اہل تسنّن کے اکابر علماء کا یہ عقیدہ ہے کہ رسول الله صلی الله علیہ وآلہ وسلم نے اپنی زندگی میں کسی کو خلیفہ منتخب نہیں کیا تھا۔ آپؐ نے اپنے لیے امیر کے انتخاب کی ذمہ داری امّت پر چھوڑ دی تھی۔ وہ اس بات کا اعتراف بھی کرتے ہیں کہ خلیفہ اوّل ابوبکر کے لیے بھی رسولؐ اللہ نے کوئ نص نہیں جاری کی تھی۔ کتاب البدایة والنھایة جلد5 صفحہ 450 پر اسماعیل بن عمر بن کثیر ابوالدفاء نقل کرتے ہیں۔
یقینًا رسول اللهؐ نے کسی کی خلافت کے لیے نص نہیں جاری کی تھی (حتیٰ کہ) ابوبکر کے لیے بھی نہیں، جیسا کہ اہل سنّت میں ایک گروہ کا گمان ہے…” اس طرح یہ کہنا غلط اور جھوٹ ہے کہ ابوبکر کی خلافت کے لیے الله یا رسولؐ سے کوئ نص حاصل ہے-
مگر اہل تسنّن ابوبکر کی خلافت کے لیے قرآنی آیات کو بطورِ دلیل پیش کرتے ہیں۔ اس سلسلے میں ہم ان دلائل پر گفتگو کریں گے اور ان کی حقیقت کو سمجھنے کی کوشش کریں گے۔ کیا واقعًا یہ ابوبکر کی خلافت کی طرف اشارہ ہے یا کوئ اور بات ہے۔
اہل تسنّن کی پہلی دلیل :-
اہل تسنّن ابوبکر کی خلافت کے لیے جودلائل پیش کرتے ہیں ان میں ایک دلیل سورہ توبہ کی یہ آیت ہے:
اس آیت میں ابوبکر کے لیے لفظ
استعمال ہوا ہے۔ اس طرح یہ آیت ابوبکر کو رسولؐ الله کا صحابی بتا رہی ہے۔ اہل تسنّن کا یہ دعویٰ ہے کہ یہی بات ابوبکر کی افضلیت کے لیے کافی ہے۔ کیوں کہ قرآن نے کسی اور فرد کو رسولؐ کا صحابی نہیں کہا ہے۔ یہ شرف صرف ابوبکر کے لیے ہی ہے۔ وہ اس آیت کی بنیاد پر ابوبکر کو رسولؐ اللہ کا “یارِ غار” ہونےکا ڈھنڈھورا پیٹتے پھرتے ہیں اور اس بنا پر ابوبکر کو خلافت کا سب سے زیادہ اہل مانتے ہیں۔
ہمارا اعتراض:-
اس بات میں کوئ دو راے نہیں کہ یہ آیت ابوبکر کے غار میں موجود ہونے کے بارے میں ہے۔ یہ بھی درست ہے کہ ابوبکر کو ہی اس آیت میں رسول کا صحابی کہا گیا ہے۔ مگر کیا قرآن کی نظر میں ‘صحابی’ ہونا فضیلت کی بات ہے؟ کیا کسی کا صحابی ہونا قرآن میں کسی کے مرتبے یا منزلت کو ظاہر کرتا ہے؟؟ کیا صحابی ہونے کی بناپر ابوبکر خلافت کے مستحق بنتے ہیں؟
اگر قرآن کی آیات کا جائزہ لیا جاے تو ہم پاتے ہیں کہ یہ لفظ “صحابی” متعدد مقامات پر استعمال ہوا ہے۔ اور ہر جگہ یہ لفظ صرف “ساتھی یا ہمراہی”ہونے کو ہی ظاہر کرتا ہے۔ مثال کے طور پر سورہ یوسف میں جناب یوسف کی داستان میں یہ جملہ ملتا ہے جو آپؑ نے قید خانے میں اپنے ساتھی مشرکین کو توحید کی دعوت دیتے وقت ادا کیا تھا:
اے میرے قیدخانے کے ساتھی کیا متفرق خدا (کی عبادت) زیادہ بہتر ہے یا الله واحد قہّار (کی عبادت) زیادہ بہتر ہے؟
اس آیت میں لفظ “صحابی” مشرک کے لیے استعمال کیا گیا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ صرف رسول کی صحابیت سے کوئ فضیلت ظاہر نہیں ہوتی۔ یہ لفظ صرف ہم نشینی کو ظاہر کرتا ہے۔
اسی طرح سورہ کہف کی یہ آیت بھی اس بات کی طرف اشارہ کرتی ہے۔
اُن کے ساتھی نے اُن سے کہا” کیا تم اس خالق کا انکار کروگے، جس نے تم کو مٹّی سے خلق کیا پھر نطفہ بنایا اور پھر تمھیں ایک انسان کی صورت عطا کی؟؟”
اس آیت میں ایک مومن کا اپنے ساتھی کافر کو نصیحت کرنے کا ذکر ہے۔ اس آیت میں کافر کو مومن کا “صحابی” بتایا گیا ہے۔
اتنا ہی نہیں بلکہ مشرکینِ مکّہ کو بھی قرآن نےحضرت رسول خدا صلی الله علیہ وآلہ کا صحابی بتایا ہے۔ سورہ نجم کی یہ آیت اس کی دلیل ہے۔
قرآن مشرکین سے خطاب کرتے ہوۓ کہتا ہے ” تمھارا صاحب(ساتھی یعنی رسولؐ الله) نہ گمراہ ہوا ہے نہ باغی ہوا ہے۔ اسی طرح سورہ تکویر کی آیت میں بھی الله مشرکین سے خطاب کرتے ہوۓ فرمارہا ہے۔
تمھارا صاحب(ساتھی یعنی رسولؐ الله) دیوانہ(نعوذ باللہ) نہیں ہے۔
ان آیات سے واضح ہوجاتا ہے کہ قرآن میں لفظِ ‘صحابی’ صرف ساتھی یا ہم نشین کے معنی میں استعمال ہوا ہے۔
دوسرے یہ کہ رسولؐ کا صرف صحابی ہونا کوئ فضیلت کی بات نہیں ہےکیونکہ قرآن کی نظر میں رسول کا ساتھی اگرچہ مشرک بھی ہے تو بھی قرآن اسے صحابی کہتا ہے۔
تیسرے یہ کہ مشرکینِ مکّہ جو آنحضرت صلی الله علیہ وآلہ وسلم کے سخت مخالف تھے اور ان کی جان کے دشمن تھے، قرآن ان کے لیے بھی لفظِ “صاحبکم” (تمھارا ساتھی) استعمال کرتا ہے اس لیے صحابیت کو معیار فضیلت سمجھنا غلط ہے۔
چوتھے- تاریخ بتاتی ہے کہ ہجرت کی شب رسولِ اکرم صلی الله علیہ وآلہ نے ابوبکر کو نہ خود بلایا تھا اور نہ ہی اُس سفر میں اُن کو اپنے ہمراہ لیا تھا بلکہ ابوبکر نے ہی آنحضرتؐ کا ساتھ پکڑا تھا۔ اس لیے ابوبکر کا اس سفر میں ساتھ ہونا اور غار میں پہنچنا ایک اتّفاق تھا جس میں رسولؐ الله کی ذاتی مرضی قطعی نہ تھی۔ اگر رسول الله صلی الله علیہ وآلہ وسلم ابوبکر کو خود اپنے ساتھ لے جاتے تو شائد یہ ابوبکر کی فضیلت کہی جا سکتی تھی۔
آخری بات یہ کہ اگر یہ صحابیت “غار کے ساتھی” کی فضیلت ہے اور اسی وجہ سے ابوبکر کا خلافت پر حق بنتا ہے تو پھر عمر نے اس انتخاب کو “فلتہ” (ہڑبڑاہٹ میں کی گئ غلطی) کیوں کہا ہے؟