعا کیا۔
راوی کہتا ہے: دعا کے بعد امامؑ سجدے میں تشریف لے گئے اور سوائے صدائے نَفَس کے کوئی چیز سنائی نہیں دے رہی تھی۔ اس کے بعد سر مبارک اٹھا کر فرمایا: اٹھو، مؤمنہ آزاد ہوگئی ہے۔
بشار کہتے ہیں: ہم باہر آئے تو راستہ میں اس چاہنے والے سے ملاقات ہوئی جسے حضرت ؑ نے بھیجا تھا۔ امامؑ نے اس سے دریافت فرمایا: بتاؤ کیا خبر لائے ہو؟
اس نے کہا: آقا وہ قید سے آزاد ہوگئی ہے۔
امامؑ: کیسے آزاد ہوئی؟
کہا: یہ مجھے نہیں معلوم — مگر میں حاکم کے دربار میں کھڑا تھا اتنے میں اچانک ایک محافظ آیا اس نے مؤمنہ کو بلا کر دریافت کیا تم نے کیا کہا تھا؟
مؤمنہ نے کہا: میرے پیر پھسلے، میں زمین پر گری تو میں نے کہا: بی بی فاطمہؐ آپ پر ظلم کرنے والوں پر خدا لعنت کرے، اس کے بعد مجھ پر ستم ڈھائے جانے لگے۔ وہ امامؑ کا چاہنے والا کہتا ہے: اس محافظ نے دو سو درہم نکال کردیئے اورکہا: اسے لے لو اور حاکم کو معاف کردو۔
مؤمنہ نے اسے لینے سے انکار کردیا، تو محافظ اندر گیا اور باہر آکر کہا: اپنے گھر جاؤ مؤمنہ اپنے گھر واپس آگئی۔
امام صادق علیہ السلام نے فرمایا: مؤمنہ نے دو سو درہم لینے سے انکار کردیا تھا؟
چاہنے والے نے کہا: ہاں مولا! جب کہ وہ ان پیسوں کی ضرورت مند تھی۔
بشار کہتے ہیں: امام ؑ نے اپنے جیب مبارک سے ایک تھیلی نکالی جس میں سات دینار تھے۔ فرمایا: اسے مومنہ کے گھر جاکر دیدو۔ اور میری طرف سے اسے سلام عرض کرنا۔
راوی کہتا ہے: مؤمنہ کے گھر گئے، حضرت ؐ کا سلام پیش کیا۔ مؤمنہ نے حیرت سے پوچھا: تمہیں خدا کا واسطہ سچ بتاؤ جعفر بن محمد علیہما السلام نے مجھے سلام بھیجا ہے؟
کہا: ہاں خدا تم پر رحمت نازل کرے، بخدا قسم! آقا نے تمہیں سلام عرض کیا ہے۔ یہ سنتے ہی مؤمنہ نے ایک چیخ ماری اور غش کھا کر گر پڑی۔
راوی کہتا ہے: ہم تھوڑی دیر ٹھہرے رہے اتنے میں اسے ہوش آیا تو پھر دریافت کیا۔ سچ بتاؤ! (امامؑ نے سلام کہلایا ہے؟)
ہم نے کہا ہاں، یہاں تک کہ تین بار یہی پوچھا پھر ہم نے کہا: اسے لے لو امام ؑنے تمہارے لئے ہدیہ بھیجا ہے۔ مبارک ہو۔
مؤمنہ نے اسے بڑے احترام سے لیا اور کہا: امامؑ کی خدمت میں عرض کردینا وہ اپنی اس کنیز کو معاف کردیں کہ میں خدا کی بارگاہ میں اپنے آقا، اور ان کے پدر بزرگوار اور ان کے اجداد صلوات اللہ علیہم کے سوا کسی اور کو وسیلہ کے لئے بہتر نہیں جانتی ہوں۔
راوی کہتا ہے: بارگاہ امام میں حاضر ہوکر سارا واقعہ بیان کیا تو حضرتؑ نے گریہ فرمایا اور مؤمنہ کے لئے دعائیں دیں۔
– مستدرك الوسائل، جلد ۳، صفحہ ۴۱۹، مسجد سہلہ میں بڑھی جانے والی دعاؤں كے باب میں۔
– بحار الانوار جلد ۴۷، صفحہ ۳۷۹-۳۸۰
اس واقعہ میں کچھ اہم نكات ہیں:-
۱۔ اس واقعہ سے جناب سیّدہ سلام اللہ پر ظلم کرنے والوں سے تبرّا کرنے کی اہمّیت کا اندازہ ہوتا ہے۔ خود امام علیہ السلام نے مسجد سہلہ جاکر اس خاتون کے لیے دعا فرمائ۔ امامؑ کا مسجد سہلہ جانا اور اپنے ایک چاہنے والے کو اس کی خبرگیری پر مامور کرنا اور اس خاتون کی مالی امداد کرنابتاتا ہے کہ آپؑ اس کے لیے فکر مند تھے۔
۲۔ اس خاتون کی طرح ہمیں بھی اپنی تکلیف و پریشانی کے وقت میں جناب زہراء علیہا السلام کی مصیبت کو یاد کرنا چاہیے اور ان کے اوپر ظلم کرنے والوں پر لعنت کرنا چاہیے۔
۳۔ یہ پوری داستان بشارنے نے امام صادقؑ کی خدمت میں نقل کیا ہے۔ اس خاتون کی مصیبت کو دیکھ کروہ بھی بے چین ہوگئے۔ حتّیٰ کہ ان سے کچھ کھا یا بھی نہیں جارہا تھا۔ اسی طرح ہمیں بھی دوسرے موءمن کی مصیبت میں بے چین ہو جانا چاہیے۔ کچھ نہیں کر سکتے ہوں تو اس موءمن کے لیے دعا کرنا چاہیے۔
۴۔ جو تبرّا كرتے ہیں آل محمد علیہم السلام ان كے لیے خود دعا كرتے ہیں اور كسی نہ كسی طرح اس كی مدد كرتے ہیں، خاص طور پر اگر تبرّا كی وجہ سے وہ مشكل میں پڑ جائے۔
مختصر یہ کہ جناب فاطمہ سلام الله علیها پر ظلم کرنے والوں پر لعنت کرنا اہل بیت علیہم السلام کے نزدیک ایک پسندیدہ عمل ہے۔