طرفین کی معتبر کتابوں میں حدیث ثقلین کا شمار مستند صحیح اور متواتر روایتوں میں ہوتا ہے۔ حدیث ثقلین اس بات کی نشاندہی کرتی ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلّم نے امت کو حکم دیا ہے کہ ہدایت کے لئے صرف ان دو گراں قدر چیزوں سے مُتمسِّک رہو۔ قرآن اور اہلبیت علیہم السلام ۔ اور یہ ایک دوسرے سے جدا نہیں ہیں‘‘۔ اس لئے امت کو گمراہی سے بچنے کے لئے صرف اہلبیت اطہار کی اِتّباع کرنی چاہئے ۔ شاہ عبدالعزیز نے اپنی کتاب ’تحفۂ اثنا عشریہ ‘ میں اس بات کو تسلیم نہیں کیا ہے بلکہ اس کے مقابل دوسری روایت پیش کی ہے۔
’’تم پر لازمی ہے کہ میری سنت اور سنتِ خلفاء راشدین سے تمسک رکھو اور انھیں مضبوطی سے تھامے رہو‘‘۔
اس حدیث کے تعلق سے چند باتیں غور طلب ہیں۔
(۱) یہ روایت صرف اہل تسنن کی کتابوں میں ملتی ہے مثلاً سنن ابی داؤد، جامع ترمذی، سنن ابن ماجہ۔ اہل تشیع اس روایت کو قبول نہیں کرتے اور نہ ہی اُن کی کتابوں میں اس کا ذکر ہے۔ جب کہ حدیث ثقلین دونوں مسالک میں معتبر اور مقبول ہے۔
(۲) یہ حدیث کتاب سنن میں موجود ہے مگر صحیحین میں موجود نہیں ہے۔ یعنی صحیح بخاری اور صحیح مسلم دونوں میں نہیں ہے۔ جب کہ حدیث ثقلین صحیحین میں نقل ہوئی ہے۔ اہل تسنن کے یہاں روایت کا صحیح بخاری اور صحیح مسلم میں ہونا زیادہ اہمیت رکھتا ہے۔ اس طرح حدیث ثقلین کا مقبول ہونا زیادہ قوی ہے۔
(۳) اس روایت کے تمام تر راویان ضعیف ہیں۔ جن کی تفصیل اُن کی رجال کی کتابوں میں موجود ہیں۔ جس کی تفصیل علامہ میر حامد حسین ہندی کی کتاب ’’عبقات الانوار‘‘ میں دیکھی جا سکتی ہے۔جب کہ حدیث ثقلین کو ۳۰ سے زیادہ صحابہ اور صحابیہ نے اور ۶۰ سے زیادہ تابعین نے نقل کیا ہے۔
(۴) ان دونوں روایتوں کو اگر برابر رکھا جائے اور اس حدیث کو صحیح مان لینا مقصود ہو تو اِس کا نتیجہ صرف یہ نکلتا ہے کہ خلفاء راشدین کوئی اور نہیں بلکہ اہلبیت علیہم السلام میں سے بارہ امام ہیں۔اور اس سلسلہ میں دونوں مسلکوں میں حدیث بھی موجود ہے(سیکون بعدی اثنا عشر خلیفہ……….)
(۵) اس لفظ ’خلفاء راشدین‘ کا اطلاق اُن چار خلفاء پر نہیں کیا جا سکتا جن کی مراد شاہ عبدالعزیز نے لی ہے۔ اُس کی وجہ یہ ہے کہ متعدد معاملات میں سنت رسول اور سنت خلفاء میں تضاد پایا جاتا ہے۔ مثلاً رسول صلی اللہ علیہ و آلہٖ نے فدک اپنی دختر کو دیا تھا خلیفہ اوّل نے چھین لیا، رسول صلی اللہ علیہ و آلہٖ کی سنت میں متعہ تمتع تھا دوسرے خلیفہ نے اُسے حرام کر دیا۔ اور اس طرح کی اور مثالیں مل سکتی ہیں۔ پس اُمتی یا تو رسول کی سنت پر عمل کر پائے گا یا خلیفہ کی سنت پر۔ اگر ایک کو مضبوطی سے پکڑتا ہے تو دوسرے کو چھوڑنا پڑے گا۔