خلافت اور بنی ہاشم

پڑوسی ملک کے ایک اہل سنت محقق اس بات کا دعویٰ کرتے ہیں کہ وہ اہلبیتؑ کا دفاع کرتے ہیں۔ اپنے آپ کو وہ تعصبی نہیں بلکہ ‘کتابی مسلمان’ بتاتے ہیں اور وہ میرزا انجینیئر کے نام سے معروف ہیں۔
میرزا انجینیر صاحب کا ایک بیان، جو کہ یوٹیوب پر موجود ہے، میں انھوں نے حدیث غدیر پر تبصرہ کرتے ہوۓ اپنے سننے والوں کو یہ بتانے کی کوشش کی ہے کہ حدیث غدیر سے رسولؐ اکرم کا منشا حضرت علیؑ کی جانشینی کا اعلان کرنے کا ہرگز نہیں تھا۔ بقول انجینیئر صاحب ، رسول الله (ص) نہیں چاہتے تھے کہ اسلام میں خاندان پرستی شروع ہوجائے اس لیے آنحضرت (ص) نے کبھی بھی حضرت علیؑ کی خلافت کا اعلان نہیں کیا۔

جواب: یہ کہنا کہ ‘رسول اسلام (ص) نہیں چاہتے تھے کہ خلافت و نبوت دونوں بنی ہاشم میں جمع ہو’ ایک جھوٹ ہے۔ اس لیے کہ ایسی کوئی روایت کتب احادیث میں موجود نہیں ہے۔ یہ صرف انجینیئر صاحب کا خیال ہے۔ اگر ایسا ہوتا تو خلیفہ دوم حضرت علیؑ کو شوریٰ کا رکن نہ منتخب کرتے۔ اس لیے کہ اہل شوریٰ ہی میں سے ایک کو مسلمانوں کا تیسرا خلیفہ ہونا تھا۔
اگر انجینیئر صاحب کی بات صحیح ہوتی تو ان تمام لوگوں میں سے جنھوں نے حضرت علیؑ کی حکومت کے خلاف بغاوت کی وہ اس بات کو پیش کرتے۔ کم از کم مسلمانوں کی ماں ، جن کو وہ سب سےبڑی فقیہا مانتے ہیں، حضرت علیؑ کی خلافت پر اعتراض کرتیں اور رسولؐ اسلام کی بیوی ہونے کے لحاظ سے حضرت علیؑ کے انتخاب کی مخالفت کرتیں۔ مگر اس وقت حکومت کے مخالفین نے ‘قتل عثمان کے انتقام’ کا سہارا لیا اور امیرالمومنینؑ کی حکومت کے خلاف بغاوت کی۔ بنی ہاشم کے کھلے دشمن بنی امیہ نے بھی کبھی ایسی بات نہیں کی۔ یقینًا جنگ صفین میں معاویہ اور اس کے حامی رسولؐ کے اس قول کو حضرت علیؑ کے خلاف بطور دلیل ضرور پیش کرتے۔
حقیقت تو یہ ہے کہ دعوت ذوالعشیرہ سے لے کر میدان خم تک سرور کائنات (ص) نے کئ بار اپنے بھائ کی وصایت اور جانشینی کا اعلان فرمایا ہے۔ اس کے برعکس، ایسی بے شمار روایات سنّی اور شیعہ کتابوں میں موجود ہیں جن میں حضرت علیؑ کی بلا فصل خلافت کا اعلان ہوا ہے۔
در اصل انجینیئر صاحب کی یہ بات ایک باطل توجیہ ہے جو غاصبان خلافت نے اپنی خلافت کے لیے پیش کی ہے۔
جسےتاریخ نے یوں بیان کیا ہے: خلیفہ دوم نے اہلبيتؑ کو خلافت کے مقام و منصب سے محروم رکھنے کی علت بیان کرتے ہوے ابن‌ عباس سے کہا : قریش اس چیز کو پسند نہیں کرتے تھے کہ خلافت و نبوت ایک ہی جگہ جمع ہو۔’ (يكرهون أن تجتمع فيكم النبوّة والخلافة-)

(’إن قومكم يعني قريشا ما أرادوا أن يجمعوا لكم يعني بني هاشم بين النبوة و الخلافة: تاريخ ابن خلدون [3 /214])

اس پر ابن عباس نے جواب میں کہا: اگر قریش اس چیز کو اختیار کرتے جس کو خدا نے اختیار کیا ہے تو اس صورت میں وہ لوگ حق پر ہی ہوتے ۔۔۔ لیکن تمہارا یہ کہنا کہ قریش اس چیز کو پسند نہیں کرتے تھے کہ نبوت اور خلافت دونوں ہمارے یہاں رہیں :تو خدا نے ایسی ہی ایک قوم کی صفت بیان کرتے ہوے فرمایا ہے :
:’’یہ اس لئے کہ انھوں نےخدا کےنازل کئے ہوئے احکام کو برا سمجھا تو خدا نے بھی ان کے اعمال کو ضائع کر دیا[محمد: 9] اس کے بعد خلیفہ دوم نے کہا: میں نے سنا ہے کہ تم کہتے ہو: خلافت کو لوگوں نے بنی ہاشم سے ظلم اور حسد کرتے ہوئے چھین لیا ہے؟
ابن عباس نے جواب میں کہا: جہاں تک ظلم کی بات ہے تو اس حقیقت سے سب واقف ہیں ،حسد کی جو بات کی تو شیطان نے جناب آدمؑ کے ساتھ حسد کیا تھا۔ ہم بھی انھیں کی اولاد ہیں اور ہمارے ساتھ بھی حسد کیا گیا ہے ۔
اہل تسنّن حوالے: • تاريخ الطبري ،ج3 ص 289-
• الكامل في التاريخ ،ج2 ص 458
• شرح نهج البلاغة ابن ابي الحديد ،ج1 ص5853 –
•شبلي نعماني، الفاروق ،ص 199۔

اس روایت سے یہ پتہ چل جاتا ہے کہ الله اور اس کا رسولؐ تو چاہتے تھے کہ نبوت کی طرح خلافت بھی محمد و آل محمد کے درمیان رہے مگر قریش نے ایسا ہونے نہیں دیا۔ بلکہ اس جرم میں انصار مدینہ بھی شامل ہیں. اگر آنحضرتؐ کی وفات کے فورًا بعد انصارِ مدینہ سقیفہ برپا نہ کرتے تو شائد آج خلافت سقیفائی نہ ہوتی۔
حقیقت یہ ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم، جو بغیر وحی کے کلام نہیں فرماتے تھے، نے حکم خدا سے مقام غدیر خم میں اعلان ولایت علی علیہ السلام فرمایا جس پر قرآن کی آیتیں اور متواتر روایات گواہ ہیں۔

Short URL : https://saqlain.org/so/rjyy