فدک ۔ ایک عجیب مقدّمہ

وَأتِ ذَ الْقُربیٰ حقّہٗ وَالْمِسکِینَ وَ ابنَ السّبیلِ وَلاَ تُبْذِرُ تبذیراً۔ (اسراء ۲۶)

اپنے قرابت دار کو اُن کا حق دیجئے اور مسکین اور مسافر کو بھی اور اسراف نہ کیجئے۔یہ بات مسلّم ہے کہ فدک رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلّم کو بغیر کسی جنگ یا خون خرابے کے حاصل ہوا تھا۔ مدینہ کے شمال میں بسنے والے یہودیوں نے اِس ذرخیز زمین کو جس پر بہت سے کھجور کے درخت تھے چند شرطوں پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہٖ کے حوالے کیا تھا۔ بحکم قرآنی (سورۂ حشر: ۶) جو مال و ملکیت بغیر جنگ کے مسلمانوں کو حاصل ہوتی ہے وہ صرف رسولؐ کا حق ہوتی ہے اُس میں مسلمانوں کا کوئی دخل نہیں ہوتا۔ اسے رسول صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلّم جسے چاہے عطا کرے۔ اسی آیت کی بنا پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلّم نے مدینہ سے حاصل ہونے والی بنی نذیر کی ملکیت کو مکّہ سے آئے مہاجرین کے حوالے کیا تھا۔ اس طرح یہ ساری دولت و اسباب اُن کی ذاتی ملکیت بن گئے۔ (سنن ابی دائود کتاب ۱۹ حدیث ۲۹۹۸)

اسی طرح ساتویں ہجری میں جب فدک رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہٖ کے ہاتھ آیا تو بحکمِ خدا (سورۂ اسراء:۲۶)آپ صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلّم نے فدک کو اپنی دختر جناب سیدہ فاطمہ زہرا سلام للہ علیہا کے سپرد کر دیا۔ اس طرح فدک ان کی ذاتی ملکیت بن گیا۔  (تفسیر درالمنثور جلد ۴ صفحہ ۱۷۷)

مگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلّم کی رحلت کے فوراً بعد خلیفۃ المسلمین ابوبکر نے باغِ فدک فاطمہ سلام اللہ علیہا سے چھین لیا۔ جب دُخترِ رسولؐ نے اس غصبِ فدک کے خلاف احتجاج کیا کہ یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلّم نے اُن کے حوالے کیا تھا تو ابوبکر نے اُن سے اِس بات کے گواہ پیش کرنے کو کہا۔ اس پوری داستان میں بہت سی عجیب اور خلافِ عقل باتیں ہیں۔

(۱)        رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم نے اپنی زندگی میں فدک کو جناب فاطمہؑ کی ملکیت میں دے دیا تھا۔ ابوبکر کو کوئی حق نہیں تھاکہ وہ اُسے چھین لیتے۔ کیا وہ رسولؐ کی اس تقسیم اور فیصلے سے راضی نہیں تھے؟ اگر ایسا ہے تو جو بھی اللہ اور سول صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلّم کے فیصلے سے راضی نہیں ہوتا وہ اپنی گمراہی کا ثبوت دیتا ہے۔ (سورۂ احزاب: ۳۶)

(۲)        فدک شروع سے جناب فاطمہ سلام اللہ علیہا کی ملکیت میں تھا۔ اسلامی اصولوں کے مطابق ملکیت میںہونا خود اس بات کا ثبوت ہے کہ وہ حق دار ہے۔ فدک، رسولؐ کی زندگی میں جناب سیدہ سلام اللہ علیہا  کا حق بنا تو اُن سے ثبور طلب کرنا خلافِ عقل اور خلافِ عدالت ہے۔

(۳)        اس مقدمے میں سب سے حیرت انگیز اور عجیب بات یہ ہے کہ اس میں مدعی خود ہی حاکم بھی ہے۔ یعنی ابوبکر خود دعویٰ کرنے والے بھی ہیں اور خود ہی فیصلہ کرنے والے بھی۔ اب ایسے میں عدالت کی کیا اُمید کی جائے۔

(۴)        جناب زہرا سلا سلام اللہ علیہا م اللہ علیہا نے دو گواہ مولا علی ؑ اور اُمِّ ایمن کو پیش کیا مگر ابوبکر نے اِسے رد کر دیا۔ اور ناکافی مانا۔ اُنھیں گواہی کے لینے دو مرد یا ایک مرد اور دو عورتیں درکار تھیں۔ جبکہ اسلامی احکام میں ایسے معاملات میں ایک گواہ کافی ہوتا ہے۔  (کنز الامّال جلد ۳  صفحہ ۱۷۸۔۱۷۹)

(۵)        اس پر جناب زہرا سلام اللہ علیہا نے اپنے بیٹوں حسن علیہ السلام و حسین علیہ السلام اور ایک عورت جناب اسمہ بنتِ عمیس کو بطورِ گواہ پیش کیا۔ مگر ابوبکر نے اُن کی گواہی قبول نہیں کی۔ کیوں؟ اُن کی دلیل یہ تھی کہ حضرت علی، حسن، حسین علیہم السلام یہ سب جناب فاطمہ سلام اللہ علیہا کے گھر کے لوگ ہیں۔ اس لئے اِن سب کا فدک میں ذاتی مفاد ہے۔ اور یہ تمام اُن کے مطابق جھوٹی گواہی بھی دے سکتے ہیں۔ اس لئے قابلِ اعتماد نہیں ہیں۔ حالانکہ قرآن نے ان کو سچا کہا ہے اور اُن کی طہارت و پاکیزگی کا اعلان کیا ہے۔(سورۂ احزاب:۳۳؍سورۂ آلِ عمران: ۶۱)

(۶)        اسمہ بنتِ عمیس کی گواہی بھی اس لئے قبول نہیں کی گئی کیونکہ وہ  بنو ہاشم سے دوستی رکھتی تھیں (جب کہ اُس وقت وہ ابوبکر کی زوجیت میں تھیں انھیں تو اپنے شوہر کے حق میں گواہی دینی چاہئے تھی)کیا یہ ضروری ہے کہ گواہی دشمن کی ہی قبول ہو؟ یا یہ کہ عدالتوں میں دوستی کا ہونا اعتماد کوکھو دینے کی دلیل مانا جاتا ہے؟

(۷)        اُمِّ ایمن کی گواہی بھی قبول نہیں کی گئی کیونکہ وہ عرب نہیں تھیں۔ کیا اسلامی عدلات میں عرب ہونے کو ہی سچا ہونے کا معیار بنایا ہے؟ کیا غیر عرب کی گواہی عدالتوں میں قابلِ قبول نہیں ہوتی؟

مختصر یہ کہ جب ابوبکر کو فدک دینا ہی نہیں تھا تو یہ ساری گواہیاں تو رَد کرنی ہی تھیں۔ یہ پوری عدالت اور گواہ طلبی صرف ایک ناٹک اور کچھ نہیں۔ تاریخ میں شاید ہی دوبارہ ایسی کوئی عدالت یا مقدمہ قائم ہوا ہو۔

Short URL : https://saqlain.org/fy9i