البُکاءُ وَالإِبکاءُ عَلی سَیِّدِ الشُّهَداءِ علیه السلام وأصحابِهِ
سیدالشہداء اور انکے اصحاب پر رونا یا رلانا
الحَثُّ عَلَی الحُزنِ وَالبُکاءِ وَالجَزَعِ عَلَیهِم
شہداء کربلا کے غم پر ، گریہ کرنے پر اور بے قراری کرنے پر لوگوں کو ابھارنا
– ثواب الأعمال- عن هارون بن خارجة عن أبی عبد اللّهأنَا قَتیلُ العَبرَةِ قُتِلتُ مَکروبا [1] وحَقیقٌ عَلَی اللّه ِ أن لا یَأتِیَنی مَکروبٌ إلّا رَدَّهُ وقَلَبَهُ إلی أهلِهِ مَسرورا. [2]
امام صادق علیہ السلام فرماتے ہیں: “میں اشک کا مقتول ہوں، میں غم کی موت مرا ہوں اور خدا پر حق ہے کہ کوئی بھی غم زدہ میرے پاس نہ آئے مگر اسے خوشی کے ساتھ اس کے اہل و عیال کی طرف واپس کرے۔
– ۲۷۶۸ الکافی عن عیسی بن أبی منصور: سَمِعتُ أبا عَبدِ اللّه ِ علیه السلام یَقولُ: نَفَسُ المَهمومِ لَنا المُغتَمِّ لِظُلمِنا تَسبیحٌ وهَمُّهُ لِأَمرِنا عِبادَةٌ وکِتمانُهُ لِسِرِّنا جِهادٌ فی سَبیلِ اللهِ. [3]
. امام صادق علیہ السلام نے فرمایا: “جو شخص ہمارے ظلم پر غمگین ہوتا ہے اس کی سانس تسبیح ہے اور اس کی پریشانی عبادت اور ہمارے راز کو چھپانا جہاد ہے۔
– ۲۷۶۹ الأمالی للطوسی عن معاویة بن وهب عن جعفر بن محمّدکُلُّ الجَزَعِ وَالبُکاءِ مَکروهٌ سِوَی الجَزَعِ وَالبُکاءِ عَلَی الحُسَینِ علیه السلام فَإِنَّهُ فیهِ مَأجورٌ.
امام صادق علیہ السلام نے فرمایا: “ہر قسم کی بے قراری اور روناپسندیدہ ہے، سوائےاس رونے اور بے قررای کے جو حسین علیہ السلام پر ہو، کیونکہ اس میں ثواب ہے.
– ۲۷۷۱ عیون أخبار الرضا علیه السلام عن الحسن بن علیّ بنمَن تَذَکَّرَ مُصابَنا فَبَکی وأبکی لَم تَبکِ عَینُهُ یَومَ تَبکِی. [4]
. امام رضا علیہ السلام نے فرمایا: “جو شخص ہماری مصیبتوں کو یاد کرے اور روئے، اس کی آنکھیں قیامت کے دن نہیں روئیں گی، جب ساری آنکھیں رونے لگیں گی۔] 5[
ثَوابُ البُکاءِ عَلَیهِم
ان پر گریہ کرنے کا ثواب
– ۲۷۷۳ الخصال بإسناده عن أمیر المؤمنین علیه السلام: کُلُّ عَینٍ یَومَ القِیامَةِ باکِیَةٌ وکُلُّ عَینٍ یَومَ القِیامَةِ ساهِرَةٌ إلّا عَینَ مَنِ اختَصَّهُ اللّه ُ بِکَرامَتِهِ وبَکی عَلی ما یُنتَهَکُ مِنَ الحُسَینِ وآلِ مُحَمَّدٍ علیهم السلام].6 [
امیرالمؤمنین علیہ السلام فرماتے ہیں: “قیامت کے دن ہر آنکھ رو رہی ہوگی اور ہر آنکھ جاگ رہی ہوگی، سوائے اس آنکھ کے جو حسین اور آل محمد کے حق میں روئی ہو۔
– ۲۷۷۴.الأمالی للمفید عن الربیع بن المنذر عن أبیه عن الما مِن عَبدٍ قَطَرَت عَیناهُ فینا قَطرَةً أو دَمَعَت عَیناهُ فینا دَمعَةً إلّا بَوَّأَهُ اللّه ُ بِها فِی الجَنَّةِ حُقُبا [7] [8]
امام حسین علیہ السلام نے فرمایا: “جو شخص ہمارے لئے ایک قطرہ آنسو گرا دے، خدا اسے جنت میں قیامت تک مقام دے گا۔
-۲۷۷۵ ثواب الأعمال عن مُحَمَّد بن مسلم عن أبی جعفر [الکانَ عَلِیُّ بنُ الحُسَینِ علیهماالسلامیَقولُ: أیُّما مُؤمِنٍ دَمَعَت عَیناهُ لِقَتلِ الحُسَینِ علیه السلام حَتّی تَسیلَ عَلی خَدِّهِ بَوَّأَهُ اللّه ُ تَعالی بِها فِی الجَنَّةِ غُرَفا یَسکُنُها أحقابا وأیُّما مُؤمِنٍ دَمَعَت عَیناهُ حَتّی تَسیلَ عَلی خَدِّهِ فیما مَسَّنا مِنَ الأَذی مِن عَدُوِّنا فِی الدُّنیا بَوَّأَهُ اللّه ُ فِی الجَنَّةِ مُبَوَّأَ صِدقٍ. وأیُّما مُؤمِنٍ مَسَّهُ أذیً فینا فَدَمَعَت عَیناهُ حَتّی تَسیلَ عَلی خَدِّهِ مِن مَضاضَةِ [۹] ما اُوذِیَ فینا صَرَفَ اللّه ُ عَن وَجهِهِ الأَذی وآمَنَهُ یَومَ القِیامَةِ مِن سَخَطِهِ وَالنّارِ. [۱۰[
یہ حدیث محمد بن مسلم نے امام باقر علیہ السلام سے نقل کی ہے: علی بن الحسین (زین العابدین) علیہ السلام فرمایا: «ہر مؤمن جو حسین علیہ السلام کی شہادت پر اتنے زیادہ اشک بہائے کہ اس کے چہرے پر بہنے لگے، اللہ تعالیٰ اس کے لئے جنت میں ایسا بندو بست کرے گا جہاں وہ بہت سے دن گزارے گا۔ اور ہر مؤمن جو ہمارے دشمنوں کی طرف سے ہمیں دنیا میں ملنے والی اذیت پر اشک بہائے اور اس کا آنسو اس کے چہرے پر جاری ہو جائے، اللہ تعالیٰ اس کے لئے جنت میں ایک مضبوط جگہ مہیا کرے گا۔ اور ہر مؤمن جو ہمارے راستے میں اذیت برداشت کرے اور اس کی آنکھوں سے درد کی وجہ سے اشک بہہ کر اس کے گالوں پر جاری ہو جائے، اللہ تعالیٰ اس کے چہرے کو اذیت سے محفوظ رکھے گا اور قیامت کے دن اسے اپنےعذاب اور آگ سے بچائے گا۔
۲۷۷۶ ثواب الأعمال عن أبی هارون المکفوف عن أبی عبد اللمَن ذُکِرَ الحُسَینُ علیه السلام عِندَهُ فَخَرَجَ مِن عَینَیهِ مِقدارُ جَناحِ ذُبابَةٍ کانَ ثَوابُهُ عَلَی اللّه ِ عَزَّ وجَلَّ ولَم یَرضَ لَهُ بِدونِ الجَنَّةِ] .11[
یہ حدیث ابو ہارون مکفوف نے امام صادق علیہ السلام سے نقل کی ہے: «جو شخص حسین علیہ السلام کا ذکر سنے اور اس کے آنسو مکھی کے پر کی مقدار جتنے ہوں، اللہ تعالیٰ اس کے بدلے کی ذمہ داری اپنے اوپر لے گا اور اللہ کسی چیز سے راضی نہیں ہوگا سوائے جنت کے۔
– ۲۷۷۷ کامل الزیارات عن علیّ بن أبی حمزة عن أبی عبد اللإنَّ البُکاءَ وَالجَزَعَ مَکروهٌ لِلعَبدِ فی کُلِّ ما جَزِعَ ما خَلَا البُکاءَ وَالجَزَعَ عَلَی الحُسَینِ بنِ عَلِیٍّ علیهماالسلام فَإِنَّهُ فیهِ مَأجورٌ] .12[
علی بن ابی حمزہ نے امام صادق علیہ السلام سے نقل کیا ہے: «ہر چیز پر رونا اور بے قرار ہونا انسان کے لیےغیر پسندیدہ ہے، سوائے حسین بن علی علیہ السلام کےاوپر رونے میں رونے اور بے قرار ہونے میں، جو کہ ثواب بھی رکھتا ہے۔
– ۲۷۷۸ الأمالی للطوسی عن مُحَمَّد بن مسلم عن أبی عبد الإنَّ الحُسَینَ بنَ عَلِیٍّ علیه السلام عِندَ رَبِّهِ عَزِّ وجَلَّ یَنظُرُ إلی مَوضِعِ مُعَسکَرِهِ ومَن حَلَّهُ مِنَ الشُّهَداءِ مَعَهُ ویَنظُرُ إلی زُوّارِهِ وهُوَ أعرَفُ بِحالِهِم وبِأَسمایِهِم وأسماءِ آبایِهِم وبِدَرَجاتِهِم ومَنزِلَتِهِم عِندَ اللّه ِ عَزَّ وجَلَّ مِن أحَدِکُم بِوَلَدِهِ وإنَّهُ لَیَری مَن یَبکیهِ فَیَستَغفِرُ لَهُ ویَسأَلُ آباءَهُ علیهم السلام أن یَستَغفِروا لَهُ. ویَقولُ: لَو یَعلَمُ زایِری ما أعَدَّ اللّه ُ لَهُ لَکانَ فَرَحُهُ أکثَرَ مِن جَزَعِهِ [۱۳] وإنَّ زایِرَهُ لَیَنقَلِبُ وما عَلَیهِ مِن ذَنبٍ14
محمد بن مسلم نے امام صادق علیہ السلام سے نقل کیا ہے: «حسین بن علی علیہ السلام اپنے پروردگار کے حضور اپنے خیمےکو اور ہر شہید کو جو ان کے ساتھ تھا، دیکھتے ہیں، اور اپنے زائرین کو بھی دیکھتے ہیں — اور وہ اپنے زائرین کی حالت، ان کے نام، والدین کے نام، ان کے درجات اور ان کے مقام کو اللہ تعالیٰ کے حضور بہتر طور پر جانتے ہیں، جتنا کہ کوئی بھی آپ میں سے اپنے فرزند کی حالت کو جانتا ہے۔ وہ رونے والے کو دیکھتے ہیں اور اس کے لیے بخشش طلب کرتے ہیں، اور اپنے آباؤ اجداد علیہ السلام سے التجا کرتے ہیں کہ وہ بھی اس کے لیے بخشش طلب کریں۔ وہ فرماتے ہیں: ‘میرے زائر کو اگر علم ہوتا کہ اللہ تعالیٰ نے اس کے لیے کیا کچھ فراہم کیا ہے، تو وہ خوشی سے بے قرار ہو جاتا۔’ حسین علیہ السلام کا زائر اس حالت میں واپس آتا ہے کہ اس پر کوئی گناہ نہیں ہوتا۔»
– ۲۷۷۹.کامل الزیارات عن عبد اللّه بن بکیر الأرجانی عن أإنَّهُ [أیِ الحُسَینَ علیه السلام ]لَیَنظُرُ إلی زُوّارِهِ وهُوَ أعرَفُ بِهِم وبِأَسماءِ آبایِهِم وبِدَرَجاتِهِم وبِمَنزِلَتِهِم عِندَ اللّه ِ مِن أحَدِکُم بِوَلَدِهِ وما فی رَحلِهِ [۱۵] وإنَّهُ لَیَری مَن یَبکیهِ فَیَستَغفِرُ لَهُ رَحمَةً لَهُ ویَسأَلُ أباهُ الاِستِغفارَ لَهُ. ویَقولُ: لَو تَعلَمُ أیُّهَا الباکی ما اُعِدَّ لَکَ لَفَرِحتَ أکثَرَ مِمّا جَزِعتَ فَیَستَغفِرُ لَهُ کُلُّ مَن سَمِعَ بُکاءَهُ مِنَ المَلایِکَةِ فِی السَّماءِ وفِی الحایِرِ [۱۶] ویَنقَلِبُ وما عَلَیهِ مِن ذَنبٍ. [۱۷]
عبد اللہ بن بکیر ارجانی نے امام علیہ السلام سے نقل کیا ہے: «حسین علیہ السلام اپنے زائرین کو دیکھتے ہیں — اور وہ ان کی حالت، والدین کے نام، درجات اور اللہ تعالیٰ کے حضور ان کے مقام کو بہتر جانتے ہیں، جتنا کہ کوئی بھی آپ میں سے اپنے فرزند کی حالت اور گھر کی چیزوں کو نہیں جانتا۔ وہ رونے والے کو دیکھتے ہیں اور اس کے لیے رحمت کے ساتھ مغفرت کی بھی التجا کرتے ہیں، اور اپنے آباؤ اجداد علیہ السلام سے التجا کرتے ہیں کہ وہ بھی اس کے لیے بخشش طلب کریں۔ وہ فرماتے ہیں: ‘اے رونے والے! اگر تجھے معلوم ہوتا کہ اللہ تعالیٰ نے تیرے لیے کیا کچھ تیار کیا ہے، تو تجھے بے حد زیادہ خوشی ہوتی۔’ پھر آسمان کے تمام فرشتے اور حرم حسینی کے فرشتے جو اس کی رونے کی آواز سنتے ہیں، اس کے لیے بخشش طلب کرتے ہیں، اور زائر اس حال میں واپس آتا ہے کہ اس پر کوئی گناہ نہیں ہوتا۔»
– ۲۷۸۰.کامل الزیارات عن مسمع بن عبد الملک کردین البصریقالَ لی أبو عَبدِ اللّه ِ علیه السلام: یا مِسمَعُ أنتَ مِن أهلِ العِراقِ أما تَأتی قَبرَ الحُسَینِ علیه السلام قُلتُ: لا أنَا رَجُلٌ مَشهورٌ عِندَ أهلِ البَصرَةِ وعِندَنا مَن یَتبَعُ هَوی هذَا الخَلیفَةِ وعَدُوُّنا کَثیرٌ مِن أهلِ القَبایِلِ مِنَ النُّصّابِ وغَیرِهِم ولَستُ آمَنُهُم أن یَرفَعوا حالی عِندَ وَلَدِ سُلَیمانَ فَیُمَثِّلونَ بی. قالَ لی: أفَما تَذکُرُ ما صُنِعَ بِهِ قُلتُ: نَعَم قالَ: فَتَجزَعُ قُلتُ: إی وَاللّه ِ وأستَعبِرُ [۱۸] لِذلِکَ حَتّی یَری أهلی أثَرَ ذلِکَ عَلَیَّ فَأَمتَنِعُ مِنَ الطَّعامِ حَتّی یَستَبینَ ذلِکَ فی وَجهی. قالَ: رَحِمَ اللّه ُ دَمعَتَکَ أما أنَّکَ مِنَ الَّذینَ یُعَدّونَ مِن أهلِ الجَزَعِ لَنا وَالَّذینَ یَفرَحونَ لِفَرَحِنا ویَحزَنونَ لِحُزنِنا ویَخافونَ لِخَوفِنا ویَأمَنونَ إذا آمَنّا أما أنَّکَ سَتَری عِندَ مَوتِکَ حُضورَ آبایی لَکَ ووَصِیَّتَهُم مَلَکَ المَوتِ بِکَ وما یَلقَونَکَ بِهِ مِنَ البِشارَةِ أفضَلُ ومَلَکُ المَوتِ أرَقُّ عَلَیکَ وأشَدُّ رَحمَةً لَکَ مِنَ الاُمِّ الشَّفیقَةِ عَلی وَلَدِها. قالَ: ثُمَّ استَعبَرَ وَاستَعبَرتُ مَعَهُ. فَقالَ: الحَمدُ للّه ِِ الَّذی فَضَّلَنا عَلی خَلقِهِ بِالرَّحمَةِ وخَصَّنا أهلَ البَیتِ بِالرَّحمَةِ. یا مِسمَعُ! إنَّ الأَرضَ وَالسَّماءَ لَتَبکی مُنذُ قُتِلَ أمیرُ المُؤمِنینَ علیه السلام رَحمَةً لَنا وما بَکی لَنا مِنَ المَلایِکَةِ أکثَرُ وما رَقَأَت [۱۹] دُموعُ المَلایِکَةِ مُنذُ قُتِلنا وما بَکی أحَدٌ رَحمَةً لَنا ولِما لَقینا إلّا رَحِمَهُ اللّه ُ قَبلَ أن تَخرُجَ الدَّمعَةُ مِن عَینِهِ فَإِذا سالَت دُموعُهُ عَلی خَدِّهِ فَلَو أنَّ قَطرَةً مِن دُموعِهِ سَقَطَت فی جَهَنَّمَ لَأَطفَأَت حَرَّها حَتّی لا یوجَدُ لَها حَرٌّ وإنَّ الموجَعَ قَلبُهُ لَنا لَیَفرَحُ یَومَ یَرانا عِندَ مَوتِهِ فَرحَةً لا تَزالُ تِلکَ الفَرحَةُ فی قَلبِهِ حَتّی یَرِدَ عَلَینَا الحَوضَ وإنَّ الکَوثَرَ لَیَفرَحُ بِمُحِبِّنا إذا وَرَدَ عَلَیهِ حَتّی أنَّهُ لَیُذیقُهُ مِن ضُروبِ الطَّعامِ ما لا یَشتَهی أن یَصدُرَ عَنهُ. یا مِسمَعُ! مَن شَرِبَ مِنهُ شَربَةً لَم یَظمَأ بَعدَها أبَدا ولَم یَستَقِ بَعدَها أبَدا وهُوَ فی بردِ الکافورِ وریحِ المِسکِ وطَعمِ الزَّنجَبیلِ أحلی مِنَ العَسَلِ وألیَنُ مِنَ الزَّبَدِ وأصفی مِنَ الدَّمعِ وأذکی مِنَ العَنبَرِ یَخرُجُ مِن تَسنیمٍ [۲۰] ویَمُرُّ بِأَنهارِ الجِنانِ یَجری عَلی رَضراضِ [۲۱] الدُّرِّ وَالیاقوتِ فیهِ مِنَ القُدحانِ أکثَرُ مِن عَدَدِ نُجومِ السَّماءِ یوجَدُ ریحُهُ مِن مَسیرَةِ ألفِ عامٍ قُدحانُهُ مِنَ الذَّهَبِ وَالفِضَّةِ وألوانِ الجَوهَرِ یَفوحُ فی وَجهِ الشّارِبِ مِنهُ کُلُّ فایِحَةٍ حَتّی یَقولَ الشّارِبُ مِنهُ: یا لَیتَنی تُرِکتُ هاهُنا لا أبغی بِهذا بَدَلاً ولا عَنهُ تَحویلاً. أما إنَّکَ ـ یا کِردینُ ـ مِمَّن تَروی مِنهُ وما مِن عَینٍ بَکَت لَنا إلّا نُعِّمَت بِالنَّظَرِ إلَی الکَوثَرِ وسُقِیَت مِنهُ مَن أحَبَّنا وإنَّ الشّارِبَ مِنهُ لَیُعطی مِنَ اللَّذَّةِ وَالطَّعمِ وَالشَّهوَةِ لَهُ أکثَرَ مِمّا یُعطاهُ مَن هُوَ دونَهُ فی حُبِّنا وإنَّ عَلَی الکَوثَرِ أمیرَ المُؤمِنینَ علیه السلام وفی یَدِهِ عَصاً مِن عَوسَجٍ [۲۲] یُحَطِّمُ بِها أعداءَنا فَیَقولُ الرَّجُلُ مِنهُم: إنّی أشهَدُ الشَّهادَتَینِ فَیَقولُ: اِنطَلِق إلی إمامِکَ فُلانٍ فَاسأَلهُ أن یَشفَعَ لَکَ فَیَقولُ: یَتَبَرَّأُ مِنّی إمامِیَ الَّذی تَذکُرُهُ فَیقولُ: اِرجِع إلی وَرایِکَ فَقُل لِلَّذی کُنتَ تَتَوَلّاهُ وتُقَدِّمُهُ عَلَی الخَلقِ فَاسأَلهُ إذا کاَنَ خَیرَ الخَلقِ عِندَکَ أن یَشفَعَ لَکَ فَإِنَّ خَیرَ الخَلقِ حَقیقٌ أن لا یُرَدَّ إذا شُفِّعَ فَیَقولُ: إنّی أهلِکُ عَطَشا فَیَقولُ لَهُ: زادَکَ اللّه ُ ظَمَأً وزادَکَ اللّه ُ عَطَشا. قُلتُ: جُعِلتُ فِداکَ! وکَیفَ یَقدِرُ عَلَی الدُّنُوِّ مِنَ الحَوضِ ولَم یَقدِر عَلَیهِ غَیرُهُ فَقالَ: وَرِعَ عَن أشیاءَ قَبیحَةٍ وکَفَّ عَن شَتمِنا أهلَ البَیتِ إذا ذَکَرَنا وتَرَکَ أشیاءَ اجتَری عَلَیها غَیرُهُ ولَیسَ ذلِکَ لِحُبِّنا ولا لِهَویً مِنهُ لَنا ولکِن ذلِکَ لِشِدَّةِ اجتِهادِهِ فی عِبادَتِهِ وتَدَیُّنِهِ ولِما قَد شُغِلَ نَفسُهُ بِهِ عَن ذِکرِ النّاسِ فَأَمّا قَلبُهُ فَمُنافِقٌ ودینُهُ النَّصبُ بِاتِّباعِ أهلِ النَّصبِ ووِلایَةِ الماضینَ. [۲۳]
مسمع بن عبد الملک کردین بصری نے امام صادق علیہ السلام سے نقل کیا ہے: امام علیہ السلام نے فرمایا: «اے مسمع! تم عراقی ہو۔ کیا تم حسین علیہ السلام کی قبر کے پاس جاؤ گے؟» میں نے کہا: نہیں، میں بصرہ میں مشہور آدمی ہوں اور ہمارے ارد گرد ایسے لوگ ہیں جو اس خلیفہ کے حامی ہیں، اور ہمارے دشمن بھی ناصبی قبائل اور دیگر لوگوں میں بہت زیادہ ہیں۔ میں ان سے محفوظ نہیں ہوں کہ وہ میرے اس کام کوکو ابن سلیمان تک نہ پہنچا دیں اور مجھے قتل نہ کر دیں! امام علیہ السلام نے فرمایا: «کیا تم حسین علیہ السلام کے مصائب کو یاد کرتے ہو؟» میں نے کہا: جی ہاں، میں یاد کرتا ہوں۔ فرمایا: «کیا تم بےقراری بھی کرتے ہو؟» میں نے کہا: جی ہاں، خدا کی قسم، میں روتا ہوں یہاں تک کہ میرے گھر والے بھی اس کا اثر دیکھتے ہیں اور کھانا پینا چھوڑ دیتا ہوں یہاں تک کہ میرے چہرے پر بھی ظا ہر ہوجاتاہے۔ فرمایا: «اللہ تمہارے آنسوؤں پر رحمت نازل فرمائے! تم ان لوگوں میں سے ہو جو ہمارے مصائب پر روتے ہیں، جو ہماری خوشیوں میں خوش ہوتے ہیں اور ہمارے غموں میں غمگین ہوتے ہیں، جو ہماری پریشانیوں میں پریشان ہوتے ہیں اور ہماری سلامتی میں محفوظ رہتے ہیں۔ تم اپنی موت کے وقت میرے آباؤ اجداد کو اپنے پاس دیکھو گے اور وہ موت کے فرشتہ کو تمہیں پہنچاننے کے لیے سفارش کریں گے اور جو بشارتیں وہ تمہیں دیں گے وہ سب سے بہتر ہوں گی اور فرشتہ موت تم پر ماں کی محبت سے زیادہ مہربان اور شفقت کرنے والا ہوگا۔»
پھر امام علیہ السلام رونے لگے اور میں بھی ان کے ساتھ رونے لگا۔ امام علیہ السلام نے فرمایا: «تمام تعریف اللہ کے لیے ہے جو ہمیں اپنے مخلوقات پر رحمت سے برتری عطا فرمائی اور اہل بیت کو خاص رحمت سے نوازا۔ اے مسمع! زمین و آسمان اُس وقت سے ہمارے لیے ماتم کر رہے ہیں جب سے امیر المؤمنین علیہ السلام شہید ہوئے، لیکن فرشتوں کا ہمارے لیے رونا زیادہ ہے اور فرشتوں کے آنسو اُس وقت سے رکنے نہیں پائے۔ کوئی بھی شخص ہماری خاطر روتا ہے یا ہمارے مصائب پر گریہ کرتا ہے، اللہ اس کے آنسوؤں کے نکلنے سے پہلے ہی اس پر رحم کرتا ہے اور جب آنسو چہرے پر بہتے ہیں تو اگر اس کا کوئی قطرہ جہنم میں گرے تو جہنم کی حرارت کو ختم کردے گا اور وہاں کوئی گرمی باقی نہیں رہے گی۔ اور جو شخص ہمارے لیے دل سے روتا ہے، وہ موت کے وقت ہمیں دیکھے گا اور ایسی خوشی پائے گا جو ہمیشہ اس کے دل میں رہے گی، اور حوض کوثر کے پاس آتے وقت اس خوشی کے ساتھ داخل ہوگا اور کوثر اس کے دیدار سے خوش ہو جائے گا، یہاں تک کہ اسے مختلف قسم کے کھانوں سے نوازے گا جسے وہ چھوڑنا نہیں چاہے گا۔ اے مسمع! جو کوئی بھی اس حوض کا ایک گھونٹ پیے گا، وہ کبھی بھی پیاسا نہیں ہوگا اور اسے پانی کی ضرورت نہیں پڑے گی۔ وہ پانی کافور کی ٹھنڈک، مشک کی خوشبو، ادرک کا ذائقہ، شہد سے زیادہ میٹھا، مکھن سے نرم اور آنسو سے زیادہ صاف ہے، یہ تسنیم کے چشمے سے نکلتا ہے اور جنت کی نہروں میں بہتا ہے اور دُرّ و یاقوت کی چٹانوں پر بہتا ہے۔ اس میں اتنے زیادہ جام ہیں جتنے آسمان کے ستارے ہیں اور اس کی خوشبو ہزار سال کی دوری سے آتی ہے اور جام سونے اور چاندی کے ہیں اور جواہر کے رنگوں کے ہیں۔ اس کی خوشبو پینے والے کے چہرے پر محسوس ہوتی ہے کہ وہ کہےگا: کاش میں یہی پر رک جاتا اور کوئی اور جگہ نہ جاتا! جان لو کہ تم ـ اے کردین ـ ان لوگوں میں سے ہو جو اس سے سیراب ہوں گے اور کوئی بھی آنکھ جو ہمارے لیے روتی ہے، اسے کوثر دیکھنے کا لطف ملے گا، اور جو ہمارا دوست ہے، اسے بھی وہی پلایا جائے گا اور اس کا لطف، ذائقہ، اور اشتہا اس سے بھی زیادہ ہوگی جو دوسروں کو محبت کی وجہ سے حاصل ہوتی ہے۔ اور جان لو کہ حوض کوثر کا مالک امیر المؤمنین علیہ السلام ہیں اور ان کے ہاتھ میں ایک تمشک( رس بھری پودے کی لکڑی) کی لکڑی ہے جس سے وہ اپنے دشمنوں کو ماریں گے۔ ایک آدمی ان میں سے کہے گا: میں نے خدا کے ایک ہونے اور پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی رسالت کی گواہی دی ہے۔ وہ فرمائیں گے: جاؤ اپنے پیشوا کے پاس اور اس سے شفاعت طلب کرو۔ وہ کہے گا: میرا پیشوا جن کا آپ ذکر کر رہے ہیں، مجھ سے بیزار ہے۔ وہ فرمائیں گے: واپس جاؤ اور اس شخص سے کہو جسے تم سب سے بہتر سمجھتے تھے، اور اس سے کہو کہ چونکہ وہ سب سے بہتر مخلوق ہے، اس کی شفاعت قبول کرنی چاہیے۔ پھر وہ آدمی کہے گا: میں پیاس سے مر جاؤں گا۔ امام علیہ السلام فرماتے ہیں: اللہ تمہاری پیاس کو بڑھا دے اور تمہیں پانی کی زیادہ ضرورت پڑے!» میں نے کہا: آُپ پہ قربان ہوجاؤں! وہ (اہل بیت علیہم السلام کا دشمن) حوض کوثر کے قریب کیسے آ سکتا ہے جبکہ اس کے علاوہ کوئی بھی دشمن اس کے قریب نہیں جا سکتا؟ امام علیہ السلام نے فرمایا: «کیونکہ اس نے برے اعمال سے پرہیز کیا اور ہمارے اہل بیت کے بارے میں بدگویی سے گریز کیا، حالانکہ دوسرے لوگ ان میں جرات کرتے رہے۔ یہ سب کچھ اس کی ہمارے ساتھ محبت یا رغبت کی وجہ سے نہیں بلکہ اس کی عبادت اور دینداری کی کوششوں کی وجہ سے تھا، اور اس کے عبادت میں مشغول ہونے کی وجہ سے وہ دوسروں سے پیچھے رہا، مگر اس کا دل منافق تھا اور اس کا دین اہلبیت سے دشمنی کی بنیا د پہ تھا اور اہل دشمن کے اتباع میں تھا اور انکی ولایت کو قبو ل کرتا تھا
[۱]الکَرْب: الغَمُّ الذی یأخذ بالنفس (الصحاح: ج ۱ ص ۲۱۱ «کرب»)
[۲] ثواب الأعمال: ص ۱۲۳ ح ۵۲ کامل الزیارات: ص ۲۱۶ ح ۳۱۴ و فیه «علیَّ» بدل «علی اللّه » و «ردّه اللّه وأقلبه» بدل «ردّه وقلبه» بحار الأنوار: ج ۴۴ ص ۲۷۹ ح ۶.
[۳] الکافی: ج ۲ ص ۲۲۶ ح ۱۶ الأمالی للمفید: ص ۳۳۸ ح ۳ الأمالی للطوسی: ص ۱۱۵ ح ۱۷۸ بشارة المصطفی: ص ۱۰۵ کلّها عن أبان بن تغلب ولیس فیها «لنا المغتم» بحار الأنوار: ج ۴۴ ص ۲۷۸ ح ۴.
[۴] عیون أخبار الرضا علیه السلام: ج ۱ ص ۲۹۴ ح ۴۸ الأمالی للصدوق: ص ۱۳۱ ح ۱۱۹ بزیادة «وبکی لما ارتکب منّا کان معنا فی درجتنا یوم القیامة ومن ذکر بمصابنا» بعد «مصابنا» مکارم الأخلاق: ج ۲ ص ۹۳ ح ۲۲۶۳ بحار الأنوار: ج ۴۴ ص ۲۷۸ ح ۱.
[۵] در الأمالی صدوق پس از عبارت «هر کس مصیبتهای ما را یاد کند» این افزوده وجود دارد: «و به خاطر رفتاری که با ما شد بگِرید در روز قیامت همراه ما و در رتبه ما خواهد بود و هر کس مصیبت ما را یاد کند»
[۶] الخصال: ص ۶۲۵ ح ۱۰ عن أبی بصیر و مُحَمَّد بن مسلم عن الإمام الصادق عن آبایه علیهم السلام عیون الحکم والمواعظ: ص ۳۹۸ ح ۶۷۴۷ بحار الأنوار: ج ۱۰ ص ۱۰۳ ح ۱.
[۷] الأمالی للمفید: ص ۳۴۰ ح ۶ الأمالی للطوسی: ص ۱۱۷ ح ۱۸۱ بشارة المصطفی: ص ۶۲ فضل زیارة الحسین علیه السلام: ص ۸۵ ح ۷۶ وفیه «أثواه» بدل «بوَّأه» العمدة: ص ۳۹۶ ح ۷۹۴ ولیس فیه «حقبا» بحار الأنوار: ج ۴۴ ص ۲۷۹ ح ۸ ذخایر العقبی: ص ۵۲ نقلاً عن أحمد فی المناقب نحوه.
[۸] الحِقْبَةُ: واحدة الحِقَب وهی السنون والحُقُبُ: الدهر والأحْقابُ: الدُّهور (الصحاح: ج ۱ ص ۱۱۴ «حقب»)
[۹] المَضَضُ: وجع المصیبة تَمَضَّ مضضا ومضاضة (القاموس المحیط: ج ۲ ص ۳۴۴ «مضض»)
[۱۰] ثواب الأعمال: ص ۱۰۸ ح ۱ تفسیر القمیّ: ج ۲ ص ۲۹۱ کامل الزیارات: ص ۲۰۱ ح ۲۸۵ الملهوف: ص ۸۶ مثیر الأحزان: ص ۱۴ ولیس فیهما من «فدمعت» إلی «اُوذی فینا» عوالی اللآلی: ج ۴ ص ۹۱ ح ۱۲۶ کلاهما عن الإمام زین العابدین علیه السلام بحار الأنوار: ج ۴۴ ص ۲۸۱.
[۱۱] ثواب الأعمال: ص ۱۰۹ ح ۱ کامل الزیارات: ص ۲۰۲ ح ۲۸۷ بحار الأنوار: ج ۴۴ ص ۲۸۸ ح ۲۸.
[۱۲] کامل الزیارات: ص ۲۰۱ ح ۲۸۶ بحار الأنوار: ج ۴۴ ص ۲۹۱ ح ۳۲.
[۱۳] الجَزَعُ: الحُزْنُ والخوف (النهایة: ج ۱ ص ۲۶۹ «جزع»)
[۱۴] الأمالی للطوسی: ص ۵۵ ح ۷۴ بشارة المصطفی: ص ۷۸ بحار الأنوار: ج ۴۴ ص ۲۸۱ ح ۱۳.
[۱۵] الرِّحال: جمع رَحْل یعنی الدور والمساکن والمنازل (النهایة: ج ۲ ص ۲۰۹ «رحل»)
[۱۶] الحَایرُ: یُراد به حایر الحسین علیه السلام وهو ما حواه سور المشهد الحسینی علی مشرّفه السلام (مجمع البحرین: ج ۱ ص ۴۷۹ «حیر»).
[۱۷] کامل الزیارات: ص ۵۴۴ ح ۸۳۰ بحار الأنوار: ج ۲۵ ص ۳۷۶ ح ۲۴.
[۱۸] اسْتَعْبَرَ: هو استفعل من العَبْرَة وهی تحلّب الدمع (النهایة: ج ۳ ص ۱۷۱ «عبر»)
[۱۹] رَقَأ الدّمْعُ: سَکَنَ (الصحاح: ج ۱ ص ۵۳ «رقأ»)
[۲۰] تَسْنیم: قیل: عین فی الجنّة رفیعة القدر (مفردات ألفاظ القرآن: ص ۴۲۹ «سنم»)
[۲۱] الرَّضْراضُ: الحَصَی الصغار (النهایة: ج ۲ ص ۲۲۹ «رضرض»)
[۲۲] العَوْسَجُ: شجر من شجر الشوک… یصلب عوده (تاج العروس: ج ۳ ص ۴۳۳ «عسج»)
[۲۳] کامل الزیارات: ص ۲۰۳ ح ۲۹۱ بحار الأنوار: ج ۴۴ ص ۲۸۹ ح ۳۱.