لغوی معنوں میں ‘صدیق’ ہمیشہ سچ بولنے والے کو کہا جاتا ہے، یعنی جس کے منہ سے صرف سچ ہی نکلے اور جس نے کبھی جھوٹ نہ بولا ہو. صداقت ایک اچھی صفت ہے۔ اسلام، بلکہ تمام ادیانِ عالم اپنے ماننے والوں سے یہ توقع رکھتے ہیں کہ وہ سچ بولیں اور ہمیشہ سچائ کا ساتھ دیں۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ دنیا میں زیادہ تر پریشانیوں اور مصیبتوں کی جڑ سچ نہ بولنا ہے۔ اسلام نے بھی اپنے ماننے والوں کو سچا ہونے، سچّائ کا ساتھ دینے اور سچّوں کے ساتھ ہونے (کونوا مع الصادقین) کی ترغیب دی ہے۔ اس کے علاوہ ‘صدیق’ ہونا خدا کے نزدیک ایک بلند مقام بھی رکھتا ہے۔ یہی سبب ہے کہ قرآن نے بعض انبیاء کو ‘صدیق’ لقب سے یاد کیا ہے.
‘صداقت’ جناب ابراہیمؑ کی ایک اہم خصوصیت رہی ہے۔
وَاذْكُرْ فِي الْكِتَابِ إِبْرَاهِيمَ إِنَّهُ كَانَ صِدِّيقًا نَّبِيًّا
(مَرْيَم ، 19 : 41)
“اور آپ کتاب (قرآن مجید) میں ابراہیم (علیہ السلام) کا ذکر کیجئے، بیشک وہ صادق نبی تھے۔”
اسی طرح کے جملے جناب ادریسؑ کے لیے بھی استعمال ہوئے ہیں۔
وَاذْكُرْ فِي الْكِتَابِ إِدْرِيسَ إِنَّهُ كَانَ صِدِّيقًا نَّبِيًّا
(مَرْيَم ، 19 : 56)
“اور (اس) کتاب میں ادریس (علیہ السلام) کا ذکر کیجئے، بیشک وہ صادق نبی تھے۔”
جناب عیسیٰ اور ان کی والدہ جناب مریم کی داستان میں ہم پڑھتے ہیں۔
مَّا الْمَسِيحُ ابْنُ مَرْيَمَ إِلاَّ رَسُولٌ قَدْ خَلَتْ مِن قَبْلِهِ الرُّسُلُ وَأُمُّهُ صِدِّيقَةٌ كَانَا يَأْكُلاَنِ الطَّعَامَ انظُرْ كَيْفَ نُبَيِّنُ لَهُمُ الْآيَاتِ ثُمَّ انظُرْ أَنَّى يُؤْفَكُونَ۔
(الْمَآئِدَة ، 5 : 75)
“مسیح ابنِ مریم (علیھما السلام) رسول کے سوا (کچھ) نہیں ہیں، یقیناً ان سے پہلے (بھی) بہت سے رسول گزرے ہیں، اور ان کی والدہ صدیقہ (ولیّہ) تھیں، وہ دونوں (مخلوق تھے کیونکہ) کھانا بھی کھایا کرتے تھے۔ (اے حبیب!) دیکھئے ہم ان (کی رہنمائی) کے لئے کس طرح آیتوں کو وضاحت سے بیان کرتے ہیں پھر ملاحظہ فرمائیے کہ (اس کے باوجود) وہ کس طرح (حق سے) پھرے جارہے ہیں۔”
اس کے علاوہ بھی متعدد مقامات پر یہ لفظ استعمال ہوا ہے۔ جس سے پتہ چلتا ہے کہ انبیائے کرام میں حضرت یوسف علیہ السلام اور دیگر صاحبان تقدس ‘صدیق’ لقب کے حامل رہے ہیں۔
ایک مقام پر قرآن نے ان باکمال افراد کی تعریف اس طرح بیان کی ہے:
وَالَّذِينَ آمَنُوا بِاللَّهِ وَرُسُلِهِ أُوْلَئِكَ هُمُ الصِّدِّيقُونَ وَالشُّهَدَاءُ عِندَ رَبِّهِمْ لَهُمْ أَجْرُهُمْ وَنُورُهُمْ وَالَّذِينَ كَفَرُوا وَكَذَّبُوا بِآيَاتِنَا أُوْلَئِكَ أَصْحَابُ الْجَحِيمِ۔
(الْحَدِيْد ، 57 : 19)
“اور جو لوگ اللہ اور اس کے رسولوں پر ایمان لائے، وہی لوگ اپنے رب کے نزدیک صدیق اور شہید ہیں، اُن کے لئے اُن کا اجر (بھی) ہے اور ان کا نور (بھی) ہے، اور جنھوں نے کفر کیا اور ہماری آیتوں کو جھٹلایا وہی لوگ دوزخی ہیں۔”
یہاں پر اس روایت کا بیان کرنا نا مناسب نہ ہوگا جس میں سرورؐ عالم نے اپنے وصی حضرت علیؑ کو ‘صدیق’ کہا ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ارشاد ہے۔
“صدیقین تین افراد ہیں: حبیب نجّار (مومن آل یاسین)، حزقیل (مومن آل فرعون) اور علی بن ابی طالب (علیہ السلام) جو کہ ان سب سے افضل ہیں۔”
ابن حنبل، فضائل امیرالمؤمنین علی ابن ابی طالب(ع)، ص238، 278.
انبیاء کے علاوہ جو اشخاص صدیق کی سند حاصل کرسکتے ہیں، اس روایت میں غالبًا ان کی بات ہورہی ہے۔
خود امیر المومنین علیہ السلام کا بھی ارشاد گرامی ہے کہ ان کے علاوہ ‘صدیق اکبر’ ہونے کا دعوی کرنے والا شخص جھوٹا ہے۔
“انا عبدالله و اخو رسوله و انا الصدّیق الاکبر لا یقولها بعدی الا کاذب مفتر”.
“میں خدا کا بندہ ہوں، رسولؐ خدا کا بھائی ہوں اور ‘صدیق اکبر’ ہوں، میرے بعد کوئی اپنے لیے ایسی بات نہیں کہے گا، مگر یہ کہ وہ جھوٹا ہو.”
اہل تسنن کتب:
نسائی، سنن، ج۵، ص۱۰۷؛ کنزالعمال، ج۱۳، ص۱۲۲؛ حاکم نیشاپوری، ج۳، ص۱۱۲.
مندرجہ بالا حوالے اہل تسنن کے یہاں معتبر حوالوں کی فہرست میں شمار ہوتے ہیں۔ ان کے یہاں دیانت دار علماء کی اکثریت اس قول کو قبول بھی کرتی ہے. مگر ان میں کچھ اس بات پر اعتراض جتاتے ہیں کہ خود حضرت علیؑ کا اپنے بارے میں یہ قول ہے کہ وہ ‘صدیق اکبر’ ہیں جبکہ سرور عالم صلی اللہ علیہ و سلم نے یہ لقب ان سے پہلے ابوبکر کو دیا تھا۔
اس ذیل میں ہم دو روایات پیش کر رہے ہیں تاکہ یہ حقیقت واضح ہو جائے۔ پہلی روایت تحقیقی کتاب ‘احقاق الحق’ سے نقل کی جارہی ہے جس کو شہید ثالث نے اہل تسنن عالم محب الدین طبری کی کتاب ‘ذخائر العقبیٰ’ سے نقل کیا ہے:
روی عن أبی ذر قال: سمعت رسول اللّه صلّی اللّه علیه و سلّم یقول لعلی: أنت الصدیق الأکبر؛و أنت الفاروق الذی یفرق بین الحق و الباطل، و أنت یعسوب الدین.
ابوذرؓ بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہؐ کو علیؑ سے کہتے ہوئے سنا: “یا علیؑ! تم ‘صدیق اکبر’ ہو، تم ہی وہ ‘فاروق’ ہو، جو حق و باطل کے درمیان فرق بتائے گا اور تم ہی دین کے سردار ہو۔”
ذخائر العقبیٰ(ص ۵۶ ط مکتبة القدسی بمصر) ص: ۲۷
احقاق الحق جلد ۴ ص ٢٧۔
اس روایت میں یہ واضح طور پر بیان کیا گیا ہے کہ ‘صدیق اکبر’ اور ‘الفاروق’ دونوں القاب رسولؐ خدا نے خود حضرت علیؑ کے لیے مختص کیے تھے۔ پھر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اہل تسنن ‘صدیق اکبر’ لقب ابوبکر کے لیے کیوں استعمال کرتے ہیں اور عمر کو ‘فاروق اعظم’ کیوں کہتے ہیں؟
اس کا جواب بھی روایت کی شکل میں شہید ثالث نے اپنی گراں قدر تحقیقی کتاب ‘احقاق الحق’ میں اہل تسنن کی ایک کتاب کے حوالے سے دیا ہے۔ ملاحظہ فرمائیے۔
اہل تسنن عالم علامہ محدث شیخ جمال الدین محمد بن احمد حنفی اپنی کتاب ‘در بحر مناقب’ میں اس روایت کو نقل کرتے ہیں کہ عمر ابن خطاب کے زمانۂ خلافت میں ایک دن سلمان، ابوذر اور مقداد کا گزر ایک ایسے شخص کے پاس سے ہوا جو کوفے کا رہنے والا تھا۔ اس شخص نے ان بزرگ اصحاب پیغمبرؐ سے گزارش کی کہ اسے کچھ نصیحت فرمائیں۔ انھوں نے اس مسافر سے فرمایا:”تم اپنے لیے کتاب خدا اور علیؑ ابن ابی طالبؑ کی پیروی کو لازم کرلو کیونکہ یہ دونوں ایک دوسرے کے ساتھ ہیں اور کبھی جدا نہ ہوں گے اس لیے کہ ہم گواہی دیتے ہیں کہ ہم سب نے رسولؐ اللہ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ “یقینًا علیؑ حق کے ساتھ ہیں اور حق علیؑ کے ساتھ ہے اور جدھر علیؑ مڑتے ہیں حق بھی اس طرف مڑ جاتا ہے۔ علیؑ ہی وہ ہیں، جو سب سے پہلے مجھ پر ایمان لائے اور علیؑ ہی وہ ہیں، جو سب سے پہلے روزِ قیامت مجھ سے مصافحہ کریں گے وہی ‘صدیق اکبر’ ہیں اور ‘فاروق’ ہیں جو حق و باطل کے درمیان فرق کرنے والے ہیں۔ وہی میرے وصی ہیں، میرے وزیر ہیں اور میرے بعد میری امّت پر میرے خلیفہ ہیں۔ وہی میری سنّت کو قائم کرنے کے لیے جنگ کریں گے۔”
اتنا سن کر اس مسافر نے کہا :”پھر لوگ ابوبکر کو ‘صدیق اکبر’ اور عمر کو ‘فاروق’ کیوں کہتے ہیں؟”
انھوں نے جواب دیا:”لوگوں نے جس طرح علیؑ کے حقِّ خلافت کو فراموش کرکے ابوبکر اور عمر کی خلافت کو قبول کرلیا اسی طرح ان دونوں نے ان کے القاب پر قبضہ بھی کرلیا اور لوگوں نے اسے بھی قبول کرلیا۔ جبکہ واللہ علیؑ ہی ‘صدیق اکبر’ اور ‘فاروق اعظم ہیں، رسولؐ اللہ کے خلیفہ ہیں اور مومنوں کے امیر ہیں۔ یہ حکم ہم سب کو خود رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و الہ وسلم) نے دیا تھا کہ علیؑ کو اپنا امیر تسلیم کرلو اور ہم سب نے اور ان دونوں نے بھی اس حکم کو قبول کیا تھا۔”
(در بحر المناقب ص ۹۹)
اس روایت نے اس بات کو بالکل واضح کردیا کہ حقیقی ‘صدیق اکبر’ کون ہے۔ کون ہے وہ شخصیت جس کو سرور کائنات (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) نے اس لقب سے نوازا تھا اور کس طرح سے یہ لقب ان سے چھین لیا گیا۔