Imam Ali (AS)

مولوی عبد الحفیظ کی تحریر کا جواب – بغضِ علیؑ منافقت کی علامت

*مولوی عبد الحفیظ کی تحریر کا جواب*

*بغضِ علیؑ منافقت کی علامت.*

مورخہ ٢٠ مئ ٢٠٢١، میں مولانا محمد عبد الحفیظ صاحب نے لکھنئو سے شایع ہونے والے روزنامہ ‘صحافت’ میں ایک مضمون لکھا ہے جس میں انھوں نے نماز کے لیے آمادہ ہونے سے پہلے جن باتوں کا خیال رکھنا چاہیے، ان کا ذکر کیا ہے۔ یہ مضمون فقہی حیثیت رکھتا ہے مگر مولوی صاحب نےاس مضمون میں ایک علمی خیانت کرکے اپنا ذاتی رجحان ظاہر کردیا ہے۔ موصوف نے اپنے مقالے کا آغاز قرآن کی اس آیت سے کیا ہے جس میں شراب کی ممانعت کا ذکر ہے: “اے ایمان والو! نشے کی حالت میں نماز کے قریب مت جاو…” الحمد للہ آج کے مسلم سماج میں یہ برائ نہیں دیکھی جاتی کہ کسی مسجد میں کوئ فرد شراب کی حالت میں نماز ادا کررہا ہو۔ ہاں یہ بات ضرور ہے کہ تاریخ کے جس دور کو اہل تسنّن حضرات “اچھا دور” کہتے ہیں اس میں اس طرح کے واقعات ملتے ہیں کہ کسی خلیفہ نے، یا کسی گورنر نے شراب پی کر نماز جماعت سے پڑھا دی ہو۔ اس دور میں یہ بھی ملتا ہے کہ کسی صاحب نے شراب کی حالت میں جمعہ کی نماز بدھ کو پڑھا دی تھی۔ یاد رہے کہ یہ تمام واقعات شراب کے حرام ہونے کے بعد کے ہیں۔ مولوی صاحب کو ان کا ذکر کرنا چاہیے تھا کہ کس طرح سے کچھ اصحاب کرام، جن کو ‘اصحابی کانجوم…اھتدیتم’ کی سند دی گئ ہے، نے اس حکم کی پرواہ نہیں کی اور شراب کی حالت میں جماعت پڑھی اور پڑھائ ہے۔

مولوی صاحب کے اس مضمون کی ایک خاص بات یہ ہے کہ مولوی صاحب نے پورے مضمون کو فقہی عنوان سے لکھا ہے مگر صرف شراب کی ممانعت کے لیے ہی قرآن کی آیت کی شانِ نزول بیان فرمائ ہے۔ جب کہ تمام اہل اسلام کا اس بات پر اتفاق ہے کہ شراب پی کر نماز پڑھنا جائز نہیں ہے۔ لہذا ان کو کسی آیت کا ذکر کرنے کی یا اس آیت کی شانِ نزول بیان کرنے کی ضرورت نہیں تھی۔ مگر بغض علیؑ انسان کو عقل کا اندھا بنا دیتا ہے۔

جس آیت کی شان نزول انھوں نے بیان کی ہے وہ کئ اہل تسنّن علماء کے نزدیک ‘ضعیف السند’ روایت ہے۔ اس میں جو رواۃ ہیں ان کا ناصبی ہونا مشہور ہے۔ لہٰذا مولوی صاحب سے اور قارئین سے گزارش ہے کہ اس آیت کی شانِ نزول کو کتاب ‘فتح الباری فی شرح صحیح بخاری’ کی جلد ١٠ میں پڑھ لیں تاکہ معاملہ ان کے لیے واضح ہوجائے۔ اس واقعے کا ذکر علامہ زمخشری نے اپنی کتاب ‘ربیع الابرار’ میں بھی کیا ہے۔ اس واقعہ کی حقیقت کو یہاں بیان کرکے اختلاف پھیلانا ہمارا مقصد نہیں ہے۔

مضمون کو پڑھنے سے یہ بات ظاہر ہوجاتی ہے کہ مولوی عبد الحفیظ صاحب نے عمدًا اس ضعیف روایت کو نقل کیا ہے۔ چند روز پہلے اسی روایت کو پاکستان کے ایک اخبار (نیوز 92) نے بھی پیش کیا تھا۔ بہت ممکن ہے کہ یہ مسلمانوں میں فتنہ برپا کرنے کی ایک عالمی سازش ہو۔ (پاکستان کے علماء کے مطابق اس میں سعودی حکومت کا ہاتھ ہے اور حالات کے تناظر میں جہاں شیعہ نظریات اورطاقتوں کی پیش رفت ہو رہی ہے یہ بعید بھی نہی ہے)۔

ہمارے اس مضمون کا مقصد صرف یہ ہے کہ عام مسلمان کو کچھ اندازہ ہوجاے کہ حضرت علیؑ ابن ابی طالبؑ کی شخصیت کیا ہے۔ تفصیل میں جانے سے بچنے کے لیے یہاں پر ہم صرف دو یا تین احادیثِ نبویؐ سے استفادہ کریں گے۔

• رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ایک مشہور قول ہے جس کو فریقین کی کتابوں میں ثقہ علماء و محدثین نے نقل کیا ہے۔ بزرگ صحابیء رسول جناب سلمانؓ محمدیؐ نقل کرتے ہیں کہ انھوں نے اپنے حبیب مرسل اعظم (ص) کو یہ فرماتے ہوئے سنا:

(قال أحمد في الفضائل: حدثنا عبد الرزاق، عن معمر، عن الزهري، عن خالد بن معدان، عن زاذان)
عن سلمان الفارسي قال : سمعت حبيبي محمد صلى الله عليه واله وسلم يقول : كنت أنا وعلي نورا بين يدي الله ( عز وجل ) يسبح الله ذلك النور ويقدسه قبل أن يخلق الله آدم بأربعة عشر ألف عام ، فلما خلق آدم أودع ذلك النور في صلبه فلم يزل أنا وعلي [ في ] شئ واحد حتى افترقنا في صلب عبد المطلب ، ففي النبوة وفي علي الإمامة۔

آدمؑ کی خلقت سے چودہ ہزار سال پہلے میں اور علیؑ ایک ہی نور تھے۔ ہم اس نورانی پیکر میں اللہ عزوجل کی تسبیح و تقدیس کرتے تھے۔ جب اللہ نے آدمؑ کو خلق کیا تو اس نور کو آدمؑ کی پشت میں رکھ دیا۔ ہم دونوں ایک ساتھ رہے یہاں تک کہ یہ نور صلبِ عبد المطلبؑ میں منتقل ہوا اور وہیں دو ٹکڑوں میں منقسم ہوا۔ مجھ کو نبوّت ملی اور علیؑ کو امامت۔

اس روایت کو چند الفاظ کےفرق کے ساتھ مندرجہ ذیل اہل سنت کتابوں میں دیکھا جاسکتا ہے:

• ينابيع المودة / 1 / 47 ،
• تاريخ مدينة دمشق / 42 / 267 ،
• لسان الميزان / 2 / 229 ،
• الفردوس بمأثور الخطاب / 3 / 283 ،
• ميزان الاعتدال / 2 / 258 ،
• مناقب أمير المؤمنين (ع) للخوارزمي / 145 ،
• سمط النجوم العوالي / 3 / 67 ،
• جواهر المطالب في مناقب الإمام علي / 1 / 61 ،
• شرح نهج البلاغة / 9 / 171 ،
• نظم درر السمطين للحنفي / 7

صاحبِ ‘و ما ینطق عن الھویٰ…’ (وہ رسولؐ جو بغیر وحی کے کلام ہی نہیں کرتا) کے اس قول سے چند باتوں کا پتہ چلتا ہے :
١- ان میں سے ایک یہ ہے کہ حضرت علیؑ اسی نور کا ایک جز ہیں جس کا دوسرا حصّہ سرورِ کائنات (ص) ہیں۔ لہذا جس طرح رسول خدا (ص) آدم کی خلقت سے قبل ‘معصوم عن الخطا’ ہیں اسی طرح سے روز اول ہی سے مولا علیؑ بھی ‘معصوم عن الخطا’ ہیں۔ اس لیے کہ دیگر احادیث میں ذکر ہے کہ حبیب خدا خلقتِ آدمؑ سے قبل بھی نبی تھے (کنت نبیًا و آدم بین المآء والتین)۔ اس لیے یہ گمان کرنا کہ معاذ اللہ “مولا علیؑ نے شراب پی”، ایک عظیم گناہ ہے۔

٢–دوسری بات یہ کہ مرسلِ اعظم اور حضرت علیؑ کا نور آدمؑ کی خلقت کے پہلے سے اللہ کی تسبیح و تقدیس کرتا رہا ہے۔ کیا اس باعظمت نور کے لیے یہ سوچا جاسکتا ہے کہ اس کو بارگاہ رب العزت کے آداب نہ معلوم ہوں کہ اس کی تادیب کی جائے (“لا تقربوا الصلواة و انتم سکاریٰ…”؟ ) کہ نشے کی حالت میں نماز کے قریب نہ جاو؟

• ٣–اہم بات یہ کہ: تاریخ گواہ ہے کہ جناب ابوطالبؑ کے چوتھے فرزند امام المتقین حضرت علیؑ ابن ابی طالبؑ کی پرورش رسول خدا (ص) نے فرمائ۔ آنحضرتؐ کی پرورش کا ہی کمال تھا کہ امت میں سب سے زیادہ علم اور حکمت رکھنے والے، سب سے زیادہ قرآن شناس، سب سے زیادہ خدا پرست اور سب سے زیادہ رسولؐ کی معرفت رکھنے والے صرف حضرت علیؑ تھے۔

اب اگر کوئ یہ کہتا ہے کہ معاذ اللہ علیؑ نے کبھی کسی فعل قبیح کا ارتکاب کیا تو وہ دراصل رسول اللہ (ص) کی پرورش اور تربیت کو زیر سوال لا رہا ہے جو کسی طرح بھی قابل معاف نہ ہوگا۔

کیوں کہ حضور اکرم (ص)نے بھی اپنے اس شاگرد کا تعارف امت سے کبھی یہ کہہ کر فرمایا کہ “علی کا جسم میرا جسم ہے اور علیؑ کا خون میرا خون ہے۔”
– هذا علي بن أبي طالب، لحمه لحمي، ودمه دمي،…
اہل تسنّن حوالے:-
• المعجم الكبير: ١٢ / ١٥ / ١٢٣٤١
• تاريخ دمشق: ٤٢ / ٤٢ / ٨٣٧٢
• المناقب للخوارزمي: ١٤٢ / ١٦٣
تو کبھی مرسل اعظم (ص) نے مولائے کائنات کے ایمان کی تعریف اس طرح بیان فرمائ،
“ایمان علیؑ کے گوشت (جسم) میں اس طرح مخلوط ہوگیا ہے جیسے میرے گوشت (جسم) میں مخلوط ہوگیا ہے۔ ”

(حربك حربي، وسلمك سلمي، وسرك سري، وعلانيتك علانيتي، وسريرة صدرك كسريرة صدري، وأنت باب علمي، وإن ولدك ولدي، ولحمك لحمي، ودمك دمي، وإن الحق معك، والحق على لسانك وفي قلبك وبين عينيك، *والإيمان مخالط لحمك ودمك كما خالط لحمي ودمي*، وإن الله أمرني أن أبشرك أنك وعترتك في الجنة، وأن عدوك في النار، لا يرد علي الحوض مبغض لك، ولا يغيب عنه محب لك “)

اہل سنت حوالے:
• المناقب للخوارزمي: ١٢٨ – ١٢٩ / ١٤٣؛ الفصل الثالث عشر في بيان رسوخ الإيمان في قلبه؛ ورواه ابن المغازلي في مناقبه: ٢٣٧؛ •روضة الواعظين ١: ١١٢ عن جابر بن عبد الله
خلاصہ کلام یہ کہ حضرت علیؑ آسمانِ خلافت و امامت کے ایک تابناک آفتاب ہیں۔ آپؑ کے نور سے ہر زمانے میں ہدایت پانے والوں نے ہدایت پائ۔ دورِ رسالت سے یہی نور منافقین اور حاسدوں کی آنکھوں میں چبھتا رہا۔

آخر میں مولوی عبد الحفیظ صاحب سے یہ پوچھنا ضروری ہوگا کہ اگر آپ نے واقعی غیر جانب دارانہ طور سے یہ مضمون لکھا ہے اور کوئ عناد و تعصب اور کسی طرح کی تشویق کو دخل نہیں ہے تو کیا جو آپ کے دیگر بزرگ علماء نے معتبر کتب میں اسلام کے ستاروں کے بارے میں جو کچھ حالات زندگی، کیفیت ولادت، ان کی نسبت سے احادیث نبوی کا خاص انداز میں شان صدور و آیات الہیہ کے شأن نزول جن میں عام مسلمانوں کو ان سے دور رہنے کا حکم دیا گیا ہےخواہ قبل از اسلام ہو یا بعد از اسلام ، درج کیا ہے کیا آپ انھیں بھی مضمون کی شکل میں کسی مشہور میگزین یا اخبار کی زینت بنائنگے؟؟!!

اگر امانت دار اور بزعم خود غیر جانب دار ہیں تو جو کچھ ان کے بارے میں کتب تواریخ،احادیث، تفاسیر، رجال، فقہ، کلام عقاید میں آیا ہے انہیں بہی ‘من وعن’ نقل کر دیں تاکہ امت مسلمہ کو ان کے تمام حالات سے آگاہی ہو جائے اس لئے کہ آپ کے نزدیک تو بس کتب میں درج ہونا نقل و بیان کےلیے کافی ہے۔

اور اگر آپ کسی بنا پر یہ کار خیر نہیں کر سکتے تو براے کرم اجازت مرحمت فرما دیجئے؟!؟؟
اور بہت سی آیتیں ہیں ان کے شأن نزول سے امت کو آگاہ ہونا چاہیئے۔ ان دو باتوں میں سے کسی ایک کے اختیار کرنے اور اختیار دینے کا انتظار رہے گا۔
موصوف کو یہ یاد دلانا ضروری ہے کہ جب کوئ شخص سورج یا آسمان کی طرف تھوکتا ہے تو یہ تھوکا ہوا خود اس کے منہ پر آتا ہے۔ ہر زمانے میں اس طرح کے مضمون لکھنے والے پائے گئے ہیں۔ مگر وہ مولا علیؑ کی فضیلت کو کم نہیں کرسکے، ہاں ان افراد نے اپنی ذات کی حقیقت کو ضرور دنیا کے لیے واضح کردیا۔

Short URL : https://saqlain.org/zni7