[arabic-font]
دیگر اقوام اور ملتوں کی طرح مسلمانوں کی تاریخ بھی اقتدار پسند لوگوں کے جرائم سے بھری پڑی ہے۔ اس کتاب کے صفحات بھی ظلم و استبداد کی سیاہی سے رنگین کیے گئے ہیں ۔مسلمانوں میں بھی بڑی بڑی جرائم پسند دنیا پرست ہستیاں گزری ہیں۔ دنیا کے ہر مجرم کی پہلی کوشش یہ ہوتی ہے کہ اس کا جرم ظاہر نہ ہو اور اگر ظاہر ہو جاتا ہے تو وہ اس بات کا کوشاں رہتا ہے کہ اس کے ذریعے اٹھائے گئے قدم کو درست، جائز اور مناسب قرار دیا جائے۔ اس معاملے میں درباری نمک خوار مورخین کا کام ہی یہ ہوتا ہے کہ وہ ایسے تاریخی واقعات کو چھپا دیں۔ مسلمانوں کی تاریخ کے ابتدائ دور میں بھی تخت نشین افراد نے مظالم کیے ہیں اور ان کے جرائم کو چھپانے کی بھی خوب کوششیں کی گئی ہیں۔ کبھی یہ کہا گیا،”چونکہ یہ سارے اصحاب رسولؐؐ ہیں اور بقول قرآن یہ ‘سابقین’ میں سے ہیں اس لیے ان کو برا نہیں کہنا چاہیے۔ باوجود یہ کہ انھوں نے غلطیاں کیں، مگر چونکہ ان کے دل میں ہمیشہ بھلائ کا جزبہ تھا، اس لیے ان کا ہر جرم نہ صرف یہ کہ قابل مزمت نہیں بلکہ قابل معافی ہے”، کبھی کسی بڑے جرم کو ‘خطائے اجتہادی’ کا نام دے کر لیپا پوتی کی گئ، تو کبھی کسی سنگین گناہ کا از سر نو انکار کر دیا گیا کہ ایسا تو ہوا ہی نہیں تھا وغیرہ وغیرہ، مگر ان تمام کوششوں کے باوجود کہیں نہ کہیں کسی نہ کسی مورخ نے یا محدث نے ان واقعات کو بیان کر ہی دیا ہے۔ جناب سیدہ سلام اللہ علیہا کے گھر کو آگ لگانے والے عظیم جرم پر بھی خوب خوب پردے ڈالے گئے، مگر کچھ مورخین نے اس واقعے کو احتیاط اور شرمندگی کے ساتھ اپنی تالیفات میں نقل کر دیا ہے۔
اہل تسنن علماء نے بارہا اس واقعے کا انکار کیا ہے اور اس واقعے کو شیعوں کی تخلیق کا نام دیا ہے۔ مگر اس کے واقعی ہونے کی متعدد دلیلیں ہیں۔ اس مقالے میں ہم صرف ان اقوال سے استفادہ کریں گے جن میں خود ابوبکر نے اعتراف جرم کیا ہے۔ ابوعبیدہ کی کتاب ”الاموال” جس پر اہل سنت کے فقہاء اعتماد کرتے ہیں میں یہ نقل ہوا ہے کہ عبدالرحمن بن عوف کہتے ہیں: “اپنے آخری وقت میں جب ابوبکر بیمار تھے تو میں ان کی عیادت کےلیے گیا۔ انھوں نے بہت سی باتیں کرنے کے بعد کہا: اے کاش کہ تین کام جو میں نے اپنی زندگی میں انجام دیے، ان کو نہ انجام دیتا اور تین کام جو انجام نہیں دیے ان کو انجام دیتا اسی طرح آرزو کرتا ہوں کہ پیغمبرؐ اکرم سے تین چیزوں کے بارے میں سوال کرتا جن میں سے ایک کو میں انجام دے چکا ہوں اور آرزو کرتا ہوں کہ اے کاش انجام نہ دیتا ”وددت انی لم اکشف بیت فاطمة و ترکتہ و ان اغلق علی الحرب “۔ اے کاش (حضرت) فاطمہؑ کے گھر کی بے حرمتی نہ کرتا اور اس کو اس کے حال پر چھوڑ دیتا اگر چہ وہ جنگ ہی کےلیے بند کیا گیا ہوتا۔”
ابوعبیدہ جب اس جگہ پہنچتے ہیں تو ”لم یکشف بیت فاطمة و ترکتہ“ کے جملہ کی جگہ کو”کذا و کذا“ لکھ کر کہتے ہیں کہ میں ان کو بیان نہیں کرنا چاہتا۔
گرچہ ابوعبیدہ نے اپنی عقیدت کی مجبوری میں یا کسی اور وجہ سے حقیقت کو نقل نہیں کیا لیکن کتاب ‘الاموال’ کے محققین نے اس کے حاشیہ پر لکھا ہے: جس جملہ کو حذف کردیا گیا ہے وہ کتاب میزان الاعتدال میں بیان ہوا ہے اس کے علاوہ طبرانی نے اپنی معجم میں اور ابن عبد ربہ نے عقدالفرید اور دوسرے افراد نے اس جملہ کو بیان کیا ہے۔
اسی طرح اس واقعے کو کتاب ”معجم الکبیر“ کے مصنف ابوالقاسم سلیمان بن احمد طبرانی (۲۶۰۔۳۶۰) نے بھی اپنی کتاب میں نقل کیا ہے۔ کتاب المعجم الکبیر جو کہ کئی مرتبہ چھپ چکی ہے میں ابوبکر کے خطبے اور ان کی وفات کے متعلق لکھا ہے: “ابوبکر نے مرتے وقت کچھ چیزوں کی تمنا کی اور کہا: اے کاش تین کاموں کو انجام نہ دیتا، تین کاموں کو انجام دیتا اورتین کاموں کے متعلق پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سوال کرتا: ”اما الثلاث اللائی وددت انی لم افعلھن، فوددت انی لم اکن اکشف بیت فاطمة و ترکتہ،۔۔۔۔
وہ تین کام جن کی میں آرزو کرتا ہوں کہ اے کاش انجام نہ دیتا ان میں سے ایک (حضرت) فاطمہؑ کے گھر کی بے حرمتی ہے کہ اے کاش میں ان کے گھر کی بے حرمتی نہ کرتا اور اس کو اسی حالت پر چھوڑ دیتا۔
ابن عبد ربہ اندلسی نے بھی اپنی اس روایت کو اپنی کتاب العقد الفرید میں عبدالرحمن بن عوف سے نقل کیا ہے: “جب ابوبکر بیمار تھے تو میں ان کی عیادت کے لیے گیا انھوں نے کہا: اے کاش کہ تین کام جو میں نے اپنی زندگی میں انجام دیے، ان کو انجام نہ دیتا ان تین کاموں میں سے ایک کام یہ ہے “وددت انی لم اکشف بیت فاطمة عن شئی وان کانوا اغلقوہ علی الحرب۔ ” اے کاش (حضرت) فاطمہؑ کے گھر کی بے حرمتی نہ کرتا اور اس کو اس کے حال پر چھوڑ دیتا اگر چہ انھوں نے جنگ کرنے ہی کے لئے اس دروازہ کوکیوں نہ بند کر رکھا ہو”
محمد بن یزید بن عبدالاکبر بغدادی (۲۱۰۔ ۲۸۵) مشہور ادیب اور مولف ، مشہور کتابوں کے خالق بھی ہیں اپنی کتاب ‘الکامل’ میں عبدالرحمن بن عوف سے خلیفہ کی آرزووں کی داستان کو اس طرح نقل کرتے ہیں:
وددت انی لم اکن کشفت عن بیت فاطمة و ترکتہ و لو اغلق علی الحرب۔
مشہور و معروف اہل تسنن عالم مسعودی اپنی کتاب مروج الذہب میں لکھتے ہیں: جس وقت ابوبکر احتضار کی حالت میں تھے، انھوں نے یہ کہا: اے کاش تین کام جو میں نے اپنی زندگی میں انجام دیے، ان کو انجام نہ دیتا اور ان میں سے ایک کام یہ ہے ”فوددت انی لم اکن فتشت فاطمة و ذکر فی ذلک کلاما کثیرا۔ “اے کاش (حضرت) فاطمہ کے گھر کی بے حرمتی نہ کرتا اس نے اس سلسلہ میں اور بہت سی باتیں بیان کی ہیں”۔
ان معتبر حوالہ جات اور ان دلائل کے بعد کوئ گنجائش نہیں رہ جاتی کہ اس حقیقت سے انکار کیا جاے کہ جناب سیدہؑ کے گھر پر حملہ ہوا تھا۔ اور اس حملے کے لیے خود خلیفئہ اول ذمہ دار تھے۔ یہ ابوبکر کا وقت مرگ آرزو کرنا کہ کاش ایسا نہ ہوتا ان کا اعتراف جرم ہے۔ لاکھ اہل تسنن علماء زور زبردستی کے بل پر یا کتابوں میں تحریف کرکے اس واقعے کو امت سے چھپانا چاہیں مگر یہ حقیقت چھپ نہیں سکتی۔
شاعر کا قلم تاریخ میں ہونے والی ایسی ہی خیانتوں پر بے ساختہ چیخ اٹہتا ہے “جو چپ رہے گی زبان خنجر،لہو پکارے گا آستیں کا”
[/arabic-font]