ماہ ذی الحجہ: اہلبیتؑ کی عظمتوں کا مہینہ

ماہ ذی الحجہ کا شمار اسلامی کیلنڈر کے ان چار مہینوں میں ہوتا ہے جن کو محترم سمجھا گیا ہے۔ اس ماہ مبارک میں حج بیت اللہ کی عظیم عبادت کے ایام شامل ہیں۔ اس ماہ مبارک کے ابتدائی دس دن اور دس راتیں اپنی خاص فضیلت رکھتی ہیں، جن میں خاص طور سے نمازیں اور اذکار کے ورد کا ذکر ملتا ہے۔ روز عرفہ اور شب عرفہ کی فضیلت صرف حجّاج کرام کے لیے ہی نہیں بلکہ تمام مومنین کے لیے بھی عام ہے۔ جہاں طواف بیت اللہ، منیٰ میں قیام، سعی وغیرہ کا اجر و ثواب ہے وہیں اس ماہ مبارک میں روز عرفہ (٩ ذی الحجہ) کو سرکار سید الشہداءؑ کی کربلائے معلّٰی میں زیارت کا ثواب سال کے دوسرے دنوں سے کہیں زیادہ بڑھ جاتا ہے۔ اور تو اور سال کا یہ وہ مہینہ ہے جس کے دامن میں مومنین کے لیے تین مبارک عیدیں بھی ہیں۔ مختصر یہ کہ یہ مہینہ عبادات کے اجر و ثواب کو بھی حد درجہ بڑھا دیتا ہے۔

اس مہینہ کو ایک خصوصیت یہ بھی حاصل ہے کہ یہ ماہ مبارک اہلبیت اطہار کے دوستوں کی خوشی کو بڑھا دیتا ہے اور ان کے دشمنوں کی رسوائ اور مایوسی کو ظاہر کرتا ہے۔ اس ماہ میں اللہ تبارک و تعالی نے اہل بیت علیہم السلام کو خصوصی طور پر فضیلتیں عطا فرمائ ہیں اور ان کے دشمنوں کو ذلیل کیا ہے۔ درج ذیل فہرست میں ان تاریخی مناسبتوں کو بیان کیا گیا ہے جن میں اللہ نے اہل بیت علیہم السلام کو خصوصی فضیلتیں بخشی ہیں اور آپ کے دشمنوں کو ذلیل کیا ہے۔

ایک ذی الحجہ، ٢ ہجری:
حضرت امیرالمومنین علی ابن ابی طالب علیہ السلام کا جناب فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا سے نکاح ہوا۔ یہ نکاح دو ہجری میں جنگ بدر کے بعد انجام پایا تھا۔
یہ تاریخ شیعوں کے لیے خصوصی اہمیت رکھتی ہے۔ تاریخ بتاتی ہے کہ جناب سیدہؐ نے مرضئ پروردگار کے تحت تمام دوسرے رشتوں کو ٹھکرا دیا جن میں بڑوں بڑوں کے نام شامل ہیں ۔ پھر رسولؐ خدا کو یہ حکم خدا ہوا کہ “اے میرے حبیب میں نے آسمان پر علیؑ و فاطمہؑ کا عقد پڑھ دیا ہے تم بھی زمین پر ان کا نکاح پڑھ دو۔”

یکم ذی الحجہ ٩ ہجری:
یہی وہ تاریخ ہے جب بحکم خدا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ابوبکر کو تبلیغِ آیات براءت سے واپس بلوایا اور حضرت امیرالمومنین علیہ السلام کو بحیثیت ‘نفسِ رسولؐ’ ان آیات کی تبلیغ کے لیے مکہ بھیجا۔
(مناقب علی ابن ابی طالبً ج 2 ص 144،الغدیر ج 6 ص350 – 337۔ اہل تسنن کتاب مسند احمد ، جلد 1، ص151، ج 3 ،ص 212، 283،سنن ترمذی، ج 3، ص339،فتح الباری ,ج 8, ص 242- 239 خصائص , ص 91)
یکم ذی الحجہ کے یہ دونوں تاریخی واقعات (جناب زہرا سے نکاح اور سورہ براءت کی تبلیغ) مخالفین پر حضرت امیرالمؤمنین علیہ السلام کی فضیلت کو واضح طور پر بیان کر رہے ہیں۔ ان دونوں واقعات میں خدا کی مرضی کا براہ راست دخل تھا اس لیے یہ ثابت ہوجاتا ہے کہ اللہ تبارک و تعالی نے دوسروں کو امیر المومنین علیہ السلام کے مقابلے میں مسترد کیا ہے.

10 ذی الحجہ – عید الاضحیٰ:
دونوں عیدیں عیدالفطر اور عیدالاضحیٰ درحقیقت اللّٰہ کی حجّت، جو کہ آل محمد علیہم السلام ہیں، کے ساتھ ہی صحیح طور پر منائی جاسکتی ہیں۔ مومنین کو ان دونوں عیدوں میں اپنے وقت کے حجتِ خدا کی طرف متوجّہ ہونے کا حکم دیا گیا ہے، کیونکہ اللّٰہ تبارک و تعالی نے اہلبیتؑ کے احترام میں ہی ان دنوں کو مسلمانوں کے لئے عید بنایا ہے۔ ان عیدوں میں تذکرہ اہل بیت علیھم السلام کو دو اہم اعمال کے ذریعے ظاہر کیا گیا ہے جن کے بجا لانے کو مستحب قرار دیا گیا ہے۔ ایک امام زمانہ علیہ السلام کے ظہور کی تعجیل کے لیے دعائے ندبہ کا پڑھنا مستحب قرار دیا گیا ہے تو دوسرے قریب یا دور سے زیارت سید الشہداء امام حسین علیہ السلام کا روز عید پڑھنا۔ جیسا کہ روایت میں ملتا ہے کہ جو کوئی مومن عیدالفطر یا عیدالاضحیٰ کے دن امام حسین علیہ السلام کی زیارت پڑھتا ہے، ایسا ہے گویا اس نے عرش پر اللّٰہ کی زیارت کی ہو۔
(مصباح الزائر، ص 172)

14 ذی الحجہ، سنہ 7 ہجری:
تاریخ بتاتی ہے کہ جب آیت نازل ہوئ کہ “(اے پیغمبر) اقربا کو ان کا حق دے دیجیے۔” تو آنحضرتؐ نے جبرئیل سے اس کی تفصیل دریافت کی تو انھوں نے حکم خدا سناتے ہوئے کہہا کہ آپؐ اپنی بیٹی فاطمہ (س) کو باغ فدک دے دیجیے۔ خدا کے نزدیک یہ باغ ان کا حق ہے،چنانچہ رسول اکرم نے اسی روز یعنی ١۴ ذی الحجہ کو بحکم خدا باغ فدک اپنی بیٹی کو ہبہ کیا تھا۔
•السیرة النبویة، ج‏۲، ص۳۲۸؛
• دلائل النبوة، ج‏۴، ص۱۹۷

18 ذی الحجہ، عید اکبر روز عید غدیر:
یہ وہ دن ہے، جس دن رسولؐ اللہ نے حضرت علیؑ کو اپنے جانشین ہونے کا اعلان امت کے مجمع میں کیا تھا اور حضرت علیؑ کو امت کا مولا بتاتے ہوئے دین کے کامل ہونے کا اعلان کیا تھا۔ لہٰذا اسی دن دین کامل ہوا ہے، اللہ کی نمعتوں کا اتمام ہوا ہے اور اللہ دینِ اسلام سے راضی ہو گیا۔ یہ دن اسلامی کیلینڈر میں سب سے بڑی عید- عید اکبر کا دن ہے۔ اس روز امیر المومنینؑ کی تاج پوشی کے ساتھ ساتھ رسولؐ اللہ نے امت کو گمراہی سے بچنے کے لیے ‘ثقلین’ – اہلبیتؑ اور قرآن کے دامن سے متمسک رہنے کی نصیحت بھی دہرائ۔ اگر امت اپنے رسولؐ کے اس فرمان پر عمل کرتی تو کبھی نہ گمراہ ہوتی اور نہ ہی تفرقے میں پڑتی۔
یہی وہ مناسبت تھی جب منکر ولایتِ علیؑ ابن ابی طالبؑ پر آسمان سے پتھر گرا اور اس کی طغیانی اپنے انجام کو پہنچی۔

24 ذی الحجہ، آیت مباہلہ (٣:١٦١) کا نزول:
عیسائیوں سے احتجاج کے دوران اللّٰہ نے آل محمد علیھم السلام کی حمایت میں اس آیت کو نازل فرمایا ۔
“علم کے آجانے کے بعد جو لوگ تم سے کٹ حجتی کریں، ان سے کہہ دیجیے کہ آؤ ہم لوگ اپنے اپنے فرزند ، اپنی اپنی عورتوں اور اپنے اپنے نفسوں کو بلائیں اور پھر خدا کی بارگاہ میں دعا کریں اور جھوٹوں پر خدا کی لعنت قرار دیں ۔”
(سورہ آل عمران ( 3 )، آیت نمبر 61)
طرفین کے علماء کا اتفاق ہے کہ اس آیت کا مصداق بن کر علی علیہ السلام ، جناب فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا ، امام حسن علیہ السلام السلام ، امام حسین علیہ السلام ، رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ نجران کے عیسائیوں کے مقابل مباہلہ کے لیے گئے تھے۔
حوالہ جات:
• الاحتجاج، ج 2 ، ص 392
• اہل تسنن کے حوالے:
• جامع الترمذی ، کتاب 47 ، حدیث نمبر 3269 ۔
• جامع البیان الطبری ج 3 ، ص 212 – 211 ۔
• تفسیر کشاف ، ج 1، ص369 – 368 .
• تفسیر القرطبی ، ج 4 ، ص 104
• تفسیر درالمنثور ، ج 27 ، ص39 .
• شواھد التنزیل ، ج 1 ، ص 165۔

24 ذی الحجہ ، آیت ولایت(۵:۵۵) کا نزول:
اسی دن امیر المومنین علیہ السلام نے اپنی انگوٹھی حالت نماز میں سائل کو دی تھی جس کی طرف اللّٰہ تبارک و تعالی نے اس آیت میں اشارہ کیا ہے ۔
” بس تمھارا ولی اللّٰہ ہے اور اس کا رسولؐ اور وہ صاحبان ایمان، جو نماز قائم کرتے ہیں اور حالت رکوع میں زکات دیتے ہیں۔” (مائدہ:55)
•مفاتیح الجنان ، 24 ذالحجہ کی فضیلت کے ذیل میں
•اہل تسنن حوالے:
•تفسیر القرآن العظیم ابن کثیر (ابن تیمیہ کا شاگرد ) سورہ مائدہ 5 : 55 کے ذیل میں ۔
•در المنثور ، سورہ مائدہ 5 : 55 کے ذیل میں ۔
•تفسیر الثعلبی ، سورہ مائدہ آیت نمبر 5 : 55 کے ذیل میں.
•شواہد تنزیل، سورہ مائدہ 5 : 55 کے ذیل میں ۔
•جامع البیان / تفسیر طبری ، سورہ مائدہ 5 : 55 کے ذیل میں ۔
•النور المشتل ، ابونعیم ، صفحہ نمبر 73 ۔
•مناقب علی ابن ابی طالب ، ابن مردویہ ص 231 ۔
•تفسیر مقاتل ابن سلیمان ، سورہ مائدہ 5 : 55 کے ذیل میں۔

25 ذی الحجہ ، پنجتنِ پاک کی فضیلت میں سورہ انسان( سورہ دھر) کا نزول:
اس دن اللہ تبارک و تعالی نے امیرالمومنینؑ، جناب زہراؑ، امام حسنؑ ، اور امام حسینؑ کی شان میں سورہ دھر ( 76 )کو نازل کیا ۔ جب آپ حضرات نے تین دن مسلسل روزہ رکھا اور گھر میں موجود سامان افطار کو مسکین ، یتیم اور اسیروں کو دے دیا۔ دن کے آخر میں اللّٰہ تبارک و تعالی نے آل محمدؐ کے لیے جنت کے کھانوں کا انتظام کیا۔ جس سے آپ حضرات نے افطار کیا۔
•مفاتیح الجنان 25 ذالحجہ کے اعمال کے ذیل میں ۔
•مصباح المتہجد ، جلد 2 ، نمبر 712 ۔
•مصباح الکفعمی ، جلد 2 ، صفحہ نمبر 601۔
•تفسیر البرہان ، سورہ دہر کے ذیل میں ۔
•زادالمعاد ، صفحہ نمبر 301 ۔
•بحارالانوار ، ج 35 ، ص 242 ۔
•مناقب شہر آشوب ، جلد 3 ، ص 103 ۔
•اہل تسنن حوالاجات :
•تفسیر الثعلبی ، ج 10 ، ص 101 ۔
•شواہد التنزیل ، ج 2 ، ص 403 ۔
•مناقب علی بن ابی طالب علیھما السلام ابن مردویہ ، ص 341 ۔
•تفسیر القرطبی ، ج 9 ، ص 130 ۔
•الدرالمنثور ، ج 6 ، ص 299.

یقینًا ماہ ذی الحجہ بڑی فضیلتوں والا مہینہ ہے، جس کی اہمیت کو اکثریت فراموش کر دیتی ہے۔ تاریخ کے آینے میں دیکھا جائے تو یہ وہ مہینہ ہے جس میں اللّٰہ نے پنجتنِ پاک علیھم السلام کو اور خاص طور پر امیر المومنینؑ کو مخصوص فضائل و کرامات عطا فر مائے ہیں۔ اسی ماہ مبارک میں امیر کائنات کی ‘بلا فصل ولایت’ کا کھلے عام اعلان ہوا ہے جس میں میدان غدیر کے اعلان کے ساتھ ساتھ آیاتِ قرآنی کا نزول بھی شامل ہے۔ اتنا ہی نہیں بلکہ اسی ماہ کے ایام میں آپؑ کی ولایت کے منکرین اور غاصبین کو اللہ نے رسوا بھی کیا ہے۔

لہذا ہر ایک کو اپنا اپنا جائزہ لینا چاہئے کہ ولایت امیرالمومنین علیہ السلام کی نسبت سے کس طرح کا رشتہ رکھتا ہے، تاکہ دنیا ہی میں سعادت مندی اور بدبختی کا تعین ہو جائے۔

Short URL : https://saqlain.org/qt4g