سنّی مسلک اور قاتلان امام حسینؑ:
سنّی علماء اکثر بیشتر اس بات کا دعویٰ کرتے نظر آتے ہیں کہ وہ اہلبیتؑ سے محبت کرتے ہیں ، مگر ان کا یہ دعویٰ صرف ایک جملہ ہے ، جو حقیقت سے بہت دور ہے۔ سنی علماء نہ اہلبیتؑ کے فرامین کو اہمیت دیتے ہیں اور نہ ہی اہلبیتؑ کا اتباع کرتے۔ بلکہ اس کے ہر خلاف وہ اہلبیتؑ پر ہر کس و ناکس کو ترجیح دیتےنظر آتے ہیں۔ اس کی ایک دلیل یہ ہے کہ نہ ان کی فقہہ اہلبیتؑ کی فقہہ ہے، نہ ہی ان کا کوئی اصول اہلبیتؑ سے ماخوذ ہے- انھوں نے نہ تو توحید اہلبیتؑ سے لی ہے اور نہ ہی امامت و خلافت میں اہلبیتؑ کی پیروی کی ہے۔ حتیٰ کہ جب اہلبیتؑ کے افراد میں سے امیرالمومنینؑ اور امام حسن علیھما السلام نے حکومت میں مسلمانوں کی قیادت کی تب بھی مسلمانوں کی اکثریت نے امیرالمومنینؑ کو چھوڑ کر ان کے مخالفین کا ساتھ دیا اور اہل جمل و صفین کو وہ آج بھی ‘رضی اللہ’ کہتے ہیں جبکہ حضور اکرم(ﷺوآلہ) کا واضح فرمان ہے: ‘سلم لمن سالمھم و حرب لمن حاربھم’ اہلبیتؑ سے جنگ خود رسول الله (ص) سے جنگ ہے۔ حد تو یہ ہے کہ قاتلان امام حسینؑ تک کو ان کے علماء ‘ثقہ’ اور قابل اعتماد راوی سمجھتے ہیں کہ جن سے دین لیا جاسکتا ہے جبکہ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ ان قاتلوں کو کافر اور مرتد شمار کیا جائے۔ تعجب تو یہ ہے کہ عمر بن سعد (لعنت اللہ علیہ) جو کربلا میں یزیدی لشکر کا کمانڈر تھا اور قاتلانِ امام حسینؑ میں جس کا نام سرِ فہرست ہے، اس کے بارے میں بھی سنی علماء اچھی رائے رکھتے ہیں۔ ملاحظہ فرمائیں:
اہل تسنّن کے بزرگ عالم امام حافظ شمس الدین محمد بن احمد ذھبی اپنی رجال کی کتاب ‘میزان الاعتدال’ میں عمر بن سعد لعنت اللہ علیہ کے بارے میں لکھتے ہیں کہ ‘ھو فی نفسہ غیر متھم۔ ولکن باشر قتال الحسینؑ…’یعنی عمر بن سعد کے بارے میں کوئی اشکال نہیں ہے (یعنی ایک سچّا اور معتبر راوی ہے) لیکن اس نے (امام) حسینؑ سے جنگ کی تھی….
(میزان الاعتدال ج ۵ ص ٢٣٨)
اسی طرح اپنی کتاب سير أعلام النبلاء میں ذھبی اس طرح لکھتے ہیں:
أَمِيْرُ السَّرِيَةِ الَّذِيْنَ قَاتَلُوا الحُسَيْنَ -رَضِيَ اللهُ عَنْهُ- ثُمَّ قَتَلَهُ المُخْتَارُ، وَكَانَ ذَا شَجَاعَةٍ وَإِقْدَامٍ
عمر بن سعد اس لشکر کا سردار تھا جس نے امام حسینؑ سے جنگ کی تھی پھر اسے مختار نے قتل کردیا۔ وہ ایک دلیر اور شجاع شخص تھا۔
(سير أعلام النبلاء ج ۴ص ٣۵٠)
ان جملوں سے خود ذھبی کی ناصبیت ظاہر ہوجاتی ہے۔ کیا امام حسینؑ کے مختصر سے گروہ کے سامنے ہزاروں کا لشکر جمع کرنا دلیری ہے؟ پھر آل رسولؑ پر پانی بند کردینا اور اس بھوکے اور پیاسے لشکر سے جنگ کرنا دلیری ہے؟ اس قتل و غارت گری کے بعد اہل حرم کے خیام کو جلانا دلیری ہے؟رسول زادیوں کو قیدی بنانا اور ان کے بچوں پر ظلم کرنا بہادری اور دلیری ہے؟؟؟ اتنے سنگین جرائم انجام دینے کے بعد بھی ذھبی کہتے ہیں وہ ‘غیر متھم’ ہے۔
صرف عمر بن سعد ہی نہیں ، ان کی کتابوں میں دوسرے معروف قاتلان امام حسینؑ کے بارے میں بھی اسی طرح کی بات کہی گئ ہے۔ اور اس پر لطف کی بات تو یہ ہے کہ وہ شیعوں پر الزام لگاتے ہیں کہ انھوں نے امام حسینؑ کو دھوکا دیا اور ان کو شہید کیا۔ اگر ان کا الزام سچ ہوتا تب بھی کیا وہ ہمارے ساتھ مل کر تمام قاتلان امام حسینؑ اور اہلبیتؑ کے دشمنوں پر لعنت کرنے کو تیار ہیں؟