عقد ام کلثوم : حقیقت یا افسانہ؟

اہل تسنّن علماء کا یہ کہنا ہے کہ خلفاۓ سقیفہ اور اہلبیت نبیؐ کے مابین اچھے مراسم ہوا کرتے تھے۔ ان کے تعلقات اتنے اچھے تھے کہ وہ ایک دوسرے کے گھرانوں میں شادیاں اور رشتہ داریاں بھی قائم کرتے تھے۔ ان کے نزدیک اس رشتہ داری کا ایک اہم ثبوت خلیفہ دوم کا حضرت علیؑ کی بیٹی ام کلثوم سے عقد کرنا ہے۔ چنانچہ اہل تسنّن یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ ام کلثوم سے خلیفہ دوم عمر کا عقد ہونا اس بات کی دلیل ہے کہ عمر نے جناب فاطمہؑ اور ان کے گھر والوں پر کوئ ظلم نہیں کیا تھا ورنہ حضرت علیؑ ہرگز ماں کے قاتل سے بیٹی کا نکاح نہ کراتے۔ بعض سنّی علماء و خطباء تو یہاں تک کہہ گزرتے ہیں کہ یہ ساری داستانِ ظلم صرف شیعوں کی ایجادات ہیں۔

اس سے پہلے والے مضمون میں یہ بات گزر چکی ہے کہ بیشتر شیعہ علماء اس عقد کے واقع ہونے کا سرے سے انکار کرتے ہیں اور اس بارے میں ان کے ذریعہ مفصّل کتابیں بھی لکھی گئی ہیں۔ اس مضمون میں ہم اس مسئلہ کے دوسرے رخ کو سمجھنے کی کوشش کریں گے۔
بعض شیعہ اور سنّی مورخین کا ماننا ہے کہ حضرت علیؑ کی جس بیٹی ام کلثوم کا ذکر عمر کی زوجیت میں آیا ہے وہ مولا علیؑ کی ربیبہ تھیں یعنی وہ در اصل جناب اسمہ بنت عمیس کے بطن سے پیدا ہونے والی خلیفہ اول ابوبکر کی بیٹی تھیں۔ مورخین نے اس بات کو اس طرح بیان کیا ہے: ‘یہ ام کلثوم ابوبکر کی بیٹی تھی بعض تاریخ سے استفادہ ہوتا ہے کہ ابوبکر کی ایک لڑکی کا نام ام کلثوم تھا عمر نے اس سے شادی کرنے کی درخواست کی تھی جسے قبول کرلیا گیا تھا ، چونکہ ام کلثوم حضرت علیؑ کی بچی کا نام بھی تھا لہٰذا نام کی مشابہ ہونے کی وجہ سے بعض نافہم لوگوں نے اسے ام کلثوم بنت علیؑ کی طرف منسوب کردیا ، چنانچہ ابن قتیبہ ‘معارف’ میں لکھتے ہیں : ‘جب عمر ام کلثوم بنت ا بی بکر سے شادی کرنے کی درخواست عائشہ کے پاس لے کر گئے تو عائشہ نے اسے قبول کرلیا،لیکن ام کلثوم عمر کو پسند نہیں کرتی تھیں۔’

عرب میں یہ دستور تھا کہ پرورش کرنے والے کو اس بچے کے والد کے طور پر پکارا جاتا تھا اس لیے یہ لڑکی ام کلثوم بنت علیؑ کے نام سے مشہور کردی گئی تھی ۔ لہذا صحیح بخاری میں کتاب ۵٢ ح ١٣٢ (اور کتاب ۵٩ ح ٣٩٨) کی روایت میں جس ام کلثوم کا ذکر ہوا ہے وہ دراصل ابوبکر ہی کی بیٹی ہیں نہ کہ جناب فاطمہ (س) کی۔ اس روایت میں راوی نے خود اپنے خیال میں ام کلثوم کو نبیؐ کی طرف نسبت دی ہے۔ ممکن یہ بھی ہے کہ موءلفِ کتاب کی نافہمی ہو کہ اس نے اس روایت میں ام کلثوم کو دختر رسولؐ ظاہر کردیا ہے۔ بہر حال یقینی طور پر وہ خاتون رسول اللہ (ص) کی نواسی ام کلثوم نہیں ہو سکتی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ جب سرور کائنات (ص) نے یہ گوارا نہ کیا کہ اپنی صاحب زادی جناب فاطمہ (ص) کو عمر کے عقد میں دیں تو پھر آنحضرتؐ کی نواسی کا عمر کے عقد میں دے دینا تو اور محال امر ہے۔ حالانکہ ام کلثوم بنت ابوبکر حضرت علی کی پرورش میں تھیں مگر چونکہ عائشہ کا اور ان کا بہن کا رشتہ تھا اس لیے عمر نے عائشہ سے ام کلثوم کی خواستگی کی جو عائشہ نے قبول کرلی۔

تاریخی حوالوں سے معلوم ہوتا ہے کہ جس وقت یہ عقد رونما ہوا اس وقت ام کلثوم سن بلوغ تک نہیں پہنچی تھیں (طبقات ابن سعد ج ٨ ص ۴٦٣)۔ (ام کلثوم ابوبکر کے مرنے کے بعد پیدا ہوئ تھیں اور اس وقت ان کی عمر ٧ یا ٨ سال ہی تھی) شائد اس لیے بھی حضرت علیؑ اس عقد کے لیے تیار نہ تھے۔
بعض شیعہ مآخذ میں یہ واقعہ یوں بیان ہوا ہے: امیرالمؤمنینؑ نے عمر کا رشتہ مسترد کیا اور فرمایا: وہ ابھی چھوٹی بچی ہیں۔ عمر نے علیؑ کے چچا عباس بن عبدالمطلب کے پاس پہنچ کر دھمکی دی اور کہا “خدا کی قسم میں زمزم کا کنواں منہدم کروں گا اور تمھارے لئے کوئی کرامت باقی نہیں رہنے دوں گا؛ اور گواہ لاؤں گا کہ علیؑ نے چوری کی ہے اور ان کا داہنا ہاتھ کاٹ دوں گا”۔ عباس نے علیؑ کو عمر کی دھمکیوں سے آگاہ کیا اور کہا کہ اس رشتے کا معاملہ ان کے سپرد کریں اور علیؑ نے بھی قبول کیا۔
(کافی جلد ۵ ص ٣۴٦)

اس روایت سے اور ایسی دوسری روایتوں سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ اس رشتہ کے لیے عمر نے خاندان بنی ہاشم کو دھمکایا تھا۔ اس لیے جو اہل تسنّن دعویٰ کرتے ہیں کہ یہ رشتہ ان کے درمیان اچھے تعلقات کی علامت ہے، یہ ایک فریب سے زیادہ کچھ نہیں ہے۔ عمر کو اس بات کا اندازہ تھا کہ اہلبیتؑ پیغبرؐ کو ناراض رکھ کر وہ حکومت نہیں کر پائیں گے۔ کم از کم ظاہری طور پر کچھ ایسا کیا جائے کہ لوگوں کے درمیان یہ بات رائج ہو جائے کہ ان کے آپسی معاملات ہم آہنگ ہیں. افسوس کہ اس ناکام کوشش میں سرکاری مورخین نے بھی ان کا خوب ساتھ دیا۔ حتّی کہ بعض نے تو بے شرمی کی حدیں تک پار کر دیں۔ یہ روایت بیان کرنے کے قابل نہیں ہے ، مگر صرف اس لیے پیش کی جارہی ہے کہ قارئین کو اندازہ ہوجائے کہ اس معاملے میں کتنا جھوٹ بولا گیا ہے۔

اہل تسنّن کے بعض متون میں ہے کہ عمر نے حضرت علیؑ سے کہا کہ ام کلثوم کو میرے پاس بھیجو تاکہ میں اسے دیکھ لوں۔ اس بات کے لیے حضرت علیؑ تیار نہ تھے مگر بہت زیادہ اصرار (اور دھمکی ) کے بعد انھوں نے ام کلثوم کو کچھ سامان لے کر عمر کے پاس بھیجا۔ عمر نے ام کلثوم کے ساتھ زیادتی کی ام کلثوم نے کہا: اگر تو خلیفہ نہ ہوتا تو میں تیری آنکھیں پھوڑ دیتی اور تیری ناک توڑ دیتی۔ ام کلثوم اپنے والد کے پاس آئیں اور عمر کے اس عمل کی شکایت کی اور کہا: آپ نے مجھے نہایت برے بڈھے کے پاس بھیجا تھا۔(الاستیعاب، ج ۴، ص ١٩۵۵، سیر اعلام النبلاء، ج ٣، ص ۵٠١، الاصابہ، ج ٨، ص ۴٦۴۔)
اہل تسنّن عالم سبط بن جوزی اس روایت میں عمر کے اس عمل کے بارے میں لکھتے ہیں: ‘خدا کی قسم! حتی اگر وہ کنیز بھی ہوتیں تو بھی عمر کو یہ حق نہيں پہنچتا تھا کہ ان کے ساتھ ایسا فعل انجام دیں کیونکہ مسلمین کا اجماع ہے کہ نامحرم خاتون کو ہاتھ لگانا حرام ہے۔’ (تذکرة الخواص، ص٣٢١۔)

اس روایت میں تو عمر کی بھی رسوائ ہو رہی ہے مگر پھر بھی اس طرح کی روایات سنّی کتابوں میں موجود ہیں۔ افسوس اہل تسنّن کے یہاں ایسی روایات کا پایا جانا کوئ تعجّب کی بات نہیں ہے ان کی کتب صحاحہ میں بھی اس طرح کے لُغویات رسول اسلام (ص) کے لیے بیان کیے گۓ ہیں۔
بہرحال خلاصہ ء کلام یہ کہ عمر کی زوجیت میں ام کلثوم نام کی خاتون تھی تو ضرور مگر وہ خاندان رسالت سے نہیں تھی ۔ اگر ایسا ہوتا تو کربلا کے میدان میں بعد از شہادت امام حسینؑ یزیدی لشکر اتنی ہمّت نہ کرتا کہ اپنے خلیفہ دوم کی ‘بیوہ’ کو قیدی بناتا اور شام و کوفہ کے درباروں اور بازاروں میں اسیر بناکر پھراتا۔

Short URL : https://saqlain.org/7bxh