پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم سے امیر المومنین علی ابن ابی طالب؈ کے علم کے بارے میں بے شمار روایتیں نقل ہوئی ہیں جن میں سب سے زیادہ جو مشہووہ ہے:
اَنَا مَدِیْنَۃُ الْعِلْمِ وَ عَلِیٌّ بَابُہَا
رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم کے تمام اصحاب کا اس بات پر اتفاق ہے کہ علی؈ تمام اصحاب میں سب سے زیادہ علم رکھنے والے ہیں۔ ہر ایک کو اس بات کا یقین تھا کہ علی؈ کے علم کے برابر کسی کا علم نہیں ہے۔ یہاں تک کہ جو لوگ علی؈ سے بر سر پیکار رہے اور جنگ کرتے رہے انہوں نے بھی علی؈کا اعتراف کیا ہے۔
عائشہ کہتی ہیں: علی؈ سنتِ پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم کے بارے میں سب سے زیادہ جاننے والے تھے۔
معاویہ کہتے ہیں: عمر کے سامنے جب کوئی مشکل مسئلہ پیش آتا تھا تو حضرت علی؈ سے دریافت کرتے تھے اور خود متعدد مقامات پر حسب ذیل جملہ اور اس سے مشابہ جملہ کی تکرار کیا ہے:
لاَ اَبْقَانِیَ اﷲُ لَمَعْضِلَہٗ لَیْسَ لَہَا اَبُوْ الْحَسَنُ…
کہ خدایا! مجھے کسی ایسی مشکل میں قرار نہ دے کہ علی بن ابی طالب (؈) موجود نہ ہوں۔
امیر المومنین؈ کی اس فضیلت کے مقابلہ میں اہل سنت کی بعض کتابوں میں چند جھوٹی حدیثیں پائی جاتی ہیں جو قابل توجہ ہیں۔ مثلا ابن حجر مکی (متعصب ترین سنی عالم) نے صواعق محرقہ میں درج کیا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم نے فرمایا ہے:
اَنَا مَدِیْنَۃُ الْعِلْمِ وَ اَبُوْبَکْرٍ اَسَاسُہَا وَ عُمَرٌ حِیْطَانُہاَ وَ عُثْمَانٌ سَقْفُہَا وَ عَلِیٌّ بَابُہَا
میں شہر علم ہوں، ابو بکر اس کی بنیاد ہیں، عمر اس کی دیواریں ہیں، عثمان اس کی چھت ہیں اور علی؈ دروازۂ شہر ہیں۔
اور بعض کتابوں میں اہل سنت کے بزرگ لوگوں نے ایک جملہ کا اور اضافہ کیا ہے
وَ مُعَاوِیَۃُ حَلْقَتُہَا!!!
معاویہ اس کے حلقہ ہیں
دوسری حدیث میں ذکر ہوا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم نے رفرمایا:
اگر عمر کے علم کو ایک ترازو میں رکھا جائے اور روی زمین کے تمام انسان کا علم دوسرے ترازو میں رکھا جائے تو علم عمر کا پلہ بھاری ہوگا۔
اس سلسلہ میں بطور کلی یہ بات جان لینے کی ہے کہ عمر یا ابو بکر کی اعلمیت کے بارے میں حدیث کا حبل کرنا غصب خلافت کی توجیہ کرنے کے علاوہ اور کچھ بھی نہیں ہے اس لئے کہ ایک بات سب تسلیم کرتے ہیں کہ فاضل پر مفضول کو مقدم کرنا عقلی طور سے قبیح ہے اور عام طور سے یہ ؟؟؟ نہیں ہے کہ ایک پیغمبرؐ کی خصوصیت تو علم الٰہی اور قدرت خدا کی بنیاد پر ہو مگر اس کا خلیفہ و جانشین علم پیغمبرؐ کے بارے میں سب سے زیادہ علم رکھنے والا نہ ہو۔ حدیث کے وضع کرنے والے خود بھی چاہتے ہیں کہ جاہل عالم کا خلیفہ ہرگز نہیں ہو سکتاہے۔ مگر افسوس کہ تاریخ اسلام میں یہ عجیب و غریب اور نہایت قبیح واقعہ رونما ہوا جی کی بعض لوگوں نے چاہتے ہوئے بھی تائید کی ہے اور ابن حزم اور ابن تیمیہ (جیسے متعصب ترین لوگوں) نے لکھا ہے کہ:
عمر بن خطاب کے پاس جتنا علم تھا وہ علی؈ کے علم کے چند برابر تھا۔ اور جو علی؈ کو اعلم کہتا ہے انکا قول باطل ہے اور جو اس بارے میں میری مخالفت کریگا وہ یا تو جاہل ہے یا پھر ایسا بے شرم ہے جدسکا جھوٹ اور جہل آشکار ہے۔
موسیٰ جار اللہ نے بھی لکھا ہے:
عمر قرآن و سنت کے بارے میں تمام صحابہ میں سب سے زیادہ اقفہ تھے (یعنی فقہ کا علم)۔
یہ لوگ اس طرح کی غیر مربوط اور غیر عقلی باتیں کرتے وقت صحیح حدیث سے با خبر نہیں تھے۔ ان لوگوں کے بے جا دعوؤں اور ان کی حدیثوں کو باطل کرنے کے لئے اور انتہائی درجہ کا جھوٹ آشکار کرنے کے لئے اہل سنت کی کتابوں کا مختصر مطالعہ کافی ہوگا۔ مرحوم علامہ امینیؒ نے اپنی ہنایت گرانقدر کتاب ’الغدیر‘ میں تقریباً ۱۰۰ مقامات کا یعنی کتابوں سے تعارف کرایا ہے جہاں عمر نے قرآن و سنت نبوی سے بے خبر ہونے کا اعتراف کیا ہے۔ جن کی طرف آنے والے صفحات میں بعض کا تذکرہ کروں گا تاکہ سب (خصوصاً ابن تیمیہ جیسے متعصب علمائ) کے لئے اچھی طرح واضح ہو جائے کہ عم نہ صرف ’’افقہ صحابہ‘‘ اور ’’شہر پیغمبر کے دیوار‘‘ نہ تھے بلکہ پیغمبر کے بہت سے دیگر اصحاب حتی پردہ نشین عورتوں کے ساتھ بھی عمر زانؤ ادب تہہ کر چکے ہیں اور وہ سب عمر کے اساتذہ کہے جانے کے حق بجانب ہیں۔
مسلمانوں کا خلیفہ تمیم نہیں جانتا
مسلم نے اپنی کتاب صحیح مسلم کے باب تمیم میں عبد الرحمن سے چار طریقوں سے نقل کیا ہے:
ایک شخص عمر کے پاس آ کر کہتا ہے کبھی ایسا ہوتا ہے کہ میں جنب ہو جاتا ہوں اور غسل کے لئے پانی نہیں رہتا اس حال میں کیا کروں نماز پڑھوں یا نہ؟ عمر نے کہا: نماز نہ پڑھو!!! بعض لوگوں نے دوسرے انداز سے نقل کیا ہے کہ عمر نے کہا: اگر میں تمہاری جگہ پر ہوتا تو اس وقت تک نماز نہ پڑھتا جب تک پانی دستیاب نہ ہوجائے!!! اس موقعہ پر عمار یاسر موجود تھے بولے: اے خلیفہ! تمہیں یاد ہے جب میں اور تم ایک جنگ میں تھے اور جنب تھے۔ غسل کے لئے پانی نہیں تھا تو تم نے نماز نہیں پڑھی اور میں نے مٹی میں اپنے کو غلطید کیا اور نماز ادا کر کے جب آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم کی خدمت میں حاضر ہوئے تو (آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم نے میرے عمل کی تائید فرمائی اور تمہارے عمل کو باطل قرار دیا)اس کے بعد پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم نے تیمم کا طریقہ تعلیم فرمایا کہ اپنے دونوں ہاتھ زمین پر مارو اپنے ہاتھوں اور چہیرے کا اس سے مسح کرو؟ عمر بن خطاب نے عمار یاسر سے کہا: اے عمار! خدا سے ڈرو! عمار نے جواب دیا: اے خلیفہ اگر تم چاہتے ہو تو میں خاموش رہوں گا نہین بولوں گا!!
بات یہ ہے کہ مسلمانوں کے خلیفہ نے کیا قرآن میں تیمم کی آیت میں پڑھی تھی؟ جہاں ارشاد ہوتا ہے:
…وَ اِنْ کُنْتُمْ جُنُبًا فَاطَّہَّرُوْا، وَ اِنْ کُنْتُمْ مَّرْضٰیٓ اَوْ عَلٰيسَفَرٍ اَوْجَآئَ اَحَدٌ مِّنْکُمْ مِّنَ الْغَآئِطِ اَوْ لَامَسْتُمُ النِّسَآئَ فَلَمْ تَجِدُوْا مَآئً فَتَیَمَّمُوْا صَعِیْدًا طَیِّبًا فَامْسَحُوْا بِوُجُوْہِکُمْ وَ اَیْدِیْکُمْ مِّنْہُ،…
…اوراگر تم حالت جنابت میں ہوتوتم طہارت (غسل) کرلو (ہاں) اورتم بیمار ہویا سفر میں ہو یا تم میں سے کسی کو پائخانہ نکل آئے یا عورتوں سے ہمبستری کی ہواور تمکو پانی نہ مل سکے تو پاک خاک سے تیمم کرلو (یعنی اپنے دونوں ہاتھ مار کر) اس سے اپنے ہاتھوں کا مسح کرلو…۱؎
خلیفۃ المسلمین نے ایک مجنب شخص کو ترک فریضہ کا حکم کیسے دے دیا؟؟!!! پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم کہ جنکی نبوت ہی حکم خدااور عبادت سے عبادت ہے اسکا جانشین کیوں کر ایک جزئی مسئلہ کے حکم سے بے خبر ہو سکتاہے؟
کیا قرآن و سنت پیغمبر ؐ کے بارے میں ’’افقہ صحابہ‘‘ ہونے کا یہی مطلب ہوتا ہے؟!
اہل سنت کے علماء نے اپنے خلیفہ کی آبرو کی حفاظت اور انہیں ذلت و رسوائی سے بچانے کے لئے ہر ایک نے الگ الگ طریقہ اپنایا ہے۔
بخاری نے اپنی کتاب صحیح میں مذکورہ حدیث کو نقل کیا ہے مگر عمر کے جواب کو نگل گئے جس میں سائل سے کہا تھا ’نماز پڑھو‘لیکن عمار یاسر کی بات کو نقل کیا ہے۔ بخاری در اصل اس بات سے غافل تھے کہ عمار یاسر کا کلام خود ساری حقیقت کو آشکار کر دیگا!
بعض نے خلیفہ کے جواب کہ ’نماز نہ پڑھو‘ کے بجائے لکھا ہے کہ خلیفہ کو جواب نہیں معلوم تھا یعنی انہیں علم نہیں تھا کیا جواب دیں۔
بعض لوگوں نے تو ایک الگ ہی منطق بگھاری ہے وہ یہ کہ: خلیفہ نے اجتہاد کیا اور وہ آیت تیمم کو حدث اصغر سے مخصوص جانتے تھے، ان کے اجتہاد نے انہیں اس بات پر آمادہ کیا کہ مجنب شخص تیمم نہ کرے۔ یہ لوگ عمر کے مشہور فتووں میں سے اسے ایک مشہور فتویٰ شمار کرتے ہیں!!!
قرآن و سنت پیغمبر سے تھوڑی سی بھی آشنائی رکھنے والا امتی یہ کہہ سکتا ہے کہ خلیفہ کا اجتہاد نصّ قرآن کے مقابلہ میں ہے (اور جو نص قرآن کے مقابل میں اجتہاد کرتا ہے وہ قرآن سے بغاوت کرنے والا شمار ہوتا ہے۔)