اہل تسنّن کے یہاں یہ روایت بہت مشہور ہے کہ آنحضرتؐ نے فرمایا:”میرے اصحاب ستاروں کی طرح ہیں ان میں سے جس کی چاہو اتباع کرو ہدایت پا جاؤگے۔” اس روایت کو لے کر مسلمانوں کے درمیان صحابہ کی حیثیت کے بارے میں کافی بحث و مباحثہ کیا گیا ہے۔ چونکہ اس روایت کی بنا پر صحابہ میں سے کسی ایک کا اتباع کرنا ہدایت کا باعث ہے، بعض لوگ ان کے معصوم ہونے کا دعویٰ بھی کر ڈالتے ہیں۔
آخر یہ دعویٰ کس حد تک درست ہے؟ کیا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اس روایت کی کوئی مختلف تفسیر ہے جسے مسلمانوں کی اکثریت نے نظر انداز کردیا ہے۔
درج ذیل مکالمۂ میں نبی (ص) کے صحابہ کی ستاروں سے تعبیر کے مقام کو واضح کیا گیا ہے جس سے ہم پر ظاہر ہوجاتا ہے کہ یقینی طور پر کون حضرات صحابہ کہلانےکے اہل ہیں۔
راوی نے امام علی رضا (علیہ السلام) سے سوال کیا کہ رسول اسلام(ص) کی اس حدیث کا کیا مطلب ہے؟
’’میرے صحابہ ستاروں کی مانند ہیں۔ جس کسی کی بھی تم پیروی کرو گے ہدایت پا جاؤگے۔‘‘
راوی نے مزید امام علیہ السلام سے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کی مندرجہ ذیل حدیث کے بارے میں بھی دریافت کیا۔
’’میرے صحابہ کو میرے لیے چھوڑ دو۔‘‘
امام (ع) نے جواب دیا: “ان روایات میں اصحاب سے مراد وہ لوگ ہیں جنہوں نے پیغمبر کے بعد (اہل بیت کو چھوڑ کر) اپنے آپ کو تبدیل نہیں کیا اور دین میں کسی طرح کی اختراع نہیں کی۔”
راوی نے دریافت کیا : ‘ہم یہ نتیجہ کیونکر نکال سکتے ہیں کہ اکثر صحابہ رسول اللہ (ص) کے بعد بدل گئے یا پھر دین میں بدعت کی جیسے کہ آپ کہتے ہیں؟”
امام علیہ السلام نے فرمایا: “کیونکہ رسول اللہ (ص) نے خود فرمایا ہے: “میرے بعض اصحاب کو قیامت کے دن میرے حوض کے قریب آنے سے منع کردیا جائے گا، بالکل اس طرح جیسے لوگ دوسروں کے اونٹوں کو پانی پینے سے دور دھکیل دیتے ہیں۔ اس وقت میں کہوں گا: ‘اے رب! وہ میرے صحابہ میں سے ہیں! میرے صحابہ !’
اس وقت مجھ سے کہا جائے گا: ‘کیا تم نہیں جانتے کہ انہوں نے تمہارے بعد کیا کیا؟’
پھرانہیں پکڑ کرمجھ سے دور لے جایا جائے گا۔ اور ان سے کہا جائے گا: ‘یہ ان جھوٹے بہتانوں کی وجہ سے ہے جو تم نے (نبی پر) باندھا تھا۔ ‘
امام علیہ السلام مزید فرماتے ہیں :’کیا یہ وہ نہیں ہیں جنہوں نے (پیغمبر کے بعد اپنے عقائد کو) تبدیل کیا اور دین میں اختراع کیا؟’
عیون الاخبار ج 2 ص 87 روایت 33
بحار الانوار ج 28 ص 19
واضح طور پر نبی (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کی حدیث مبارک میں ستاروں سے موازنہ والے صحابہ وہ نہیں ہیں جنہوں نے رسول اسلام (ص) کی شہادت کے بعد تکبر کے ساتھ دوسروں پر اپنی برتری قائم کرنے کے لیے صحبت نبی کا دعویٰ کیا۔
اس لیے کہ ان اصحاب نے رسولؐ کے بعد اہل بیت (ع) کے دامن کو چھوڑ دیا اور اپنے دین سے پھر گئے۔ انہوں نے بدعتوں کے ذریعے مذہبی قوانین میں تبدیلیاں کیں۔
اگر مسلمان ان اصحاب کو ہدایت کی طرف لے جانے والے ستارے کی طرح مانیں تو بے شک وہ دین میں شکوک وابہام کے شکار ہو جائیں گے۔
مشہور شیعہ عالم دین رازی الدین حافظ رجب ابن محمد ابن رجب البرسی ہلی (رح) لکھتے ہیں:
یقیناً صحابہ کرام سے مراد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے صرف آپ کے اہل بیت (ع) ہیں۔ ورنہ مذہب میں تضاد ہو گا اوریہ کیونکر ممکن ہے کہ گمراہ شدہ حضرات، جو سیاہ چہروں کے ساتھ حوض پر پہنچیں گے، کبھی ستاروں کی مانند ہو سکتے ہوں اور مسلمان ان سے ہدایت حاصل کریں؟!
یقیناً آنحضرت (ص) نے اعلان کیاہے کہ
‘اس امت میں میرے اہل بیت کی مثال آسمان کے ستاروں کی طرح ہے، جب ایک اوجھل ہو جائے گا تو دوسرا طلوع ہو گا اور یہ سلسلہ قیامت تک جاری رہے گا۔’
(الکافی ج1 ص 338)
صحیح البخاری کتاب 81، روایت 170-174
المشرق ص 321
پس اہلبیت اطہار ہی وہ اصحاب ہیں جن کا موازنہ ستاروں سے کیا گیا ہے جو رسول اعظم (ص)کے بعد ان کی امت کی رہنمائی کریں گے۔
اس طرح کی متعدد حدیثین موجود ہیں جو صحابہ کے اس گروہ کی واضح طور پر نشاندہی کرتی ہیں جو قوم میں ستاروں کی مانند ہیں اورمسلمانوں کی ہدایت کرتےہیں۔
حضور اکرم (ص) نے ارشاد فرمایا: “تم میں میرے اصحاب کی مثال ستاروں جیسی ہے۔ جو بھی انہیں قبول کرے گا وہ ہدایت پاۓگا۔”
آپ (ص) سے پوچھا گیا: “آپ کے اصحاب کون ہیں؟”
آنحضرتؐ : میرے اہل بیت (علیہ السلام) ۔
اثبات الہدات ج 2 ص 189
معنی الاخبار ص 156-157
بصیر الدراجات ج1 ص 11
بحار الانوار ج 22 ص 307
یہ بات اس لیے بھی معقول ہے کیونکہ اہل بیت (ع) معصوم ہیں جیسا کہ سورہ احزاب (33: 33) میں اعلان کیا گیا ہے۔ لہذا صرف وہی اہل ہیں کہ مسلمانوں کو تاریکیوں سے نور کی طرف رہنمائ کریں (اک درخشاں ستارے کی طرح)۔ اپنی عصمت سے صرف وہی مسلمانوں کو ہدایت، حکمت، روشنی، رحمت اور الٰہی فضل کا یقین دلا سکتے ہیں