اہلسنت کے پیروکار بیشتر معاملات میں شیعوں سے اختلاف رکھتے ہیں۔ ان اختلافات کی بنیاد یہ ہے کہ شیعوں نے رسول الله صلی الله علیہ وآلہ وسلم کے بعد خود انھیں کے فرمان کے مطابق حضرت علیؑ علیہ السلام کو رسولؐ کا بلافصل خلیفہ مانا ہے جبکہ سقیفائی خلافت کے ماننے والے حضرت علیؑ کو چوتھا خلیفہ مانتے ہیں۔ شیعوں کے نزدیک اعلان غدیر کی بنا پر رسولؐ اسلام کی خلافت کا حق مولا علیؑ کا تھا ، جس کو پہلے تین خلفاء نے ناحق غصب کرلیا۔ یہی سبب ہے کہ شیعہ ان خلفاء کی خلافت کا انکار کرتے چلے آتے ہیں اور حضرت علیؑ کو پہلا امام اور بلافصل جانشینِ رسول مانتے ہیں۔ اسی بناپر اہل تسنّن شیعوں کو ‘رافضی’ کہتے ہیں۔ ‘رافضی’ اس شخص کو کہتے ہیں جس نے اپنے امام کو چھوڑ دیا ہو اور اس کی امامت سے منحرف ہوگیا ہو۔ اہل تسنّن کا ماننا ہے چونکہ شیعوں نے شیخین کی خلافت کا انکار کر دیا ہے اور یہ لوگ ان کی خلافت کو تسلیم نہیں کرتے ، اس لیے وہ رافضی ہیں۔
ان کے اکابر حقیقت میں رافضی کسے بتاتے ہیں ، وہ کچھ اور ہے ، بطور نمونہ یہاں پر ہم دو معروف سنّی عالموں کا بیان پیش کر رہے ہیں۔
• اہل تسنّن عالم ذہبی (متوفی 748ھ) کا قول ہے : وَمَنْ أَبغضَ الشَّيْخَيْنِ وَاعتقدَ صِحَّةَ إِمَامَتِهِمَا فَهُوَ رَافضيٌّ مَقِيتٌ، وَمَنْ سَبَّهُمَا وَاعتقدَ أَنَّهُمَا لَيْسَا بِإِمَامَيْ هُدَى فَهُوَ مِنْ غُلاَةِ الرَّافِضَةِ ۔
ترجمہ : جو شخص شیخین (ابوبکر و عمر) سے بُغض رکھے اور ان کی امامت کو صحیح بھی سمجھے تو یہ شخص رافضی اور قابل نفرت ہے اور جو شخص انھیں (ابوبکر و عمر) خلیفہ برحق بھی نہ سمجھے اور بُرا کہے تو یہ شخص غالی رافضیوں میں سے ہے ۔ (سیر اعلام النبلاء: 16/458)
• حافظ ابن حجر عسقلانی (متوفی 852ھ) کا ماننا ہے : فمن قدمه على أبي بكر وعمر فهو غال في تشيعه ويطلق عليه رافضي ۔
ترجمہ : جو شخص علیؑ کو ابوبکر و عمر پر (افضلیت میں) مقدم کردے تو وہ شخص غالی شیعہ ہے اور اس پر رافضی کا لفظ استعمال ہوتا ہے ۔ (ہدی الساری مقدمہ فتح الباری ص 459)
ان دونوں اقوال سے واضح ہوجاتا ہے کہ صرف شیعہ ہی نہیں بلکہ خاتم الانبیاء رسول الله صلی الله علیہ و آلہ وسلم اور ان کی بیٹی خاتون جنت جناب فاطمہ صلوات اللہ علیھا بھی ‘رافضی’ ہیں کیونکہ ان دونوں ہستیوں نے بھی حضرت علیؑ پر کسی کو بھی فضیلت نہیں دی ہے۔ رسولِ اکرم (ص) کی حیات طیبہ میں بہت سے واقعات ملتے ہیں ، جہاں پر سرور عالم (ص) نے ابوبکر و عمر کیا کسی کو بھی مولا علیؑ پر مقدم نہیں کیا ہے۔ مثلاً مسجد نبویؐ کا سد ابواب کرنا، مکہ والوں کے لیے سورہ براءت کی تبلیغ کرنا، مباہلہ میں حضرت علیؑ کو اپنا نفس بنانا، مدینہ میں علیؑ کو اپنا بھائ بنانا، وغیرہ۔ جناب سیدہ سلام الله علیھا نے تو باقاعدہ ابوبکر کی خلافت کا انکار کیا اور شیخین سے مرتے دم تک ناراض رہیں۔ یہ حقائق اتنے عام اور مشہور ہیں کہ ان کے لیے حوالے دینے کی بھی ضرورت نہیں ہے۔ اور اگر قرآن کی آیتوں کی شان نزول کا جائزہ لیا جائے تو اللہ کو بھی ‘رافضی’ کہا جائے گا۔