Janabe Zahra

سیدہء عالم کے مصائب اور ائمہء معصومین

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شہادت کو بمشکل دو روز گزرے ہوں گے کہ آپؐ کی پارہء جگر کے در پر مدینے کے اکابر کا ایک ہجوم نظر آیا۔ یہ لوگ دخترِ رسولؐ کو ان کے والد کی وفات کی تعزیت پیش کرنے نہیں بلکہ خلیفہ کے لیے بیعت طلب کرنے آے تھے(اہل تسنن کتاب- انساب الاشراف جلد ١ صفحہ ۵٨٦)۔ یہ لوگ جن کا شمار ‘چنندہ اصحاب پیمبر’ میں کیا جاتا ہے، اس بات سے بخوبی واقف تھے کہ سرورِؐ کائنات اپنی بیٹی سے کس قدر محبت کرتے تھے اور ان کا کتنا احترام کیا کرتے تھے مگر دنیا پرستی اور خلافت کی لالچ نے ان لوگوں کو اس قدر اندھا کردیا تھا کہ انھوں نے خانہء علیؑ و فاطمہؑ کو آگ لگا دی اور جگر گوشئہ رسولؐ کو اس طرح زخمی کیا کہ آپؑ کا حمل ساقط ہوگیا۔(اہل تسنن کتاب- الوافی باالوفیات) نتیجتًا کچھ ہی روز بعد شدید تکالیف برداشت کرنے کے بعدآپ کی شہادت واقع ہوگئ۔
رسولؐ کی بیٹی کو اس قدر ایذا دی گئ کہ خود بنت رسولؐ کو یہ مرثیہ پڑھنا پڑا:
صبت علی مصائب لو انھا
صبت علی الایام صرن لیالیا
“اے بابا ! آپ کے بعد مجھ پر اتنے مصائب پڑے کہ اگر یہ مصائب دنوں پر پڑتے تو وہ رات میں تبدیل ہوجاتے۔”

چنانچہ ائمہء اہلبیت علیہم السلام جناب زہراء (سلام اللہ علیہا) کی ان مصیبتوں کو جب بھی یاد کرتے تو ان کی آنکھوں سے آنسو جاری ہوجاتے تھے۔ ان حضرات کے لیے دختر رسولؐ کے مصائب روز عاشورہ کے مصائب سے کم نہ تھے۔ کتاب ‘ہدایت الکبری’ میں امام جعفر صادق علیہ السلام سے منقول ہے کہ “ہمارے لیے روز عاشور سے زیادہ مصیبت والا کوئ دن نہیں ہے سوائے روز سقیفہ کےکہ جس روز بیت علیؑ و فاطمہؑ پر حملہ ہوا…”(ہدایت الکبری:۴١٧)

کتاب ‘دلائل الامامہ’ میں زکریا بن آدم نقل کرتے ہیں کہ میں امام علی رضا علیہ السلام کی خدمت میں موجود تھا کہ آپ کے غلام آپ کے فرزند امام محمد تقی علیہ السلام کو وہاں لے آے۔ اس وقت ان کی عمر چار سال تھی۔ جب اپنے والد کے پاس پہنچے تو زمین پر ہاتھ رکھا اور آسمان کی طرف دیکھ کر کافی دیر تک سوچتےرہے-

امام علی رضا (علیہ السلام) نے اپنے نور نظر سے پوچھا: میری جان تم پر قربان (اے میرے لال) کس فکر میں ڈوب گئےہو؟ امام محمد تقی علیہ السلام نے فرمایا: “میں ان مصائب کے بارے میں سوچ رہا ہوں جو میری دادی فاطمہ (سلام اللہ علیہا) پر ڈهائے گئے۔ خدا کی قسم میں ان دونوں کو قبر سے نکال کر ان کے جسموں کو آگ لگا دوں گا۔ پھر ان کی راکھ کو سمندر میں بہا دوں گا”
امام علی رضا علیہ السلام نے اپنے بیٹے کو قریب کیا اور دونوں آنکھوں کے درمیان چوم کرفرمایا:
“میرے ماں باپ تم پر قربان اس امر (امامت) کے تم مستحق ہو”
(بیت الاحزان ١٨٠)

امام جعفر صادق علیہ السلام کے ایک صحابی سکونی، کو خدا نے بیٹی عطا فرمائ۔ سکونی جب امام کی خدمت میں حاضر ہوئے تو امامؑ نے دوران گفتگو پوچھا کہ “تم نے اپنی بیٹی کا کیا نام رکھا ہے؟”۔ سکونی نے عرض کی: “میں نے اپنی بیٹی کا نام ‘فاطمہ’ رکھا ہے۔” یہ سنتے ہی امامؑ ملول ہوگئے اور اپنی پیشانی پر ہاتھ رکھ لیا۔ آپؑ نے پھر سکونی سے نصیحت کرتے ہوئے فرمایا:” أما إذا سميتها فاطمة فلا تسبها ولا تلعنها ولا تضربها.”
“جب تم نے اس بچی کا نام ‘فاطمہ’ رکھا ہے تو کبھی اسے مارنا نہیں نہ ہی اس کو کوسنا اور نہ ہی اسے گالی دینا” (کافی جلد ٦ صفحہ ۴٩)
منقول ہے جب بھی امام محمد باقر علیہ السلام بخار میں مبتلا ہوتے تو اپنے جسم پر ٹھنڈا پانی ڈالتے اور بلند آواز سےاپنی دادی کو پکارتے۔ “یا فاطمہ بنت محمد!”(صلی اللہ علیہما و آلہما)(بیت الاحزان ١٨١)

علامہ مجلسی نے اس روایت کو بیان کرنے کے بعد امام باقرؑ کے اس عمل کی وضاحت فرمائ ہے۔ شیخ عباس قمی نے اپنی تصنیف ‘بیت الاحزان’ میں اس درد کو اس طرح پیش کیا ہے کہ ائمہ کے لیے معصومہ عالم (علیہا السلام) کی مصیبت ایک عظیم مصیبت رہی ہے۔ مگر حکومتوں اور ظالموں کا خوف اس درجہ حاوی رہا ہے کہ قاتلان دختر رسولؐ کی کھلے عام مزمت نہیں کی جا سکی۔ حتٰی کہ سیدہؑ عالم کی شہادت کا ذکر اور ان کے مصائب کے ذکر کو بھی جرم قرار دیا جاتا رہا ہے۔ اس لیے ائمہ علیہم السلام ان کی مصیبت کو یاد کر کے لوگوں میں صرف آہ بھرتے اور خلوت میں ان کی مصیبت پر آنسو بہاتے۔

خدایا اپنی حجت اور منتقمؑ خون زہراؑ کے ظہور میں تعجیل فرما اور ان کے ذریعہ اپنے رسولؐ کی بیٹی کے قاتلوں سے جلد انتقام لے۔ آمین

Short URL : https://saqlain.org/l746