لَا إِكْرَاهَ فِي الدِّينِ قَد تَّبَيَّنَ الرُّشْدُ مِنَ الْغَيِّ فَمَن يَكْفُرْ بِالطَّاغُوتِ وَيُؤْمِن بِاللَّهِ فَقَدِ اسْتَمْسَكَ بِالْعُرْوَةِ الْوُثْقَىٰ لَا انفِصَامَ لَهَا وَاللَّهُ سَمِيعٌ عَلِيمٌ
دین میں جبر نہیں ہے، یقینا نیکی کو گمرہی سے الگ کر کے بیان کر دیا گیا ہے۔ پس جس کسی نے طاغوت (باطل) کا انکار کیا اور اللہ پر ایمان لے آیا بس اسی نے اللہ کی مضبوط رسی کو تھاما ہے۔ اور اللہ سننے اور جاننے والا ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی ایک بہت ہی مشہور حدیث ہے جس پر تمام اہل اسلام متفق ہیں۔ تمام مسلمان اس بات کو قبول کرتے ہیں کہ امت کے بہتر فرقے ہوں گے مگر ان میں صرف ایک ہی ناجی ہے۔ یہ امت میں اختلاف آج کی بات نہیں ہے بلکہ مرسلؐ اعظم کی شہادت کے فورًا بعد ہی اسلام میں دو گروہ وجود میں آگئے تھے۔ اس زمانے میں جو کچھ ہوا اس کے اثرات اتنے گہرے ہیں کہ اسلام کا ہر گروہ دوسرے گروہ کو گمراہ اور خود کو ہدایت یافتہ بتاتا ہے۔ اتنا ہی نہیں بلکہ نوبت یہاں تک آگئ ہے کہ اب مسلمان ایک دوسرے کو کافر کہنے سے بھی گریز نہیں کرتے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ کسی کے مومن کہنے سے نہ کوئ مومن ہوتا ہے اور نہ ہی کافر کہنے سے کوئ کافر ہوجاتا ہے۔ قرآن کریم نے اسلام اور کفر کے درمیان حد فاصل کھینچتے ہوئے”فمن یکفر بالطاغوت و یومن باللہ…..” کی بات کی ہے۔ باطل کا انکار کرنے والا اور اللہ پر ایمان رکھنے والا ہی اللہ کی مضبوط رسی سے جڑا ہوا ہے۔” یہ بھی ایک تاریخی حقیقت ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی زندگی میں بارہا مسلمانوں کو گمراہی سے بچنے کا بہترین راستہ بتایا ہے۔ جہاں آپؐ نے پیشن گوئ کرتے ہوئے ان حالات کی خبر دی تھی کہ کس طرح امت فرقوں میں بٹ کر گمراہی اختیار کریگی وہیں آنحضرت نے مسلمانوں کو اس گمراہی سے بچنے کا راستہ بھی بتایا تھا۔ طرفین کی معتبر کتابوں میں بالخصوص صحاح ستہ میں سرور کائنات کا یہ قول نقل ہوا ہے کہ “اگر تم میرے ثقلین (دو گرانقدر چیزوں) سے وابستہ رہے تو ہرگز گمراہ نہ ہوگے۔ ایک اللہ کی کتاب اور دوسرے میرے اہلبیتؑ۔” اس لیے اگر کسی کو صراط مستقیم کو اپنا کر نجات حاصل کرنی ہے تو اسے اس راستے کا انتخاب کرنا چاہیے جو قران اور اہلبیت نے بتایا ہے۔ اہل بیت علیہم السلام کی سب سے اہم فرد اور محور اصحاب کساء، دختر رسولؐ جناب فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی شہادت کے بعد زمانے نے جو انقلاب دیکھا، اس میں اسلام کو دو حصوں میں منقسم ہوتے ہوئے بھی دیکھا ایک گروہ نے آنحضرتؐ کے گود کے پالے اور باب مدینہ العلم حضرت علی ابن ابی طالب علیہ السلام کو اپنا امام مانا جبکہ دوسرے گروہ نے مسلمانوں کے خود ساختہ خلیفہ کی بیعت کرلی۔ یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ دختر رسولؐ جناب سیدہ سلام اللہ علیہا نے خلیفہ اول کی ہرگز بیعت نہیں کی بلکہ ان سے شدید ناراض رہیں۔ آپ کی ناراضگی کا ثبوت ان روایتوں میں مل جاتا ہے جو اس ضمن میں صحیح بخاری میں عائشہ سے نقل ہوئی ہیں۔ اس ناراضگی کا سبب صرف باغ فدک کا غصب کرنا ہی نہیں تھا بلکہ یہ بھی تھا کہ مسلمانوں نے ایک جٹ ہوکر غدیر میں علی علیہ السلام کی تاج پوشی کے اعلان کو فراموش کردیا اور طاغوت کی پیروی کو دین بنالیا۔ جناب سیدہ سلام اللہ علیہا نے جو ‘خطبہ فدک’ ارشاد فرمایا اس میں آپؑ نے اپنے اس اقدام کی وجہ بیان فرمائ ہے اور مسلمانوں کو ان کی اس عہد شکنی پر تنبیہ کی ہے اور ان پر حجت تمام کی ہے۔
“….پھر تمھیں خلافت حاصل کرنے کی اتنی جلدی تھی کہ خلافت کے بدکے ہوے ناقہ کے رام ہونے اور مہار تھامنے کا بھی تم نے مشکل سے انتظار کیا، پھر تم نے آتش فتنہ کو بھڑکایا اور اس کے شعلے پھیلانے شروع کر دیے اس طرح تم شیطان کی گمراہ کن پکار پر لبیک کہنے لگے تم دین کے روشن چراغوں کو بجھانے اور برگزیدہ نبیؐ کی تعلیمات سے چشم پوشی کرنے لگے…” (خطبہ فدک- کتاب الاحتجاج جلد 1/ شرح نھج البلاغہ جلد 12)
جب آپ کے گھر پر لوگ خلیفہ کے لیے بیعت طلب کرنے کے لیے آئے تو آپ نے ان کا مقابلہ کیا اور اپنے شوہر کا دفاع کیا تاکہ تاریخ میں یہ بات درج ہو جائے کہ فاطمہؑ کے گھر پر حملہ ہوا تھا اور یقینًا ان پر ظلم کرنے والا کبھی خلافت کا حقدار نہیں ہو سکتا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ قران کا یہ اصول ہے، جس کے تحت منصب امامت کبھی ظالموں کو نہیں ملتا۔ (سورہ بقرہ: 124) آپ کا یہ اقدام اس لیے بھی ضروری تھا کہ تاریخ جان لے کہ خلیفہ کی بیعت نہ تو دختر رسولؐ نے کی تھی نہ ہی ان کے خانوادے نے، اس لیے جو یہ شور ہے کہ حضرت علیؑ نے بلآخر خلیفہ کی بیعت کر لی تھی، یا تو یہ جھوٹ ہے یا یہ بیعت جبرًا حاصل کی گئی تھی۔ صحیح بخاری اور صحیح مسلم کے متعدد ابواب میں یہ بات واضح طور پر نقل ہوئ ہے کہ دختر رسول خلیفئہ اوّل سے ناراض تھیں۔
ایک روایت میں یہی بات عائشہ سے نقل ہوئ ہے کہ جگر پارہ رسولؐ، ابوبکر اور عمر سے مرتے دم تک ناراض تھیں اور یہ ناراضگی اتنی شدید تھی کہ آپ نے ان دونوں کی معافی کو بھی قبول نہیں کیا۔ بلکہ اس کے برعکس ان پر ظاہر کردیا کہ وہ واقعًا ان دونوں سے ناراض ہیں اور ان دونوں کی شکایت اپنے بابا رسول خدا سے کریں گی۔
(صحیح بخاری کتاب 59 حدیث 546، کتاب 80 حدیث 718، صحیح مسلم کتاب 19، حدیث 4352، حدیث 4354)
ان باتوں سے یہ صاف ظاہر ہے کہ دختر رسولؐ نے اپنے بابا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رحلت کے بعد خلیفہ اول کی بیعت سے انکار کیا اور ان سے شدید ناراض رہیں۔ آپؑ نے ان پر آشوب ماحول میں قرآنی حکم پر عمل کرتے ہوے طاغوت کا انکار کیا اور قول رسولؐ پر عمل کرتے ہوئے علی ابن ابی طالب علیہ السلام کی امامت پر قائم رہیں اور ان کے دفاع میں شہید ہوگئیں۔ اتنا ہی نہیں آپ نے وصیت فرمائ کہ ان کے جنازے میں نہ کوئ انصار شامل ہو اور نہ ہی کوئ مہاجر تاکہ آنے والی نسلوں تک یہ بات پہنچے کہ نبی کی اکلوتی بیٹی جب اس دنیا سے رخصت ہوئ تو مسلمانوں کی اکثریت سے ناراض تھی اور بس وہی لوگ ان کے جنازے میں شریک تھے جو دین حق سے وابستہ تھے۔ اس طرح خاتون محشر سلام اللہ علیہا نے اپنے اس اقدام کے ذریعے ‘حق کو باطل سے الگ کرکے بیان کردیا’ اب جو چاہے اسے قبول کرکے ناجی ہوجاے اور جو چاہے اسے رد کرکے ہلاک ہوجاے۔
جناب فاطمہ سلام اللہ علیہا حق وباطل کا معیار ہیں انہیں نظر انداز کر کے کوئ ہدایت یافتہ نہیں ہو سکتا ہے۔
بخش هفتم: عزاداری در اہل سنت گریہ و اشک اهل سنت کے علماء کی نظر…
بخش پنجم: امام حسین کی عزاداری معصومین کی سیرعت میں الف:کربلا واقع ہونے سے بہت…
بخش چهارم: سنت نبوی میں امام حسین علیہ السلام کی عزاداری رسول اللہ صلی اللہ…
بخش سوم: مقام گریہ اور آنسو، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سیرت…
دوسرا حصہ: قرآن اور پیغمبروں کی نظر میں رونے اور آنسوؤں کی اہمیت 1 ـ…
مقدمہ: یہ بات واضح ہے کہ عزاداری اور خوشی منانا ایک فطری امر ہے جو…