يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ وَابْتَغُوا إِلَيْهِ الْوَسِيلَةَ وَجَاهِدُوا فِي سَبِيلِهِ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ.
[اے ایمان لانے والو! اللہ سے ڈرو اور اس کی بارگاہ تک رسائ کے لیے وسیلہ تلاش کرو اور اس کی راہ میں جہاد کرو, شائد تم فلا ح پاجاو] (سوره المائدة: 35)
وہابی، اپنے آپ کو خالص توحید کا علمبردار سمجھتے ہیں اور بقیہ مسلمانوں کو شرک کے مرتکب ہونے کا الزام لگاتے ہیں۔ ان کی دلیل یہ ہے کہ چونکہ مسلمان رسول الله (ص) یا دیگر بزرگانِ دین سے مدد طلب کرتے ہیں یہ قرآنی آیت ‘ایاک نستعین’ (ہم صرف تجھ ہی سےمدد چاہتے ہیں) کے خلاف ہے۔ لہٰذا ‘یا رسول اللہ’ یا ‘یا علی مدد’ کہنا ان کی نظر میں شرک ہے۔ اس الزام کے جواب میں مخالف گروہ قرآن کی بالا آیت کو پیش کرتا ہے جس میں بارگاہ خدا میں وسیلہ طلب کرنے کی بات کی گئ ہے۔ بلکہ آیت میں بظاہر حکم ہو رہا ہے کہ اس کی بارگاہ تک رسائ کے لیے وسیلہ تلاش کرو۔
شیعوں کے نزدیک یہ وسیلہ اہلبیتِ رسول علیہم السلام کی ذات مبارک ہے۔ یہی وہ شخصیتیں ہیں جو مومن کی نجات کا باعث ہیں۔ یہی اہلبیتِ اطہار (ع) اللہ کی مضبوط رسّی اور صراط مستقیم ہیں۔ مگر شیعوں ہی میں کچھ خود کو روشن فکر والا سمجھنے والے چند افراد اس بات سے اتفاق نہیں رکھتے۔ ان کا ماننا ہے کہ خدا کی بارگاہ میں وسیلہ صرف انسان کے نیک اعمال ہیں۔ اپنی بات کی دلیل کے لیے وہ مولا علیؑ کے ایک قول کو جو نھج بلاغہ میں موجود ہے پیش کرتے ہیں۔اس خطبہ میں امیرالمومنین (ع) اپنے اصحاب سے نصیحت فرمائ ہے کہ اپنے نیک آعمال کو خدا کی بارگاہ میں وسیلہ بنالو۔ لہذا اس بات سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ نیک اعمال مثلاً قرآن کی تعلیم دینا، نماز و روزے کی پاندی کرنا، امانت داری ، زیادہ سے زیادہ صلوات پڑھنا چند ایک اعمال ہیں جن کو روز قیامت بطور شافع اور وسیلہ پیش کیا جاسکتا ہے۔ مگر اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہے ائمہ اہلبیت یا دین کی دیگر بزرگ ہستییوں مثلا علماء یا شہداء وسیلہ نہیں بن سکتے۔ اس بات کی واضح دلیل اسی آیت کی تفسیر ہے. اس آیت کی تفسیر کرتے ہوئے خود امیرالمومنین (ع) نے ارشاد فرمایا:
وَ قَالَ أَمِيرُ اَلْمُؤْمِنِينَ : وَ اِبْتَغُوا إِلَيْهِ اَلْوَسِيلَةَ أَنَا وَسِيلَتُهُ وَ أَنَا وَ وُلْدِي ذُرِّيَّتُهُ.
(المناقب ج ٣ ص ٧۵، البرھان ج ٢ ص ٢٩٢)
یعنی “(قرآن میں جو یہ جملہ آیا ہے کہ) اس کی بارگاہ میں وسیلہ تلاش کرو، اس کا وسیلہ میں ہوں اور میری اولادیں ہیں جو ذریتِ رسولؐ ہیں۔”
اس طرح کی بہت سی احادیث کو یہاں پیش کیا جاسکتا ہے جن سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ بارگاہ خدا میں وسیلۂ نجات اہلبیتِ پیغمبرؑ ہیں۔ مگر اختصار کو مد نظر رکھتے ہوئے اس سے گریز کرتے ہیں۔ مگر روایت کا یہاں ذکر کرنا ضروری ہے جس سے یہ واضح ہوجائے گا کہ اعمال کے مقابلہ میں اہلبیتؑ کا وسیلہ کہیں زیادہ کارگر ہے۔
ایک مرتبہ ابو ایمن نامی ایک شخص نے امام محمد باقرؑ سے کہا: “(نعوذ باللہ) تم کیوں لوگوں کو اس بات کا دھوکا دیتے ہو کہ ان کو قیامت میں محمدؐ (تمھارے جد) کی شفاعت مل جائے گی؟؟” اس شخص کے کہنے کا مطلب یہ تھا کہ لوگ اس طرح نیک اعمال کے بجا لانے سے دور ہو جائیں گے اور گناہوں کےکرنے کی جسارت ان میں پیدا ہوگی۔ اس کا ماننا یہ تھا کہ روز جزا صرف اعمال ہی انسان کو فائدہ یا نقصان پہنچا سکتے ہیں۔ کوئی شفاعت نہیں ہوگی۔
اس شخص کی بات سنتے ہی امام پنجم کے چہرے پر غضب کے آثار نمودار ہوگئے ۔ آپؑ کے چہرے کا رنگ تبدیل ہوگیا۔ آپؑ نے اس سے کہا اے ابو ایمن کیا تم اس دھوکے میں ہو کہ (صرف) اپنے پیٹ کی اور اپنی شرم گاہ کی حفاظت کر لینا تمھاری بخشش کے لیے کافی ہوگا؟؟ کیا تم سمجھتے ہو کہ تمھاری پرہیز گاری اور تقویٰ تم کو روز جزا بچالے گا؟؟ بلکہ اگر تم قیامت کے خوف سے واقف ہوتے تو تم جانتے کہ تم بھی رسول الله صلی الله علیہ وآلہ کی شفاعت کے محتاج ہو۔ وائ ہو تجھ پر! کیا صرف اسی کے لیے شفاعت کی جاسکتی ہے جس کے لیے یہ واجب ہے؟ قیامت کے دن کوئ شخص ایسا نہ ہوگا جس کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ کی شفاعت کی ضرورت نہ ہو۔” آپؑ نے مزید فرمایا:”رسول اکرم (ص) کو اپنی امت کی شفاعت کا اختیار ہے، ہم کو اپنے شیعوں کی شفاعت کا حق حاصل ہے، جبکہ ہمارے شیعوں کو اپنے اہل و عیال کی شفاعت کا اختیار ہوگا۔” آپؑ نے مزید فرمایا:” یقینًا ایک مومن اتنے لوگوں کی شفاعت کرے گا جتنے ربیعہ اور مضر (مدینے کے دو بڑے قبیلہ) کے جتنے افراد ہیں۔ ایک مومن اپنے خادم تک کی شفاعت کرے گا۔ مومن پرودگار سے فریاد کرے گا: “پروردگار !! اس خادم نے سردی و گرمی بلکہ ہر زمانے میں میری خدمت کی ہے۔ (اس خدمت کے عوض اس کو بخش دے۔)
( تفسیر نور الثقلین ج ۴ ص ٣٣۴)
اسی روایت کو کچھ الفاظ کے رد و بدل کے ساتھ اس طرح بھی نقل کیا گیا ہے کہ ابو ایمن نام کا ایک شخص امام محمد باقر (ع) کے پاس آیا اور کہنے لگا کہ، “تم لوگوں کو یہ کہہ کر گمراہ کر رہے ہو کہ تم کو (روز قیامت) محمدؐ کی شفاعت ملے گی اور تم بخش دیئے جاو گے؟ (جبکہ حقیقت تو یہ ہے کہ ہر ایک کو اس کے عمل کے مطابق جزا و سزا ملے گی)
امام (ع) اس کی بات سن کر غضبناک ہوئے حتیٰ کہ آپؑ کے چہرے کا رنگ متغیر ہو گیا۔ آپؑ نے اس سے فرمایا،”۔۔۔۔وای ہو تجھ پر اے ابو ایمن! کیا تو اپنے شکم اور شرمگاہ کو گناہوں سے بچا کر مغرور ہو گیا ہے؟ (اور اس پر نازاں ہے؟) جبکہ قسم ہے الله کی کہ جب تو روز قیامت کی پریشانیوں اور ہولناکیوں کو دیکھے گا تو پھر تجھے رسولِ اکرم (ص) کی شفاعت کی ضرورت کا اندازہ ہوگا ( اور تو آنحضرتؐ کی شفاعت کا محتاج ہوگا) وائے ہو تجھ پر کیا بجز اس کے جو مستحقِ جہنم ہے کوئی اور بھی شفاعت پا سکے گا؟
ان دونوں روایتوں سے یہ بخوبی واضح ہوگیا کہ ہر فرد روز حساب رسول اسلام کی شفاعت کا محتاج ہوگا۔ کسی کا کوئ نیک عمل اس کے کام نہ آئے گا۔ بلکہ اپنے اعمال کی بنا پر بخشش کی امید لگانے والا دھوکے میں ہے۔ بعض روایتوں سے پتہ چلتا ہے کہ خودانبیآء کرام کو رسول اکرم (ص) کے وسیلے کی ضرورت ہوگی۔ دوسری اہم بات یہ کہ اگر سجدے اور عبادتیں نجات کے لیے کافی ہوتیں تو شیطان بارگاہِ خدا سے مردود نہ ہوتا۔
بہر حال روزِ محشر، خدا کے نزدیک اہلبیتؑ اطہار اپنے بلند مقام کی وجہ سے اپنے گناہ گار شیعوں کی شفاعت کریں گے جس کو اللہ ان کے حق میں قبول کرے گا۔ امام جعفر صادق علیہ السلام ایک طویل روایت میں اپنے ایک قریبی صحابی سے روز قیامت کے احوال بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں۔
وَ نَشْفَعُ لِمَنْ كَانَ مُرٙھّٙقًا
ہم اپنے گناہگار شیعوں کے لیے شفاعت کریں گے”- (تفسیر نور الثقلین ج ٣ ص ٢٠٨)
اس روایت سے یہ بات بھی ظاہر ہوجاتی ہے کہ اہلبیتؑ اطہار کو اختیار ہوگا کہ وہ اپنے گناہگار شیعوں کے لیے شفاعت کریں گے۔ خدا ہم سب کو اہلبیتؑ اطہار کی شفاعت نصیب کرے۔