جناب زہرا سلام اللہ علیہا نے اپنے حقِ فدک کا مطالبہ کیوں کیا؟

حضرت فاطمہ الزہراء صلوات اللہ علیہا جو کہ جنّت کی خواتین کی سربراہ ہیں بظاہر دنیوی معاملات میں ذرّہ برابر بھی دلچسپی نہیں رکھتی تھیں۔اسلامی دنیا نے بارہا اعتراف کیا ہے کہ وہ نفس پر غلبہ رکھنے والی خاتون ہونے کے ساتھ ساتھ ایک عظیم روحانی حیثیت کی حامل تھیں۔ آپ علیہا السلام نے ہمیشہ خود کو دنیا کے مکروفریب اور لذّات سے بچائے رکھا ۔ مگر بعدِ رسولﷺ آپ علیہا السلام  فدک پر اپنا دعویٰ کو برقرار رکھنے کے لئے مسلسل دلائل اور ثبوت پیش کرتی رہیں ۔

آخر کیا وجہ تھی کہ دنیا کو بکری کی چھینک یا اس سے بھی حقیر شئ سمجھنے والی خاتون دنیوی امور میں اس قدر اُلجھ کر رہ گئیں؟ کیا ایک زمین کا ٹکڑا اور کھجور کے چند درخت اتنی پریشانیوں کا بدل تھا؟ باوجود اس کے کہ انھیں اس بات کا اندازہ تھا کہ ان کی ساری کاوشیں بیکار ہونے والی ہیں اور حکومت اُن کا حق اُنھیں واپس نہیں کرے گی۔

یہ سوالات تاریخِ اسلام کے طالبِ علم کے لئے زیادہ پیچیدہ نہیں ہیں۔ بالخصوص ان طلاّب کے لئے جنھوں نے بعدِ وفاتِ رسولﷺ ہونے والے واقعات کا جائزہ لیا اور مطالعہ کیا ہے۔ ان واقعات پر نظر ڈالنے سے ہمیں پتہ چلتا ہے کہ:

پہلی اور خاص وجہ:

وہ یہ کہ فدک کا مطالبہ اُن کے شوہر حضرت علی علیہ السلام کے خلافت کے دعویٰ کا ہی مقدمہ تھا۔ شارحِ نہج البلاغہ ابن ابی الحدید معتزلی بیان کرتے ہیں کہ جب وہ طالب علم تھے اور بغداد کے مدرسة العربیة میں تعلیم حاصل کر رہے تھے تو ایک مرتبہ انھوں نے اپنے استاد علی ابن الفرّ اقی سے سوال کیا: کیا فاطمہ علیہا السلام اپنے دعویٰ میں سچی تھیں؟ استاد نے کہا: یقیناً تھیں۔ انھوں نے دوبارہ سوال کیا: تو پھر ابوبکر نے اُنھیں باغِ فدک کیوں نہیں لوٹایا؟ اُستاد مسکرائے اور جواب دیا: اگر ابوبکر فاطمہ علیہا السلام کو اُن کے کہنے پر فدک دے دیتے تو دوسرے دن فاطمہ علیہا السلام اپنے شوہر علی علیہ السلام  کی خلافت کا دعویٰ کر دیتیں جو ابوبکر نے لے لیا تھا اور پھر ابوبکر کو یہ حق بھی لوٹانا پڑتا۔

دوسری وجہ:

رسول اللہﷺ کی بیٹی کو امت پر یہ ظاہر کرنا تھا کہ جن لوگوں نے ان کا باغ غصب کیا ہے ان ہی لوگوں نے ان کے شوہر علی علیہ السلام سے ان کا حق امامت اور حکومت  بھی غصب کیا ہے۔ اس حکومت کی بناید صرف غصب پر ہے۔

تیسری وجہ: اپنے حق کا مطالبہ کرنا حقدار کا حق بنتا ہے۔ چاہے وہ اس ملکیت سے اسے کوی رغبت ہو یا نہ ہو۔ اور اس مطالبے کا انسان کے نیک ہونے یا متقی ہونے سے کوئی ربط نہیں ہے۔ اپنے حق کا مطالبہ انسان کے عزم کا عکّاس ہے۔ بلکہ یہ مطالبہ ایک معرکہ ہے جس سے جناب سیّدہ علیہا السلام  کی شجاعت کا اندازہ ہوتا ہے۔ آپ نے تنھا حاکم وقت سے ٹکّر لی اور اس کے جھوٹ اور فریب کو بےنقاب کر دیا۔

چوتھی وجہ:

دختر رسولﷺ جناب سیّدہ سلام اللہ علیھا نے اس مطالبہ کے ذریعے یہ ظاہر کر دیا کہ اس  حکومت نے روز اوّل سے ہی  آل محمّدﷺ کے ساتھ  ظلم اور تشدّد سے کام لیا ہے۔ ان لوگوں نے  نہ قران کے حکم پر عمل کیا [شوری: 23] اور ناہی رسولﷺ کی وصيّت پر عمل کیا ہے۔ انھوں نے رسولﷺ کی ہدایت- حدیث ثقلین کو پوری طرح سے فراموش کر دیا اور اس طرح گمراہی کو قبول کرلیا ہے۔[۔۔۔فاستحب العمی علی الھدی]

پانچویں وجہ:

انسان خود کتنا بھی دنیاوی لذتوں سے دور ہو وہ ایک معاشرے میں رہتا ہے اور اُس کی مذہبی ذمہ داری پر عمل کرنے کے لئے اُسے مال و اسباب کی ضرورت ہوتی ہے۔ مثلاً صلہ رحم کے لئے اور دیگر واجبات دینی پر عمل درآمد ہونے کے لئے پیسوں کی ضرورت پڑتی ہے۔اس لئے یہ حصول مال اس کی شرعی ذمہ داری بن جاتا ہے۔ خود اسلام کی تاریخ میں اگر مال خدیجہ علیہا السلام نہ ہوتا تو شاید اسلام کی کلی مرجھا گئی ہوتی۔ اس مالِ خدیجہ علیہا السلام نے ہی دین کے باغ کو سینچا ہے۔

چھٹی وجہ

جس کا حق چھینا گیا ہے اُسے چاہیے کہ اس کو حاصل کرنے کے لئے کوشش کرے۔ اس سے یا تو اُس کا حق اُسے مل جائے گا اور اُس کی کوشش کامیاب ہو گی یا اس کو محروم کر دیا جائے گا۔  اس سے لوگوں پر یہ عیاں ہو جائیگا کہ اِس شخص کا حق کسی نے چھین لیا ہے اور اُس چھیننے والے غاصب کی حقیقت لوگوں پر ظاہرہو جائے گی۔ اب اگر یہ غاصب نیک کام بھی کرتا ہے تو لوگوں کو اُس کی حقیقت کا پتہ ہوگا کہ یہ سارامال دراصل اُس کا نہیں کسی اور کا ہے۔ یہ سارا خیرو خیرات کاکام ایک ڈھونگ ہے۔

ساتویں وجہ

خائن دغاباز لوگ پیسوں اور زور کے بَل پر حکومت حاصل کر لیتے ہیں  جب کہ نیک صفت اشخاص لوگوں کے دلوں پر حکومت کرتے ہیں اور جب ان پر ظلم ہوتا ہے تو وعظ و حکمت سے اپنی بات پیش کرتے ہیں تا کہ ظالم و مظلوم میں فرق معلوم ہوجائے۔

جناب سیدہ علیہا السلام نے اسی وجہ سے جب اپنا مقدمہ دربار میں پیش کیا تو مسجد کے صدر دروازہ سے داخل ہوئیں حالانکہ اُن کے گھر کا ایک دروازہ مسجد میں کھلتا تھا۔ آپ علیہا السلام نے مسجد میں جا کر تمام اصحاب مہاجرین و انصار کے سامنے اپنے حق کے غضب ہونے کا اعلان کیا۔ آپ علیہا السلام کے ساتھ بنی ہاشم کی عورتوں کا گروہ بھی تھا جو آپ علیہا السلام کو گھیر ے میں لئے ہوا تھا۔ ایک پردے کے پیچھے سے آپ نے اپنی گفتگو سے ظالم ،غاصب حاکم کے چہرے کو بے نقاب کر دیا۔

یقینا آپ علیہا السلام کی شخصیت مسلمان عورتوں کے لئے ایک بہترین نمونۂ عمل ہے۔ آپ علیہا السلام کے پدر بزرگوارﷺ کا قول ہے کہ ایک فرشتے نے مجھ سے بتایا ہے کہ میری بیٹی فاطمہؑ میری امت کی عورتوں کی سردار ہے۔

Short URL : https://saqlain.org/m41b