رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہٖ کی رحلت کے فوراً کے بعد جو واقعات رونما ہوئے اُن میں سے ایک اہم واقعہ مقدّمۂ فدک تھا۔بلکہ یہ واقعہ ہدایت حاصل کرنے والوں کے لئے ایک مشعلہ راہ ہے۔ اس مقدّمہ میں جو دو اہم ہستیاں آمنے سامنے ہیں اُن دونوں کو مسلمان نہایت لائق احترام اور سچا مانتے ہیں۔وہ ابوبکر کو صدیق اکبر کے لقب سے نوازتے ہیں اور دخترِ رسول صلی اللہ علیہ و آلہٖ جناب فاطمہ سلام اللہ علیہا کو بھی صدیقۂ طاہرہ مانتے ہیں۔ کتاب صحیح بخاری اہل تسنّن کے یہاں نہایت ہی معتبر سمجھی جاتی ہے اُن کا تو نعرہ ہی یہ ہے کہ ’’بعد کتاب باری الصحیح البخاری‘‘اِس کتاب میں فدک سے متعلق کچھ روایتیں موجود ہیں جس کو خود ابوبکر کی بیٹی عائشہ نے نقل کیا ہے۔
اس مختصر مقالہ میں ہم ان روایات پر ایک طائرانہ نظر ڈالیں گے۔ مگر اس سے پہلے کچھ اہم باتیں……
اہلِ تسنّن کے یہاں عائشہ کی اہمیت و مرتبہ:۔
(۱) عائشہ خلیفۂ اوّل ابوبکر کی بیٹی ہونےکے ساتھ ساتھ رسولؐ اللہ کی زوجہ بھی ہیں۔ اہلِ تسنّن اس بات کو اُن کی بہت بڑی فضیلت بھی مانتے ہیں۔
(۲) کتاب سُنن و صحاح میں عائشہ سے بہت زیادہ روایتیں نقل ہوئی ہیں۔ صرف بخاری نے اپنی صحیح میں اُن سے نو سو (۹۰۰)سے زیادہ روایات نقل کی ہیں۔ اتنی زیادہ تعداد میں روایات کسی بھی صحابیہ یا زوجِ رسول صلی اللہ علیہ و آلہٖ سے درج نہیں کی گئی ہے۔
(۳) اہلِ تسنّن عائشہ کو ایک عظیم فقیہا بھی مانتے ہیں۔
(۴) ان کی ہر روایت کو نہایت گرانقدر اور بطورِ دلیل استعمال کیا جاتا ہے۔
واقعہ فدک کی رُوداد عائشہ کی زبانی
مندرجہ ذیل میں وہ روایات ہیں جو صحیح بخاری میں فدک سے متعلق عائشہ سے نقل ہیں۔
کتاب صحیح بخاری کتاب ۵۳ حدیث نمبر ۳۲۵
کتاب صحیح بخاری کتاب ۵۷ حدیث نمبر ۶۰
کتاب صحیح بخاری کتاب ۵۹ حدیث نمبر ۵۴۶
کتاب صحیح بخاری کتاب ۸۰ حدیث نمبر ۷۱۸ وغیرہ
اِ ن روایات میں جناب فاطمہ سلام اللہ علیہا کا مطالبۂ فدک اور اُن کا حق نہ ملنے پر ابوبکر سے ناراضگی کا تفصیلی اور واضح ذکر ہے۔
(۱) جناب فاطمہ سلام اللہ علیہا نے اپنے حق کا مطالبہ کیا تھا۔ اُنھوں نے ابوبکر سے اپنی میراث دینے کا مطالبہ بھی کیا اور جو بھی اُن کا حصّہ خُمس اور مالِ فِئے سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہٖ اُن کو دیا کرتے تھے اُس کو بحال کرنے کا سوال کیا۔
(۲) ابوبکر نے اس سوال کے جواب میں حدیث ’’لاَ نُورِثُ‘‘ بیان کیا اور ان میں سے کچھ بھی دینے سے انکار کر دیا۔
(۳) اس پر دخترِ رسول صلی اللہ علیہ و آلہٖ ابوبکر سے سخت ناراض ہوئیں یہاں تک کہ ا ُن سے بات چیت اور ملنا جُلنا ترک کر دیا۔ روایت کے جملے ہیں”………فغضبت فاطمة بنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہٖ فھجرت ابابکر فلم تزل مھاجرتہ حتیٰ توفیت………”
(۴) جگر گوشۂ رسول صلی اللہ علیہ و آلہٖ کی ناراضگی اس حد تک رہی کہ آپ سلام اللہ علیہا نے ابوبکر کو اپنے جنازے میں شرکت کرنے سے منع فرما دیا۔ اور ایسا ہی ہوا آپ علیہا السلام کی وفات کے بعد اُن کے شوہر حضرت علی علیہ السلام نے اُن کے جنازے کو رات کی تاریکی میں دفن کیا۔ اس طرح دخترِ رسول صلی اللہ علیہ و آلہٖ نے دنیا سے جاتے ہوئے ابوبکر سے اپنی ناراضگی کا کھُلا اعلان کر دیا۔
یاد رہے یہ ساری باتیں خودابوبکر کی بیٹی عائشہ کی زبانی ہے جنھیں اہلِ تسنّن صدیقہ کہتے ہیں اور اُن کی سب سے مُستند کتاب میں موجود ہے۔ اب اگر کوئی اس کے برخلاف روایت پیش کرتا ہے تواُس کی بات یا اس کا دعویٰ صرف جھوٹ ہے اور منگھڑت ہے۔ حقیقت تو یہی ہے کہ دخترِ رسولؐ کو فدک نہیں لوٹایا گیا اور اس بات سے خاتونِ محشر تا حیات ابوبکر و عمر سے ناراض رہیں یہاں تک کہ اُن کو اپنے جنازے میں شامل ہونے کی بھی اجازت نہیں دی۔
قال رسول اللّه {صلى الله عليه وآله}:
فاطِمَة بَضْعَةٌ مِنّي مَنْ آْذاهَا فَقَدْ آذانِي.
السنن الكبرى ج 10 باب من قال: لا تجوز شهادة الوالد لولده ص 201/ كنز العمّال ج 13 ص 96/نور الأبصار ص52/ ينابيع المودّة ج 2 ص 322.