اہل تسنّن کے عقیدہ کا ایک اہم رکن یہ ہے کہ وہ تمام صحابہ کو نیکوکار اور جنّتی مانتے ہیں. وہ اپنی اس بات کو ثابت کرنے کے لییے قرآ کی کچھ آیات سے بھی استدلال کرتے ہیں. حالانکہ یہ وہ آیات ہیں جو کچھ خاص افراد کی شان میں ہی نازل ہوئیں تھیں. مگر انہوں نے ان میں تمام اصحاب کو شامل کرلیا ہے. اسی طرح کچھ نااہل صحابہ کی تعریف میں اور ان کی فضیلت میں ان کے پاس جعلی احادیث کا بھی ایک انبار ہے. یہ سب احادیث بنی امیّہ کے زمانے میں بنائی گئی ہیں. بہرحال اہل تسنّن نے اس معاملہ میں دو بڑی غلطیاں کی ہیں- ایک یہ کہ انہواں نے ہر کس و ناکس کو صحابیّت کا جامہ پہنادیا ہے اور دوسرے یہ کہ ان تمام کو خطاءوں سے مبرّا کردیا ہے. جبکہ تاریخی حقیقت اس سے مختلف ہے۔ ان میں سے بعض افراد نے رسولؐ الله کی زندگی میں بلکہ آنحضرتؐ کی موجودگی میں غلطیاں اور سنگین جرم بھی کیے ہیں۔ مولا علیؑ کے دور خلافت میں مسلمانوں میں آپسی جنگیں ہوئیں جن میں ہزاروں کی تعداد میں مسلمان اور اصحاب رسولؐ قتل ہوئے۔ ان جنگوں کے متعلق اہل تسنّن کا موقف یہ ہے کہ -اس میں کوئ شک نہیں کہ خلیفہ وقت حضرت علیؑ ابن ابی طالبؑ حق پر تھے مگر اُن کے مخالفین کو بھی برا نہیں کہا جا سکتا۔ کیونکہ ان سے ‘خطاء اجتہادی’ سرزد ہوئ ہے۔ اتنا ہی نہیں بلکہ ان کو جو برا کہے یا ان پر لعن و طعن کرے وہ گنہگار ہے۔ کیوں؟کیونکہ ان تمام بزرگوں کو صحابیت کا شرف حاصل ہوا ہے۔ ان کا مان نا ہے کہ خلیفہ برحق کے خلاف بغاوت کرنا ایک گناہ کبیرہ ہے مگر یہی جرم اگر اصحاب رسولؐ کریں تو نہ صرف یہ کہ خدا ان کے اس جرم کو درگزر کرے گا بلکہ ان کو جنّت میں بھی داخل کرے گا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ جو ان جنگوں میں خلیفہ بر حق حضرت علیؑ کے ساتھ تھے وہ تو حق پر تھے ہی مگر جنہوں نے ان کا ساتھ نہیں دیا یا ان کے خلاف لڑے وہ سب بھی جنّتی ہیں۔
مناسب ہے کہ یہاں بطور نمونہ تفسیر قرطبی کی ایک عبارت نقل کر دی جائے۔
“لا یجوز ان ینسب الی أحد من الصحابۃ خطأ مقطوع بہ اذ کانوا کلھم اجتھدوا فیما فعلوہ وارادوا اللّٰہ عزوجل و ھم کلھم لنا ائمۃ و قد تعبدنا بالکف عما شجر بینھم ولا نذکرھم الا باحسن الذکر لحرمۃ الصحبۃ ولنھی النّبی ﷺ عن سبھم وان اللہ غفرلھم و اخبر بالرضاء عنھم ہذا مع ما قد ورد من الاخبار من طرق مختلفۃ عن النبی ﷺ ان طلحۃ شہید یمشی علی وجہ الارض فلو کان ماخرج الیہ من الحرب عصیانا لم یکن القتل فیہ شہیدا۔ و کذلک لوکان ماخرج الیہ خطأ فی التاویل و تقصیرا فی الواجب علیہ لان الشہادۃ لا تکون الا بقتل فی طاعۃ فوجب حمل امرھم علی ما بیناہ۔ ومما یدل علی ذلک ما قد صح و انتشر من اخبار علی بان قاتل الزبیر فی النار و قولہ سمعت رسول اللہ ﷺ یقول بشر قاتل ابن صفیۃ بالنار۔ واذا کان کذلک فقد ثبت ان طلحۃ والزبیر غیر عاصیین ولا آثمین بالقتال لان ذلک لوکان کذلک لم یقل النبی ﷺ فی طلحۃ شھید ولم یخبر ان قاتل الزبیر فی النار۔ و کذلک من قعد غیر مخطیٔ فی التاویل بل صواب اراھم اللہ الاجتھاد۔ واذا کان کذلک لم یوجب ذلک لعنھم والبراء ۃ منھم و تفسیقھم وابطال فضائلھم وجھاد ھم و عظیم غنائھم فی الدین رضی اللہ عنھم۔ وقد سئل بعضھم عن الدماء التی اریقت فیما بینھم فقال تلک امۃ قد خلت لھا ماکسبت ولکم ماکسبتم ولا تسألون عما کانوا یعملون۔ وسئل بعضھم عنھا ایضا فقال تلک دماء قد طھر اللہ منھا یدی فلا اخضب بھا لسانی یعنی فی التحرز من الوقوع فی خطأ والحکم علی بعضھم بما لا یکون مصیبا فیہ۔
وقد سئل الحسن البصری عن قتالھم فقال قتال شھدہ اصحاب محمد ص وغبنا و علموا وجھلنا واجتمعوا فاتبعنا واختلفوا فوقفنا”۔ (تفسیر القرطبی بحوالہ مقام صحابہ ص 92)
“کسی صحابی کی طرف قطعی (یعنی غیر اجتہادی) خطا کی نسبت کرنا جائز نہیں ہے کیونکہ انہوں نے جو کیا وہ انہوں نے اجتہاد سے کیا تھا اور اللہ عزوجل کی فرمانبرداری ان کی مراد تھی اور وہ سب ہمارے امام ہیں اور ہمیں حکم ہے کہ ان کے مابین جو جھگڑے پیش آئے ان میں ہم خاموش رہیں اور صحبت نبوی کے احترام کی وجہ سے اور اس بناء پر کہ نبی ﷺ نے ان کو برا کہنے سے منع کیا ہے اور اس بناء پر کہ اللہ تعالیٰ نے ان کو بخش دیا ہے اور ان سے اپنے راضی ہونے کی خبر دی ہے ان کا صرف ذکر خیر کریں۔ اس کے علاوہ مختلف طرق سے وارد ہے کہ نبی ﷺ نے ارشاد فرمایا طلحہ ایسے شہید ہیں جو روئے زمین پر چلتے ہیں۔ اگر ان کا لڑائی میں نکلنا نافرمانی اور عصیان کے سبب سے ہوتا تو لڑائی میں قتل سے وہ شہید نہ کہے جاتے۔ یہی بات اس وقت بھی ہوتی جب ان کا نکلنا تاویل باطل اور واجب میں تقصیر و کوتاہی کے سبب سے ہوتا کیونکہ شہادت تو اس وقت ہوتی ہے جب آدمی اللہ کی اطاعت میں قتل ہو۔ لہٰذا ان حضرات کے معاملہ کو اسی پر محمول کرنا چاہئے جو ہم نے ذکر کیا۔ اس کی تائید حضرت علی ص کے اس مشہور و معروف قول سے بھی ہوتی ہے کہ زبیر کا قاتل جہنمی ہے اور حضرت علی ص کی اس روایت سے بھی ہوتی ہے کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ ابن صفیہ (یعنی زبیر)کے قاتل کو جہنم کی بشارت دو۔ اور جب بات یوں ہے تو ثابت ہوا کہ حضرات زبیر اور طلحہ رضی اللہ عنہما لڑائی کرنے میں نافرمان اور گنہگار نہ تھے۔ کیونکہ اگر ایسا ہوتا تو نبی ﷺ حضرت طلحہ کے بارے میں یہ نہ فرماتے کہ وہ شہید ہیں اور حضرت زبیر ص کے بارے میں یوں نہ فرماتے کہ زبیر کا قاتل جہنمی ہے۔
اسی طرح وہ لوگ جو لڑائی میں شریک نہیں ہوئے انہوں نے تاویل میں خطا نہیں کی بلکہ درست بات تھی جو انہوں نے اجتہاد سے سمجھی اور اس بات سے ان پر لعن طعن کرنے کو یا ان سے تبرا کرنے کو یا ان کو فاسق قرار دینے کو واجب اور ان کے فضائل اور ان کے جہاد اور دین میں ان کے وافر حصے کو کالعدم قرار نہیں دیتی۔ بعض حضرات سے اس خونریزی کے بارے میں سوال کیا گیا جو صحابہ کے مابین ہوئی تو انہوں نے جواب دیا۔ تِلْکَ اُمَّۃُ قَدْ خَلَتْ لَھَا مَاکَسَبَتْ ولَکُمْ مَا کَسَبْتُمْ وَلَا تُسْئَلُوْنَ عَمَّا کَانُوْا یَعْمَلُوْنَ۔ وہ ایک جماعت تھی جو گزر چکی ان کے واسطے ہے جو انہوں نے کیا اور تمہارے واسطے ہے جو تم نے کیا اور تم سے کچھ پوچھ نہیں ان کے کاموں کی۔
اور بعض نے یہ جواب دیا کہ یہ وہ خونریزی ہے جس سے اللہ تعالیٰ نے میرے ہاتھ کو پاک رکھا تو میں اپنی زبان کو اس سے رنگین نہیں کروں گا۔ یعنی ان پر ناحق حکم نہیں لگائوں گا۔
حضرت حسن بصری رحمہ اللہ سے صحابہ کی باہم لڑائی کے بارے میں سوال کیا گیا تو انہوں نے فرمایا کہ یہ ایسی لڑائی تھی جس میں محمد ﷺ کے اصحاب موجود تھے اور ہم موجود نہ تھے، ان کو علم حاصل تھا اور ہمیں حاصل نہیں ہے، جس میں انہوں نے اتفاق کیا اس میں ہم نے ان کی پیروی کرتے ہیں اور جس میں ان کا اختلاف ہوا اس میں ہم توقف کرتے ہیں”۔
یہ واضح رہے کہ یہ اصطلاح ‘خطاء اجتہادی’ رسولؐ یا سلف کے دور میں نہیں تھی ورنہ اس کا ذکر قرآن و روایات میں یا تاریخ میں بھی ملتا۔ ورنہ ابوبکر کی خلافت کو عمر “فلتہ” نہ کہ کر “خطاء اجتہادی” کہتے۔ یہ سب بعد کے اہل تسنّن علماء کی ایجاد ہے۔ حیران کرنے والی بات یہ ہے کہ اس میں بھی وہ ہر صحابی کی خطاء کو ‘خطاء اجتہادی’ کا نام نہیں دیتے۔ تاریخ کا طالب علم یہ جاننا چاہتا ہے کہ- مالکؓ بن نوویرہ کا خلیفہ اوّل کو زکوة دینے سے انکار کرنے کو ان کی ‘خطاء اجتہادی’ کیوں نہیں کہی جا سکتی؟ مسلمانوں کا مل کر خلیفہ عثمان کے خلاف بغاوت کرنا’خطاء اجتہادی’ کیوں نہیں ہے؟اس میں مدینہ کے بڑے اور بارسوخ اصحاب کا عثمان کے قتل میں شامل ہونا ‘خطاء اجتہادی’ کیوں نہیں ہے؟ یہ صرف مولا علیؑ کے مخالفین کے لییے ہی کیوں استعمال ہوتا ہے۔
دوسرا اہم سوال یہ ہے کہ کیا اس طرح کے جرم کو ‘خطاء اجتہادی’ کہہ کر فراموش کیا جاسکتا ہے؟ اس طرح کا اجتہاد کرنے والا پہلا شخص ابلیس تھا جس نے واقعاً ‘خطاء اجتہادی’ کی تھی اور اپنی خلقت کی بنا پر خود کو جناب آدمؑ سے افضل سمجھا۔ قرآن کی آیتیں بتاتی ہیں کہ خدا نے اُس کی اِس ‘خطاءاجتہادی’ کی بنا پر اسے رجیم بنادیا۔ اس کے ساتھ کوئ مروت نہ کی گئ ۔اِس لیے جو حشر ابلیس کا ہوا ہے وہی حشر ان سب کا بھی ہوگا جنہوں نے اس طرح کی ‘خطاءاجتہادی’ کیا ہے۔
بخش هفتم: عزاداری در اہل سنت گریہ و اشک اهل سنت کے علماء کی نظر…
بخش پنجم: امام حسین کی عزاداری معصومین کی سیرعت میں الف:کربلا واقع ہونے سے بہت…
بخش چهارم: سنت نبوی میں امام حسین علیہ السلام کی عزاداری رسول اللہ صلی اللہ…
بخش سوم: مقام گریہ اور آنسو، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سیرت…
دوسرا حصہ: قرآن اور پیغمبروں کی نظر میں رونے اور آنسوؤں کی اہمیت 1 ـ…
مقدمہ: یہ بات واضح ہے کہ عزاداری اور خوشی منانا ایک فطری امر ہے جو…
View Comments
بسمہ تعالی وبذکر ولیہ
ماشاءاللہ مختضر تحریر مفید معلومات
جزاکم الله خیرا