انسان جن لوگوں کے ساتھ اٹھتا بیٹھتا ہے اس سے اس کی شخصیّت کا پتہ چلتا ہے ۔ اچھے لوگ اچھے لوگوں کی صحبت پسند کرتے ہیں جب کہ برے لوگوں کو بری صحبت ہی پسند آتی ہے ۔ اور اس طرح انسان اپنی صحبت سے پہچانا جاتا ہے ۔
رسولؐ یا امامؑ کی صحبت ایک عظیم فضیلت ہے- اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ ان مقدّس ہستیوں کے ساتھ اٹھنے بیٹھنے سے انسان انکے علم و اخلاق کے ساتھ ساتھ انکی نورانیت سے بھی مستفیض ہوتا ہے- لیکن ان اثرات کو قبول کرنے کے لیے انسان میں ظرف ہونا بھی ضروری ہے-اس کےلئے کچھ شرائط ہیں جن کو پورا کرنا لازمی ہے- تاریخ بتاتی ہے کہ رسولؐ الله کے ہم رقاب لوگ تو بہت تھے مگر سب کو آپؐ کی صحابیّت راس نہ آئ، ہر ایک ان میں سے جنّتی بھی نہیں ہے۔
امام دوراں کی صحابیت پا لینا بھی بہت بڈا شرف ہے، اور اس کے بھی شرائط ہیں۔
حضرت امام صادق علیہ السلام کا فرمان ہے –
جس شخص کویہ بات پسندہے کہ وہ حضرت قائم(علیہ السلام) کے ناصران سے بن جائے تواس پرلازم ہے کہ وہ ان کا
انتظارکرے،
گناہوں کوچھوڑدے ،تقویٰ اختیارکرے،پرہیزگاربنے۔
اپنے اخلاقیات وعادات کواچھابنائے ۔
ایساشخص ہی حقیقی منتظرہے اگرایساشخص مرجائے اورحضرت قائم(علیہ السلام) کے ظہورکونہ پاسکے تواسے ایسے اجروثواب ملے گاجیسے اس نے خوداپنے امام ٴ کازمانہ پایاہو”
اس حدیث میں امامؑ نے تین صفتوں کا ذکر کیا ہے۔ امامؑ کا منتظر ہونا یعنی اپنے آپ کو امامؑ کی آ مد کے لیے ہمیشہ تیّار رکھے۔ایسا نہ ہو کہ اس کے امام کا ظہور ہو اور وہ غفلت کا شکار بنارہے۔ اور نہ یہ صورت حال ہو کہ طول غیبت کی وجہ سے یہ مایوس ہو جاءے۔ دوسرے یہ کہ اپنے آپ کو تقوی سے بھی اعلی منزل “ورع” تک پہنچا دے ایسا نہ ہو کہ گناہوں کی آلودگی اسے اپنے امامؑ کی صحبت سے دور کر دے۔ یہ بھی ممکن ہے کہ اگر اس کا تقوی امامؑ کے معیار کا نہ ہوا تو حضرتؑ اس کو اپنا صحابی نہ بناءیں۔
اس میں یہ صفت بھی موجود ہو کہ اس کا اخلاق اچّھا ہو۔ اس کےاخلاق کی یہ اچّھائ نہ صرف یہ کہ خود اس کو فاءدہ پہنچاےگی بلکہ دوسروں کو بھی اچّھائ کی دعوت دے گی۔ وہ اپنے بہترین اخلاق اور بلند کردار کی وجہ سے مشہور ہو اور لوگ اسے دیکھ کر خود کہیں کہ یہ امام مہدیؑ کا شیعہ ہے۔ اس طرح وہ حقیقی منتظر امامؑ بن جاءیگا اسی کے لیءے وہ اجر و ثواب ہے جو امامؑ کے ہمراہ لوگوں کو ثواب ملے گا۔ وہ لوگ جو امامؑ کے ہمراہ ہونگے وہ صرف ان لے صحابی نہ ہونگے بلکہ انؑ کی حکومت کے قاءم کرنے میں انؑ کے مددگار بھی ہونگے۔ اور جب یہ حکومت عدل و انصاف قاءم ہو جاءگی تو اس کی تقویّت اور دوام بھی ان اصحاب امامؑ کی وجہ سے ہی تو ہوگی۔ حکومت امامؑ کو چلانا، انؑ کے احکام کو نافذ کرنا، لوگوں کے ساتھ عدل و انصاف سے پیش آنا یہ سب اس کے امور میں شامل ہو گا۔ اب اگر اس میں حدیث میں بیان کی ہوئ خوبیاں نہ ہوئی تو وہ پوری طرح سے ناکامیاب رہے گا اور ہو سکتا ہے کہ وہ حضرتؑ کی حکومت کو بھی کمزور بنادے۔
بارگاہ الہی میں دعا ہے کہ خالق کاءنات ہم سب کو ان صفات سے آراستہ کرے۔ ہمیں اس لائق بنا دے کہ ہمارا امامؑ ہم سے راضی ہو اور ہمیں اپنے انصار میں شمار کرے۔
.