مسلمانوں کے یہاں ابتدا سے دو ایسے لفظوں کا چلن ہے ، جو وہ اپنے مخالف کے لیے بطور گالی استعمال کرتے ہیں۔ ایک ‘رافضی’ اور دوسرا ‘ناصبی’۔ رافضی لفظ کا اطلاق وہ اس شخص پر کرتے ہیں جو ان کے کسی خلیفہ کو برا بھلا کہتا ہو یا ان کی توہین کرتا ہو. ‘ناصبی’ لفظ وہ اس شخص کے لیے استعمال کرتے ہیں جو اہلبیتِ پیغمبرؐ سے دشمنی رکھتا ہو اور ان کو برا بھلا کہتا ہو۔
تاریخ گواہ ہے کہ جس شخص نے سب سے زیادہ اہلبیت علیہم السلام سے دشمنی کی اور اس کو بڑھایا ، وہ معاویہ ہے
۔ معاویہ نہ صرف کٹر دشمن علیؑ اور اولادِ علیؑ تھا بلکہ اس نے دوسروں کو بھی حضرت علیؑ اور ان کی اولاد سے دشمنی کرنے پر آمادہ کیا اس نے تو مسلمانوں میں ناصبیت کو ایک رواج بنا کر رکھ دیا تھا ، جس کی کوئی بخشش نہیں ہے ۔ معاویہ ابن ابوسفیان نے اس عمل کو اپنی حکومت میں ایک مذہبی فریضہ بنا دیا تھا۔ معاویہ نے جمعہ اور عیدین کے خطبوں میں امیرالمومنین حضرت علیؑ اور ان کی آلِ پاک پر لعنت کرنے کا رواج شروع کیا جو ستّر سال تک جاری رہا۔ اس ضمن میں صحیح مسلم کی یہ روایت بطور ثبوت کافی ہے۔
• عن عامر بن سعد بن أبي وقاص، عن أبیه، قال أمر معاویة بن أبي سفیان سعدا فقال ما منعك أن تسب أبا التراب فقال أما ما ذكرت ثالثا قالھن له رسول اللہ صلى اللہ علیه وسلم فلن أسبه۔۔۔۔
جب معاویہ نے سعد بن ابی وقاص کو گورنر بنایا تو سعد کو حکم دیا اور کہا کہ تمھیں کس چیز نے روکا ہے کہ تم ابو تراب (یعنی علیؑ ابن ابی طالبؑ) پر سب نہ کرو ۔ اس پر سعد نے کہا میں نے رسول (ص) سے علیؑ کے متعلق تین ایسی باتیں سنی ہیں کہ جس کے بعد میں
کبھی علیؐ پر سب نہیں کر سکتا ۔۔۔
(صحیح مسلم، کتاب الفضائل الصحابہ، باب من فضائل علی بن ابی طالب)
• اسی روایت کو اور وضاحت کے ساتھ ابن حجر نے اپنی کتاب میں نقل کیا ہے۔ حافظ ابن حجر عسقلانی حضرت علیؐ کی فضیلت میں یہی روایت نقل کرنے کے بعد ایک اور روایت نقل کرتے ہیں:
وعند أبي یعلى عن سعد من وجه آخر ال بأس به قال لو وضع المنشار على مفرقي على أن
أسب علیا ما سببته أبدا۔
ترجمہ: اور ابی یعلی نے سعد سے ایک اور ایسے حوالے (سند) سے نقل کیا ہے کہ جس میں سعد نے معاویہ ابن ابی سفیان سے کہا: اگر تم میری گردن پر آرا (لکڑی یا لوہا کاٹنے والا آلہ ) بھی رکھ دو کہ میں علیؑ پر سب
(گالیاں دینا، برا بھلا کہنا) کروں ، تب بھی میں کبھی علیؑ پر سب نہیں کروں گا۔
(فتح الباری شرح صحیح البخاری، ج 7 ص 74)
بنی امیہ نے اپنے دور حکومت میں اس رواج کو جاری رکھا یہاں تک کہ مسلمانوں کی نسلیں اہلبیتؑ نبیؐ پر سب کو دین کا حصّہ شمار کرنے لگیں۔
حضرت علیؑ اسلام میں وہ واحد شخص ہیں جن کو ایسے فضائل و مناقب و منصب حاصل ہیں جو کسی ایک فرد کے پاس جمع نہیں ہوسکتے۔ آپؑ سب سے پہلے اسلام لانے والے شخص ہیں۔ آپؑ مولود کعبہ بھی ہیں۔ آپؑ بسند قرآن ‘نفس رسولؐ’ ہیں۔بے شمار فضائل کے حامل ہونے کے علاوہ مسلمانوں کے لیے کم از کم آپ ایسی شخصیت کے حامل ہیں، جو صحابئ پیغمبراور سابقین میں سے ہیں، خلیفہ راشد بھی ہیں اور داماد رسولؐ بھی. حسب و نسب دونوں میں کوئ امیرالمومنینؑ کے ہم پلہ نہیں ہے۔ تعجب ہے کہ اس کے باوجود بنی امیہ کے دور میں لوگ ان پر سب و شتم کو سنتے اور برداشت کرتے رہے۔حالانکہ اگر سقیفائی خلفاء کو ان کے سامنے برا کہا جائے تو ان کا خون کھولنے لگتا ہے ۔ معاویہ نے نہ صرف حضرت علیؑ کو ، ان کا ساتھ دینے والے دوسرے صحابہ کو بھی برا بھلا کہا اور کہلوایا ، برا بھلا کہنا تو دور معاویہ نے حضرت علیؑ اور ان سے ہمدردی رکھنے والوں کو شہید تک کروایا ہے۔ لہٰذا بظاہر معاویہ سے بڑا نہ کوئی ناصبی ہے اور نہ رافضی ہے۔
بخش هفتم: عزاداری در اہل سنت گریہ و اشک اهل سنت کے علماء کی نظر…
بخش پنجم: امام حسین کی عزاداری معصومین کی سیرعت میں الف:کربلا واقع ہونے سے بہت…
بخش چهارم: سنت نبوی میں امام حسین علیہ السلام کی عزاداری رسول اللہ صلی اللہ…
بخش سوم: مقام گریہ اور آنسو، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سیرت…
دوسرا حصہ: قرآن اور پیغمبروں کی نظر میں رونے اور آنسوؤں کی اہمیت 1 ـ…
مقدمہ: یہ بات واضح ہے کہ عزاداری اور خوشی منانا ایک فطری امر ہے جو…