310

حضرت علیؑ نے قاتلان حضرت فاطمہؐ زہرا سےاچھے اور دوستانہ روابط کیوں رکھے؟ (تیسرا اعتراض)

Print Friendly, PDF & Email

تیسرے اعتراض کا جواب:
خلفاء سے دوستی کا دعویٰ بالکل غلط ہے۔حضرت علیؑ کا ابو بکر و عمر سے نفرت کرنا اور ان سے غیر دوستانہ رابطہ اور رویہ رکھنا یہ ایسی حقیت ہے کہ جس سے انکار نہیں کیا جاسکتا اور حضرت علیؑ و خلیفہ اول ودوم کے ساتھ اچھے اور دوستانہ روابط کو ثابت کرنے کی کوشش کرنا بے نتیجہ اور بے مصرف کام کو انجام دینے کے مترادف ہے۔
قاریان محترم کی اس تاریخی حقیقت سے آگاہی کے لئے چند معتبر تاریخی و روائی اسناد کو بطور دلیل ذکر کررہے ہیں

ا۔ مسلم بن حجاج نیشاپوری نے تحریر کیا ہے کہ :
عمر عثمان بن عفّان، عبد الرحمن بن عوف، زبیر بن عوام اور سعد بن ابی وقاص کی موجودگی میں عباس بن عبد المطلب (پیغمبرؐاکرم کے چچا)اور حضرت علیؑ کو مخاطب کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ :
جب حضور اکرمؐ دنیاسے رحلت کرگئے اور ابو بکر نے خلافت حاصل کرلیا تو تم دونوں (عباس وحضرت علیؑ) نے ابو بکر کو جھوٹا، گنہگار، مکار، اور خیانت کرنے والا انسان سمجھااور ابو بکر کے انتقال کے بعد جب میں اس کا جانشین بنا تو مجھے بھی اسی کی طرح جھوٹا، گنہگا، مکار اور خیانت کرنے والا انسان تم لوگ سمجھنے لگے (1)۔

ب۔ محمد بن اسماعیل بخاری نے عائشہ سے نقل کرتے ہوئے تحریر کیا ہے کہ:
حضرت علی ؑ نے ابو بکر کی پہچان خود غرض اور ظالم و جابر انسان کے طور پر کرایا اور ان سے ملاقات کرنے سے بھی انکار کردیا اور ابو بکر کی کسی جلسہ میں موجود گی حضرت علیؑ کی ناراضگی کا سبب ہوتی تھی ۔ (2)

ج۔ عمر بن خطاب شام کے سفر پر نکلتے وقت عبد اللہ ابن عباس (حضرت علیؑ کے چچا زاد بھائی) کو مخاطب کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ:
مجھے تمہارے چچا زاد بھائی (حضرت علیؑ) سے شکایت ہے اس لئے کہ میں چاہ رہا تھا کہ وہ بھی ہمارے ساتھ شام آئیں لیکن انھوں نے قبول نہیں کیا، تمہارے چچا زاد بھائی مجھ سے ہمیشہ ناراض رہتے ہیں تمہاری نظر میں ان کی ناراضگی کا سبب کیا ہے ؟(3)

د۔ محمد بن اسماعیل بخاری اور مسلم بن حجاج نیشا پوری لکھتے ہیں کہ:
حضرت فاطمہؐ زہرا ابو بکر سے ناراض ہوئیں، اس سے منہ موڑلیا اور جب تک زندہ رہیں ابو بکر سے بات نہیں کیا اور جب حضرت فاطمہؐ زہرا اس دنیا سے رحلت کرگئیں تو ان کے شوہرحضرت علیؑ نے ان کی نماز جنازہ پڑھی، ان کو رات میں دفن کیا اور خلیفہ کو اس کی اطلاع نہیں دیا ۔ (4)
یہ مذکورہ مدارک وہ معتبر اسناد ہیں کہ جو اہل سنت کے منابع میں موجود ہیں جو حضرت علیؑ کے خلفاء کے ساتھ خوشگوارروابط کو بیان نہیں کرتے ہیں کیا اب ان معتبر تاریخی اور روائی دلیلوں کے ہوتے ہوئے بھی حضرت علیؑ کے ابو بکر اور عمر کے ساتھ دوستانہ تعلقات کا دعوی کرنا صحیح ہے؟

جو لوگ حضرت علیؑ اور عمر و ابو بکر کے درمیان اچھے اور سچے تعلقات کا دعوی کرتے ہیں ان سے پوچھنا چاہئے کہ:
(ا)۔ کیا وہ شخص جو ابو بکر و عمر کو ایک جھوٹا، مکار، گنہگار اور خائن انسان سمجھتا ہو وہ ان سے اچھے اور صمیمانہ تعلقات اور روابط رکھ سکتاہے؟
(ب)۔ حضرت علیؑ نے عمر بن خطاب سے ملاقات اور اس کا سامنا کرنے سے کیوں انکار کیا اور ان کے حاضر ہونے سے ناراض کیوں ہوتے تھے؟
(ت)۔ حضرت علیؑ کیوں کبھی عمر کے ساتھ نہیں رہے اور ان کی جنگوں میں شریک نہیں ہوئے؟
(ج)۔ کیوں حضرت علیؑ نے حضرت فاطمہؐ زہرا کے جنازہ کی تشییع و تدفین کو رات میں انجام دیا اور ابوبکر و عمر کو اس کی اطلاع نہیں دیا؟
(ح) کیا یہ فرمان: ((لقد عمل الولاة قبلي بأمور عظيمة خالفوا فيها رسول الله معتمدين لذلك) (5) ابو بکر و عمر کی تعریف اور بزرگی بیان کررہاہے؟ (اس کی وضاحت یہ ہے کہ حضرت علیؑ اپنے ایک خطبہ میں فرماتے ہیں کہ گزشتہ حکومتوں کے حاکموں نے (ابو بکر و عمر و عثمان) نے بہت برےامور انجام دئے ہیں جن میں رسول اللہ ﷺ کی نافرمانی اور مخالفت ہے۔
(د)۔ کیا امیر المومنینؑ نے خطبہ شقشقیہ میں جو کچھ فرمایا ہے وہ ابو بکر و عمر کی تعریف اور بزرگی بیان کررہا ہے؟ (6)
———————————————————————————–
(1)۔ ((ثم توفی ابو بکر و أنا ولی رسول اللہ و ولی ابی بکر، فرأیتمانی کاذباً آثماً غادراً خائناً))۔ صحیح مسلم ص۸۳۲، کتاب الجھاد و السیر، باب حکم الفیء، ح۴۵۵۲۔
(2)۔ ((و لکنّک استبددت علینا بالأمر۔ ۔ ۔ کراھیة لمحضر عمر))۔ صحیح بخاری، ص۸۴۳، کتاب المغازی، باب غزوہ خیبر، ح۴۲۴۰۔ ۲۴۴۱۔
(3) ۔ ((اشکو الیٰ عمک، سألتہ أن یخرج معی فلم یفعل و لم أزل أراہ واجداً، فیم تظن موجدتہ))۔ شرح نہج البلاغہ، ج۱۲، ص۷۸، نکت من کلام عمر و سیرتہ و اخلاقہ۔
(4)۔ ((فوجدت فاطمة علی ابی بکر فی ذلک فھجرتہ فلم تکلمہ حتیٰ توفیت۔ ۔ ۔ فلما توفیت دفنھا زوجھا علی لیلاً و لم یؤذن بھا ابا بکر و صلی علیھا علی))۔ صحیح بخاری، ص۸۴۳، کتاب المغازی، باب غزوۃ خیبر، ح۴۲۴۰۔ ۴۲۴۱۔ و صحیح مسلم، ص۸۳۳، باب قول النبی: لاتورث ما ترکنا فھو صدقۃ، ح۴۵۵۵۔
(5)۔ الاحتجاج، ج۱، ص۳۹۲، احتجاجہ علی من قال بالرأی فی الشرع و الاختلاف فی الفتوی و أن یتعرض للحکم بین الناس من لیس لذلک بأھل و ذکر الوجہ لاختلاف من اختلف فی الدین و الروایة عن رسول اللہ
و الکافی، ج۸، ص۶۹، ح۲۱، خطبۃ لامیر المؤمنین۔
(6) ۔ حضرت علیؑ نے خطبہ شقشقیہ میں ابوبکر، عمر و عثمان کے اعمال کردار اور اخلاق پر اپنی حکومت کے دوران شدید اعتراض کیا ہے اورکہا ہے کہ یہ سب خلافت کے اہل سے نہیں تھے اور فرماتے ہیں: آگاہ ہوجاؤ کہ خدا کی قسم فلاں شخص (ابن قحافہ) نے قمیص خلافت کو کھینچ تان کر پہن لیا ہے حالانکہ اسے معلوم ہے کہ خلافت کی چکی کے لئے میری حیثیت مرکزی کیل کی ہے۔ علم کا سیلاب میری ذات سے گذر کر نیچے جاتا ہے اور میری بلندی تک کسی کا طائر فکر بھی پرواز نہیں کرسکتا ہے۔ پھر بھی میں نے خلافت کے آگے پردہ ڈاال دیا اور اس سے پہلو تہی کرلی اور یہ سوچنا شروع کردیا کہ کٹے ہوئے ہاتھوں سے حملہ کردوں یا اسی بھیانک اندھیرے پر صبر کرلوں جس میں سن رسیدہ بالکل ضعیف ہوجائے اور بچہ بوڑھا ہوجائے اور مؤمن محنت کرتے کرتے خدا کی بارگاہ تک پہونچ جائے۔
تو میں نے دیکھا کہ ان حالات میں صبر ہی قرین عقل ہے تو میں نے اس عالم میں صبر کرلیا کہ آنکھوں میں مصائب کی کھٹک تھی اور گلے میں رنج و غم کے پھندے تھے۔ میں اپنی میراث کو لٹتے دیکھ رہا تھا۔ یہاں تک کہ پہلے خلیفہ نے اپنا راستہ لیا اور خلافت کو اپنے بعد فلاں کے حوالہ کردیا بقول اعشیٰ:
“کہاں وہ دن جو گذرتا تھا میرا اونٹوں پر۔ کہاں یہ دن کہ میں حیان کے جوار میں ہوں “۔
حیرت انگیز بات تو یہ ہے کہ وہ اپنی زندگی میں استعفیٰ دے رہاتھا اور مرنے کے بعد کے لئے دوسرے کے لئے طے کرگیا۔
بیشک دونوں نے مل کر شدت سے اس کے تھنوں کو دوہا ہے اور اب ایک ایسی درشت اور سخت منزل میں رکھ دیا ہے جس کے زخم کاری ہیں اور جس کو چھونے سے بھی درشتی کا احساس ہوتا ہے۔ لغزشوں کی کثرت ہے اور معذرتوں کی بہتات !۔ اس کو برداشت کرنے والا ایسا ہی ہے جیسے سرکش اونٹنی کا سوار کہ مہار کھینچ لے تو ناک زخمی ہوجائے اور ڈھیل دیدے تو ہلاکتوں میں کود پڑے۔ تو خدا کی قسم ایک کجروی، سرکشی تلون مزاج اور راہ و روی میں مبتلا ہوگئے ہیں اور میں نے بھی سخت حالات میں طویل مدت تک صبر کیا یہاں تک وہ بھی اپنا راستہ چلا گیا لیکن خلافت کو ایک جماعت میں قرار دے گیا جن میں ایک مجھے بھی شمار کرگیا جب کہ میرا اس شوری سے کیا تعلق تھا؟ مجھ میں پہلے دن کون سا عیب و ریب تھا کہ آج مجھے ایسے لوگوں کے ساتھ ملایا جارہا ہے۔ لیکن اس کے باوجود میں نے انہیں کی فضا میں پرواز کی اور یہ نزدیک فضا میں اڑے تو وہاں بھی ساتھ رہا اور اونچے اڑے تو وہاں بھی ساتھ رہا مگر پھر بھی ایک شخص اپنے کینہ کی بنا پر مجھ سے منحرف ہوگیا اور دوسرا مادی کی طرف جھک گیا اور کچھ اور بھی ناقابل ذکر اسباب و اشخاص تھے جس کے نتیجہ میں تیسرا شخص سرگین اور چارہ کے درمیان پیٹ پھلائے ہوئے اٹھ کھڑا ہوا اور اس کے ساتھ اس کے اہل خاندان بھی کھڑے ہوگئے جو مال خدا کو اس طرح ہضم کررہے تھے جس طرح اونٹ بہار کی گھاس کو چر لیتا ہے یہاں تک کہ اس کی بٹی ہوئی رسی کے بل کھل گئے اور اس کے اعمال نے اس کا خاتمہ کردیا اور شکم پری نے منھ کے بل گرادیا۔ خطبہ سوم نہج البلاغہ۔

Short URL : https://saqlain.org/so/vnob

اپنا تبصرہ بھیجیں

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.