امامت سے مراد امت مسلمہ کی سربراہی ہے۔ حالانکہ امامت اور خلافت کے معنی جدا جدا ہیں مگر امت محمدی صلی الله علیہ وآلہ وسلم کا سربراہ اور امام در حقیقت خلیفئہ رسولؐ ہوتا ہے۔ اس لیے یہ دونوں لفظ اصطلاحی طور پر ہم معنی ہیں۔ اہل تسنّن اور اہل تشیع میں بڑا فرق امامت ہی کے تعلق سے ہے۔ اہل تسنّن امامت کو زیادہ اہمیت نہیں دیتے۔ ان کے یہاں کوئ بھی شخص کسی بھی طریقے سے امام بن سکتا ہے۔ ان کے یہاں حقیقی امام کے خلاف بغاوت کرنے والا ‘معاویہ’ بھی امام ہوجاتا ہے۔شراب خور بنی امیہ اور بنی عبّاس کے بادشاہان بھی اقتدار پر قابض ہونے کے سبب ‘امام برحق’ ہوجاتے ہیں۔ (الامامہ العظمی 222، روضہ الطالبین جلد 7 صفحہ 266). اس طرح ان کے یہاں جس کا حکومت پر قبضہ ہے وہ امام ہے- ‘جس کی لاٹھی اس کی بھینس’.
جبکہ شیعہ امامت کے معاملے میں بہت محتاط ہیں۔ اہل تشیع اہل تسنن سے بالکل الگ عقیدہ رکھتے ہیں۔ شیعوں کے یہاں بنصِّ قرآن اور حدیث یہ عقیدہ ہے کہ جس شخص کا امامت کا عقیدہ صحیح نہیں ہے اس کا دین صحیح نہیں ہے۔ نہ صرف یہ کہ اعمال کا دارومدار اس عقیدہ امامت پر منحصر ہے بلکہ عقیدہ توحید و رسالت بھی تب ہی قابل قبول ہوگا جب انسان امام برحق کی حقیقی معرفت رکھے گا۔ اس موضوع سے متعلق متعدد روایات کتب احادیث میں موجود ہیں۔
امام محمد باقر علیہ السلام فرماتے ہیں “الله کی معرفت بس اسی کے پاس ہے اور وہی اس کی حقیقتًا عبادت کرتا ہے جو الله کی معرفت کے ساتھ ساتھ ہم اہلبیتؑ میں سے (معین)امام کی بھی معرفت رکھتا ہو۔ جو الله کی معرفت کے ساتھ ہم اہلبیت میں سے (معین) امام کی معرفت نہیں رکھتا ہے، تو اس کی معرفتِ خدا صحیح نہیں ہے اور وہ کسی غیر الله کی عبادت کرتا ہے۔ خدا کی قسم ایسا شخص گمراہ ہے۔ (الکافی جلد 1 صفحہ 181)
اسی طرح کی اور روایات احادیث کی کتابوں میں درج ہیں جن میں معرفت امام کی اہمیت کا ذکر ہے۔اسی کتاب الکافی میں ایک روایت ابو حمزہ سے مروی ہے، ابو حمزہ کہتے ہیں کہ میں نے امام محمد باقر علیہ السلام سے سوال کیا “میری جان آپ پر قربان ہو۔ الله کی معرفت کیا ہے؟ آپ نے جواب دیا:” الله کی توحید اور اس کے رسول کی رسالت کی تصدیق کے ساتھ ساتھ علی علیہ السلام اور دیگر ائمہ علیہم السلام کی ولایت کو قبول کرنا اور ان کے دشمنوں سے براءت کرنا۔ یہی راستہ ہے الله کی معرفت حاصل کرنے کا۔” (الکافی جلد 1 صفحہ 180)
ان روایات سے امامت کی اہمیت کا بخوبی اندازہ ہو جاتا ہے۔ تمام اعمال کا دارومدار عقیدہء توحید و نبوّت پر ہے اور ان دونوں کی بنیاد معرفت امام ہے۔ شائد اسی لیے الله نے اپنے حبیب رسول الله صلی الله علیہ وآلہ سے ‘آیہ بلغ’ میں تاکید کے ساتھ یہ فرما دیا”….اگر یہ (پیغام ولایت علی ابن ابی طالب علیہما السلام) نہ پہنچایا تو کچھ نہیں پہنچایا۔