فخرالدین رازی کا فدک کے معاملے میں جناب زہرا کا دفاع

فخر الدین الرازی (وفات 605 ه)، مشہور اہل تسنن عالم دین اور فلسفی گزرے ہیں جنہوں نے ائمہ معصومین (ع) کی عصمت اور امیر المومنین (ع) کی فضیلت کے متعلق مختلف موضوعات پر شیعوں کا مقابلہ کیا ہے۔
وہ صحابہ اور خلفاء کے شدید حمایتی تھے اور مختلف موقف میں ان کے مرتبے کو ثابت کرنے کے لئے علم کلام کا سہارا لیا کرتے تھے یہاں تک کہ کچھ علماء ان کو سلطان المتکلمین مانتے ہیں۔

لیکن ایک موقعہ ایسا ہے جس میں فخر رازی نے اپنے صحابہ کے لئے نظریے سے الگ ہوکر آل محمّد کے حق میں فیصلہ کیا ہے.

فدک کے متعلق فخر رازی کا نظریہ

اس فرضی روایت کے مقابلے میں کہ جس کے مطابق ‘فدک مسلمانوں کا مال ہے کیوں کہ انبیا کوئی میراث نہیں چھوڑتے، فخر رازی حضرت فاطمہ زہرا (س) کے حق میں دلیل پیش کرتے ہیں.
وہ لکھتے ہیں کہ امام علی (ع) حضرت فاطمہ (س) اور ابن عبّاس کے علاوہ کسی کو بھی رسول الله (ص) کی میراث کے معاملے کی خبر نہیں ہو سکتی جبکہ یہ لوگ اسلامی شریعت کے سب سے بڑے عالم تھے اور اپنے تقوے کے لئے بھی مشہور تھے. اس کے علاوہ ابو بکر کو اس معاملے کی خبر ہونے کی کوئی وجہ نہ تھی کیوں کہ وہ رسول اللہ (ص) کے قرابتدار نہیں تھے اور اس نے یہ تصوّر بھی نہ کیا ہوگا کہ رسول اللہ (ص) نے اس کے لئے کوئی میراث چھوڑی ہوگی. تو پھر ایک عاقل انسان یہ کیسے مان لے کہ رسول اللہ (ص) نے ایک ایسے شخص کو اپنی میراث کے بارے میں اطلاع دی جسے اس میراث سے کوئی لینا دینا نہیں اور اسی میراث کے ورثہ داروں سے یہ بات چھپاے رکھی.

یہاں اس بات کا ذکر کرنا ضروری ہے کہ فقہ جعفریہ میں میراث کے مسئلے میں چچا قریبی رشتےداروں میں شمار نہیں ہوتا. اگر مرنے والے کی اولاد موجود ہو تو بھتیجے میراث کا دعوا نہیں کر سکتے. فخر رازی نے اپنے مکتب فقہہ کے مطابق ابن عبّاس کو اس فہرست میں شامل کیا ہے.
یہ بات روز روشن کی طرح واضح ہے اہل تسنن کے علماء کے نزدیک بھی رسول اللہ (ص) کو اپنی میراث کے بارے میں جناب فاطمہ زہرا (س) اور امام علی (ع) کو بتانا چاہیے تھا نہ کہ ابوبکر کو. اس بات کی کوئی وجہ نہیں ہے کہ رسول الله (ص) نے یہ بات ابوبکر کو تو بتائ ہو لیکن اپنے شرعی ورثہ داروں کو نہیں بتائ جس کی بنا پر آپ کے بعد یہ اختلاف برپا ہوا.

اسلامی شریعت کا فیصلہ
فقہ اسلامی کے مطابق کسی معاملے میں کسی ایسے شخص کی خبر جس کا اس معاملے سے کوئی سروکار نہ ہو غیر معتبر جان کر رد کر دیا جاتا ہے اور فتویٰ صادر کرنے میں اس سے استفادہ نہیں لیا جاتا.

مثال کے طور پر کسی مرد کا اپنی شرمگاہ کو چھونے کی بنا پر وضو باطل ہونے کے مسئلے میں کسی عورت سے روایت نقل ہو جیسے بصرہ بنت صفوان.
لیکن امام علی، جناب عمار. ابن عبّاس ، عبداللہ بن مسعود ، حذیفہ یمانی اس صورت میں وضو کو باطل نہیں جانتے. اگر بصرہ بنت صفوان کی خبر معتبر ہوتی تو ان حضرات نے اسے یقینا سنا ہوتا۔

اور وہ لوگ بھی جو شرمگاہوں کو چھونے سے وضو کو باطل جانتے ہیں وہ بھی بصرہ بنت صفوان کی روایت کو دلیل کے طور پر نقل نہیں کرتے
وہ اس روایت کو اس بنا پر رد کرتے ہیں کہ رسول الله نے اس مسئلہ کو ایسی شخص سے کیونکر بیان کیا ہوگا جب کے اس کو اس سے کوئی تعلّق نہیں ہے اور کسی ایسے شخص کو نقل نہ کی جنہیں اس سے استفادہ ہو اور اس بنا پر یہ حدیث ناقص ہے اور رد کی جاتی ہے
• شرح فتح القدير ج ١ ص ٥٦
• مسئلہ فدک ص ٤٧

اس بنا پر “ہم انبیا کوئی وراثت نہیں چھوڑتے” والی حدیث غیر معتبر ہے اور حضرت فاطمہ زہرا (س) کے حق کو غصب کرنے کے لئے دلیل نہیں ہو سکتی۔
یہ روایت صرف اور صرف بنی ہاشم کا حق غصب کرنے اور ان کو اقتصادی طور پر کمزور کرنے کی ایک سازش تھی تاکہ وہ کبھی بھی جابر خلفا کے سامنے سر نہ اٹھا سکیں۔

Short URL : https://saqlain.org/n2m3