شہادت امیر الموءمنین کی خبر اور رسول الله کا گریا

امیر الموءمنین علیہ السلام کا روز شہادت عالمِ اسلام کے لیے سب سے زیادہ مصیبت والا روز رہا ہے۔ یہ وہ سانحہِ تھا جس نے اسلام میں کبھی پر نہ ہونے والا خلاء پیدا کیا ہے۔ یہ وہ مصیبت تھی کہ جس نے اوّلین و آخرین سب کو غمزدہ بنادیا۔ حالانکہ یہ واقعہ رسول الله صلی الله علیہ وآلہ وسلم کی رحلت کے بعد واقع ہوا مگر اس کی خبر نے آنحضرتؐ کو اتنا غمگین کیا کہ آپؐ نے شدت سے اس پر گریا فرمایا۔

رسول الله صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے مختلف مقامات پر حضرت علی علیہ السلام کی شہادت کی خبردی ہے، جب جنگ خندق میں عمرو ابن عبدود نے امام عالی مقام کو زخمی کیا تھا، رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے آپ کی پیشانی کو باندھا اور فرمایا: میں اس وقت کہاں رہونگا جب تمھاری داڑھی کو خون سے رنگین کیا جائیگا[مناقب، ج۲، ص۶۱]۔

جنگ احد میں آپ کے بدن پر ستر زخم لگے، امام علی(علیہ السلام) نے اسی زخمی حالت میں ۲۵سال کی عمر میں رسول خدا(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) سے عرض کی: حمزہ اور دوسرے لوگ شہید ہوگئے لیکن شہادت مجھے نصیب نہیں ہوئی، اس وقت رسول خدا(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) نے فرمایا: علی تم بھی شہید ہوگے، لیکن تم شہادت پر کس طرح صبر کروگے؟۔۔۔”

ایک اور روایت میں خود امیر الموءمنین علیہ السلام نقل کرتے ہیں کہ سرورِ کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ ان سے ماہ رمضان کی فضیلت بیان کرتے ہوئے گریہ کرنے لگے۔ جب مولا علیؑ نے آنحضرتؐ سے ان کے رونے کا سبب پوچھا تو آپؐ نے فرمایا :
يَا عَلِيُّ أَبْكِي لِمَا يُسْتَحَلُّ مِنْكَ فِي هَذَا الشَّهْرِ كَأَنِّي بِكَ وَ أَنْتَ تُصَلِّي لِرَبِّكَ وَ قَدِ انْبَعَثَ أَشْقَى الْأَوَّلِينَ وَ الْآخِرِينَ شَقِيقُ عَاقِرِ نَاقَةِ ثَمُودَ فَضَرَبَكَ ضَرْبَةً عَلَى قَرْنِكَ فَخَضَبَ مِنْهَا لِحْيَتَكَ قَالَ أَمِيرُ الْمُؤْمِنِينَ ع فَقُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ وَ ذَلِكَ فِي سَلَامَةٍ مِنْ دِينِي فَقَالَ ص فِي سَلَامَةٍ مِنْ دِينِكَ ثُمَّ قَالَ ص يَا عَلِيُّ مَنْ قَتَلَكَ فَقَدْ قَتَلَنِي وَ مَنْ أَبْغَضَكَ فَقَدْ أَبْغَضَنِي وَ مَنْ سَبَّكَ فَقَدْ سَبَّنِي لِأَنَّكَ مِنِّي كَنَفْسِي رُوحُكَ مِنْ رُوحِي وَ طِينَتُكَ مِنْ طِينَتِي إِنَّ اللَّهَ تَبَارَكَ وَ تَعَالَى خَلَقَنِي وَ إِيَّاكَ وَ اصْطَفَانِي وَ إِيَّاكَ وَ اخْتَارَنِي لِلنُّبُوَّةِ وَ اخْتَارَكَ لِلْإِمَامَةِ فَمَنْ أَنْكَرَ إِمَامَتَكَ فَقَدْ أَنْكَرَ نُبُوَّتِي….
بحار الانوار جلد 42 صفحہ 192

“ائے علیؑ! میں اس بات کو رو رہاہوں کہ تم پر اس مہینے میں ایسا وقت آئےگا کہ تم حالتِ نماز میں ہوگے اور اولین و آخرین میں سے شقی ترین شخص تمھارے سر پر ضربت لگاےگا”۔
امیر الموءمنین نے سوال کیا:-” یا رسولؐ الله کیا اس وقت میرا دین سلامت ہوگا؟؟”
آنحضرتؐ نے جواب دیا:- “ہاں تمھارا دین سلامت ہوگا۔” آپؐ نے مزید ارشاد فرمایا:”_اے علی! جس نے تم کو قتل کیا اس نے مجھے قتل کیا، جس نے تم سے بغض کیا اس نے مجھ سے بغض کیا، جس نے تمھیں گالی دی اس نے مجھے گالی دی کیوں کہ تم کو مجھ سے ویسی ہی نسبت ہے جیسے تمھاری روح کو میری روح سے نسبت ہے یعنی تمہاری روح میری روح سے ہے اور تمھاری طینت میری طینت سے بنی ہے۔ یقیناً الله نے تمھیں اور مجھے (ایک ساتھ) خلق کیا پھر تم کو امامت کے لیے چن لیا جس طرح اس نے مجھے نبوّت کے لیے چنا ہے۔ پس جس نے تمھاری امامت کا انکار کیا اس نے میری نبوّت کا بھی انکار کیا ہے….”
انّیس رمضان المبارک کی صبح میں جب امیر الموءمنین علیہ السلام کو ابن ملجم معلون نےضربت لگائی تو اس نے صرف مولائے کائنات (صلوات الله علیہ) کو زخمی نہیں کیا بلکہ اس نے خود رسولؐ خدا کو زخمی کیا تھا۔ وہی وقت تھا کہ آسمان میں منادی نے ندا دی تھی” ان تَہَدّمَت و اَللہ اَرکان الہُدیٰ”- “خدا کی قسم ارکان ہدایت منہدم ہوگئے”۔

اللہم العن قتلة امیر الموءمنین علیہ السلام

Short URL : https://saqlain.org/epkl