حدیث ثقلین کا تحقیقی جائزہ

یقیناحدیث ثقلین ان چند حدیثوں میں سے ہے جو کہ فریقین کے درمیان مورد اتّفاق ہے۔ یہ حدیث ہم تک معتبر اور متواتر ذرائع سے ہم تک پہنچی ہے۔اس میں واضح طور پر یہ بیان ہے کہ نبی کریمؐ
نے اپنی رحلت کے بعد امت اسلامی کو بے سر پرست نہیں چھوڑا اور نہ ہی اسلام و مسلمین کو اپنے حال پر چھوڑا ہے بلکہ قرآن وعترت کے مقام ومنزلت کو بیان کرتے ہوئے امت مسلمہ پر ان دونوں سے تمسک کو واجب قرار دیا ہے۔ اتنا ہی نہیں بلکہ قرآن و عترت سے تمسک رکھنے والوں کو انحراف و گمراھی سے محفوظ رہنے کی ضمانت بھی لی ہے۔ ([1])

اور اس بات پر تاکید فرمائی ہے کہ یہ دونوں ایک دوسرے سے ہر گز جدا نہیں ہوں گے یہاں تک کہ حوض کو ثر پر مجھ سے ملاقات کریں گے۔ اس بیان کے ذریعے قرآن کی عترت کے ساتھ اور عترت کی قرآن کے ساتھ ہمراہی کو واضح اور روشن کردیا ہے۔ ([2])

دوسری بات یہ کہ (صراحت کے ساتھ اپنے بعد) امّت کی سیاسی اور علمی مر جعیّت کو معیّن فرما دیا ہے۔ اس طرح آپؐ نے اپنی ذمہ داری اور کار رسالت کو بخوبی پاے تکمیل تک پہنچایا۔ اس کے بعد
یہاں ایک بات اور قابل توجّہ ہے کہ حدیث ثقلین کی افادیت کسی زمانے سے مخصوص نہیں ہے۔ بلکہ ان دونوں (قرآن و عترت) سے تمسّک تمام افراد پر ہر وقت ہر مقام اور زمانے میں ہمیشہ ہمیشہ واجب ھے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ خود حضورؐ کا یہ ارشاد ہے کہ “مجھ سے حوض کوثر پر ملیں” یعنی جنّت کے دروازہ تک کا یہ صفر ان کی راہنمای میں ہی طے ہو سکتا ہے-
یا یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ ان کی رہنمای ہی ایک مسلمان کو روز قیامت رسولؐ خدا کی صحبت دلا سکتی ہے ۔
اس سے یہ بات روشن ہوجاتی ہے کہ اس حدیث (ثقلین ) پر عمل کرنے سے بہت سارے باطل نظریات اور خیالی باتیں (جوکہ اختلاف وتقرقہ کا باعث ہوتی ھیں ) ختم ہو جائیں گی۔

سند حدیث ثقلین
حقیقت امریہ ہے کہ حدیث ثقلین تمام مسلمانوں کے نزدیک مورد اتّفاق ہے۔ علماء اسلام اور مفکّرین نے جوامع، سنن، تفاسیر اور تاریخی کتابوں میں اس کو بہت سے طریقوں، معتبراور صحیح سندوں کے ساتھ ذکر کیا ہے۔
کتاب غاتیة المرام میں انتالس اھل سنّت سے اور بیاسی احادیث علماء شیعہ کے حوالے سے درج ہیں۔ ([3])
علامہ سید حامد حسین ہندی (صاحب عبقات الانوار ) نے مذہب اربعہ کے علماء میں سے ایک سو نوں ایسے افراد کا تزکرہ کیا ہے جو دوسری صدی ہجری سے لیکر تیرہویں صدی ہجری کے آخر تک کے علماء ہیں۔ ([4])
سید محقق عبدالعزیز طبا طبائی نے دوسری صدی ہجری سے لیکر چودھویں صدی ہجری تک کے مزید ایک سو اکیس علماء کا ذکر کیا ہے۔ ([5]) اس طرح علماء اھ
ہل سنّت کی تعداد جنھوں نے حدیث ثقلین کو نقل کیا ہے تین سو گیارہ (۳۱۱) ہو جاتی ہے۔ ([6])
بلر کیف موردا عتماد اور مشہور و معروف کتابوں نے اس حدیث کو نقل کیا ہے ان اہم کتابوں میں سے بطور نمونہ ان کتابوں کو پیش کیا جاسکتا ہے -صحیح مسلم۔ سنن ترمذی۔ سنن الدارمی۔ مسند احمد بن حنبل۔ خصائص نسائی۔ مستدرک الحاکم۔ اسد الغابہ۔ العقد الفرید۔ تذکرة الخواص۔ ذخائر العقبیٰ۔ تفسیر ثعبلی وغیرہ۔۔۔ ([7])
یہ وہ سنی کتب ہیں کہ جن کو حدیث ثقلین کی سند کے حوالہ سے ذکر کیا گیا ہے جبکہ شیعہ کتب اس کے علاوہ ہیں۔ ([8]) مرد و عورت اصحاب رسول کی ایک کثیر تعداد نے حدیث ثقلین کی روایت کی ہے۔
ابن حجر نے صواعق محرقہ میں کہا ہے کہ حدیث تمسّک (بہ قرآن و عترت ) کی سند کے بہت سارے طریقے ہیں۔ بیس (۲۰)سے زائد اصحاب نے اس کی روایت کی ہے۔ ([9])
عبقات الانوار میں مرد و عورت مل کر چوتیس (۳۴) اصحاب نے اس کو نقل کیا ھے۔ اور ان سب کے اسماء اہل سنّت کی کتابوں سے لیے گئے ہیں۔ ([10])
چنانچہ (احقاق الحق و غاتیہ المرام ) وغیرہ میں مذکورہ روایتوں اور سندوں کو اس میں بڑھا دیا جائے تومردو زن راوی اصحاب کی تعداد پچاس (۵۰)سے اوپر ہو جاتی ھے۔
ان کے اسماء حسب ذیل ھیں۔
(۱) امیر المومنین(ع) عليه السلام ، (۲) امام حسن عليه السلام ، (۳) سلمان فارسی ،(۴) ابوذر غفاری ،(۵) ابن عباس
(۶) ابو سعد خدری ، (۷) عبد اللہ ابن حنطب ، (۸) جیربن مطعم ، (۹) براء بن عاذب ، (۱۰) انس بن مالک ،(۱۱) طلحہ بن عبد اللہ تمیمی ،(۱۲) عبد الرحٰمن بن عوف ،(۱۳) جابربن عبد اللہ انصاری ،(۱۴) ابوھشیم فرزند تیھان ،(۱۵) ابورافع صحابی رسول اکرم (ص) ، (۱۶) حذیفہ ابن یمانی ،(۱۷) حذیفہ ابن اسید غفاری، (۱۸) حذیفہ ابن ثابت ذوالشھاد تین ،
(۱۹) زید بن ثابت ، (۲۰) ابوھر یرہ ،(۲۱) ابولیلیٰ انصاری ،(۲۲) ضمیرہ اسلمی ،(۲۳) عامر بن لیلیٰ ، (۲۴) حضرت فاطمہ زھرا سلام اللہ رعلیھا ، (۲۵) ام سلمہ ، (۲۶) ام ھانی ، (۲۷) زید بن ارقم ، (۲۸) ابن ابی دنیا ، (۲۹)حمزہ سلمی
(۳۰) سعد ابن ابی وقاص ، (۳۱) عمرو بن عاص ، )۳۲(سھل بن سعد انصاری ، (۳۳) عدی بن حاتم ، (۳۴) عبقہ بن عامر
(۳۵) ابو ایوب انصاری ، (۳۶) ابو شریخ خزاعی ، (۳۷) ابو قدامہ انصاری ، (۳۸) بریرہ ، (۳۹) جشی بن جنادہ ، (۴۰) عمر بن خطاب ، (۴۱) مالک بن حویرث ، (۴۲) جیب بن بدیل ، (۴۳) قیس بن ثابت ، (۴۴) زید شراحیل ، (۴۵) عائشہ بنت سعد
(۴۶) عفیف بن عامر ، (۴۷) عبد بن حمید ، (۴۸) محمد بن عبد الرحمٰن بن فلاد ، (۴۹)ابو طفیل عامر بن واثلہ ،(۵۰) عمرو بن مرّہ ، (۵۱) عبد اللہ بن عمر ، (۵۲) اُبی بن کعب ، (۵۳)عمّار
جو کچھ اب تک بیان کیا جا چکا ھے اس پر غور فرمائیں مذکورہ رادیوں کے مستقلاً روایت کرنے کے ساتھ ساتھ جس کا سنی و شیعہ کتب میں تذکرہ موجود ھے۔
یہ حدیث غدیر خم رسول اللہ کے خطبے میں بیان کی گئی ھے۔ اسی بناپر غدیر کی سند حدیث ثقلین کی بھی سند شمار ہوتی ھے۔
اور حدیث غدیر کو سو (۱۰۰) سے زائد اصحاب نے نقل کیا ھے انھیں اسناد پر حضرت امیر المومنین(ع) علیہ اسلام کے اس استدلال کا اضافہ کرتے ہیں۔ جو آپ نے حدیث ثقلین کے بارے میں ایسے مجمع کے سامنے بیان فرمایا تھا جس میں اصحاب رسول بھی تھے اور اکثر صحابہ نے اس حدیث کے (رسول خدا) سے صادر ہونے کا اعتراف بھی کیا ھے۔ ([11])
اس کے علاوہ حدیث ثقلین کو ان افراد نے نقل کیا ہے کہ جھنوں نے اپنی کتاب کے مقدمے میں یہ بات لکھی ہے کہ ہم نے اپنی کتاب میں معتبر کتابوں سے صرف صحیح احادیث کو جمع کیا ہے۔ جیسے ([12]) ملا محمد مبین (فرھنگی محلی) لکھنوی ([13]) ولی اللہ لکھنوی۔ ہیشمی نے بھی اس بات کی صراحت کی ہے کہ جن افراد نے اس حدیث کو نقل کیا ہے وہ ثقہ اور مورد اطمنان افراد ہیں۔ ([14])
مذکورہ مقامات کے علاوہ دوسرے بہت سارے ایسے شواہد ہیں جو اس حدیث کی صحت اور تواتر پر دلالت کرتے ہیں۔ چنانچہ ایک گروہ نے اس کے تواتر کا ذکر کیا ہے ان میں سے ایک صفانی ہیں جوابحاث المسدّدہ کے ملحقات میں یوں رقمطراز ہیں۔ اس حدیث کے لئے روایات تواتر معنوی پر مشتمل ہیں۔ ([15])
بہر کیف حدیث ثقلین علماء اھل سنّت و شیعہ کے نزدیک متّفق علیہ حدیث ہے اور اس کا پیغمبرؐ اسلام سے صادر ہونا قطعی ہے۔

حوالہ جات:

[1] ان تمسکتم بھمالن تضلوا ابدا وانھمالن یفتر قاحتی یردا علی الحوض۔
[2] قرآن و عترت ایک دوسرے کی ضرورت نھیں ھے اور ھدایت خلق میں ایک دوسرے کے ممدّ و معاون ھیں۔ کسی ایک سے دوسرے کے بغیر انحراف و گمراھی ھے۔
[3] غاتیہ المراض ۲۱۱ طبع بیروت دررالقاموس الحدیث
[4] نفحات الازھارفی خلاصة عبقات الانوار۔ ص۔۲۱۰۔۲۱۹ طبقع اولی ۴۱۴ (عبقات الانوار، ج۔ ۱ طبع اول ص ۱۳۹۸ طبقع قم از صفحہ ۱۳ تا صفحہ ۲۵
[5] صواعق محرقہ صفحہ ۳۴۲ طبقع قاھرہ (مصر) طبقع دوم ۱۹۶۵ صفحہ ۲۲۸
[6] صواعق محرقہ صفحہ ۳۴۲صفحہ ۱۵۰ طبقع قاھر(مصر) طبع دوم
[7] صواعق محرقہ صفحہ ۳۴۲ صفحہ ۱۵۰ طبقع قاھر(مصر) طبع دوم
[8] حدیث ثقلین تواتر کے ساتھ ذکر ھیں۔
[9] صواعق محرقہ صفحہ ۳۴۲ طبع قاھرہ (مصر) طبع دوم ۱۹۶۵ صفحہ۔ ۲۲۸
[10] نفحات الازھار جلد ۲ صفحہ ۲۲۷۔۲۳۶
[11] غاتیہ المرام صفحہ ۲۳۱
[12] نفحات الازھار جلد ۱ صفحہ ۴۹۱
[13] نفحات الازھار جلد ۱ صفحہ۴۹۳
[14] یہ بات فیض الغد یر میں جلد ۲ صفحہ ۱۵ پر ان کے حوالے سے نقل کی گئی ھے۔
[15] نفحات الازھار جلد ۱ صفحہ۴۸۳

Short URL : https://saqlain.org/so/hiw7