اسلام میں جو دو بڑے فرقے ہیں ان میں ایک مکتب اہلبیتِؑ رسولؐ (اثناء عشری شیعہ) ہیں اور دوسرے مکتب خلفا (اہل تسنّن – سنّی) ہیں۔ ان دونوں فرقوں کے درمیان بہت سے فرق ہیں جن میں ایک بنیادی فرق یہ ہے کہ اہل تسنّن رسول اسلام (ص) کے صحابہ کو حد سے زیادہ اہمیت دیتے ہیں۔ اہل تسنّن کے نزدیک ہر صحابی ‘عادل’ ہے اور ان میں سے کسی کا بھی اتباع کیا جا سکتا ہے۔
ان کا ماننا ہے کہ اگر کسی شخص کو چند لمحوں کے لیے ہی رسول اللہ (ص) کی صحبت نصیب ہوئ ہے تو وہ شخص ایسا ہدایت یافتہ ہو جاتا ہے کہ اس کے نقشِ قدم پر چلنا کامیابی کی راہ پر چلنا ہو جاتا ہے۔یعنی ان کے نزدیک اگر کوئ شخص حالتِ اسلام میں کچھ لمحوں کے لیے ہی سہی اگر حضورؐ کی صحبت کا شرف پا لیتا ہے، تو اس شخص کو صحابیت کے ساتھ ساتھ ہدایت یافتہ ہونے کی سند بھی دستیاب ہو جاتی ہے۔ حالانکہ قرآن نے بارہا رسول اللہ (ص) کو اس بات کی خبر دی ہے کہ آپؐ کے اردگرد جمع ہونے والے لوگ سب کے سب مومن تو کیا مسلمان بھی نہیں ہیں ، ان میں کئ افراد ‘منافق’ ہیں۔ اس کی واضح مثال قرآن میں سورہ ‘منافقون’ کی موجودگی ہے۔ اس لیے یہ گمان کرنا کہ رسول اسلام (ص) کی صحبت میں اٹھنے بیٹھنے والا ہر شخص ہدایت یافتہ ہے ایک غلط فہمی ہے۔ اس مکتب کی سب سے بڑی خامی یہی ہے کہ انھوں نے ہر ایک کو صرف اس بات پر لائق تعظیم سمجھ لیا کہ اس نے رسولؑ کو کچھ دیرکے لیے دیکھا تھا۔ ان کے یہاں کسی بھی فرد کو پہلے ‘صحابی’ کا تمغہ دیا جاتا ہے پھر اس کو ہدایت کا سر چشمہ مان لیا جاتا ہے۔ اکثر و بیشتر اہل تسنّن خطباء عوام کو یہ باور کراتے ہیں کہ تمام صحابہ ‘عادل’ تھے لہذا ان میں سے کسی کی برائ نہیں کی جاسکتی اور نہ ہی ان کی غلطیوں کا جائزہ لیا جاسکتا ہے۔ امت کا وظیفہ بس یہ ہے کہ ہر حال میں صحابہ کا اتباع کرے اور ان کی خامیوں اور برائیوں کو فراموش کر دے۔ (کتاب الکبائر زہبی- ٢٣٣، التہزیب ج ١ ص ۵٠٩)
اپنی بات کی دلیل میں وہ اس روایت کو پیش کرتے ہیں کہ رسول خدا (ص) کا ارشاد ہے:-
..أَصْحَابِي كَالنُّجُومِ بِأَيِّهِمُ اقْتَدَيْتُمُ اهْتَدَيْتُمْ…
میرے (تمام) صحابی ستاروں کے مانند ہیں، جس کسی کی چاہو پیروی کرو ہدایت پا جاؤ گے۔
اس روایت کو کئ وجوہات کی بناپر صحیح قبول نہیں کیا جاسکتا۔ ان میں سے چند یہ ہیں۔
اوّلاً: خود اہل تسنّن علماء اس حدیث کے صحیح ہونے کو قبول نہیں کرتے۔
اہل تسنّن عالم ابن حزم اس روایت کے بارے میں کہتے ہیں کہ:
‘ان اصحابی کالنجوم بایهم اقتدیتم اهتدیتم’، و اما الحدیث المذکور فباطل مکذوب.[الاحکام ج ۵ ص ٦۴ ]
یعنی یہ جھوٹی اور باطل روایت ہے۔
اسی روایت کے بارے میں ایک اور جگہ ابن حزم سے اس طرح نقل ہوا ہے: واما قولهم: ” اصحابی کالنجوم بایهم اقتدیتم اهتدیتم “، فحدیث موضوع.[رسائل ابن حزم ج ٣ ص ٩٦)
یعنی یہ روایت منگھڑت اور جعلی ہے۔ اسی طرح ایک اور بزرگ اہل تسنّن عالم، ابن حجر، کہتے ہیں:
‘ان اصحابی کالنجوم بایهم اقتدیتم اهتدیتم’ اخرجه الدارقطنی فی غرائب مالک و قال لا یثبت عن مالک. ورواته مجهولون.[لسان المیزان ج ٢ ص ١٣٧-١٣٨]
یہ روایت «اصحابی کالنجوم…» دارقطنی نے مالک کے غرائب کے زمره میں نقل کی ہے اور اس کو مالک سے مروی ثابت نہیں کیا جاسکتا کیوں کہ اس کے (اکثر) راوی مجہول ہیں۔
پس حقیقت امر یہ ہے کہ اس حدیث “اصحابی کالنجوم” کی سند ضعیف ہونے کی وجہ سے بزرگ اہل تسنّن علماء اور محدثین میں بعض نے اس کو ‘موضوع’ اور بعض نے اس کو ‘ضعیف’ قرار دیا ہے۔ ان میں چند ایک نام یہ ہیں۔
• احمد ابن حنبل :التیسیر، ج 3، ص 243
• دارقطنی : الکافی الشافی فی تخریج احادیث الکشاف، ج 2، ص 628
• ابن حجر (المدخل)
• ابن عبد البر – اعلام الموقعین، ج 3، ص 223
• سیوطی : الجامع الصغیر بشرح المناوی، ج4، ص76 وغیرہ.
مگر افسوس ‘اصحاب پرستی’اورمعنی خیز طرف داری کا کیا کیا جائے؟
اہل تسنّن نے اس طرح کی مجہول (منگھڑت) روایت کے لیے ایک category بنائ ہے جو “تلقی بالقبول” کہلاتی ہے۔ یہ وہ روایات ہوتی ہیں جن کو علماء مجہول قرار دیتے ہیں مگر چونکہ امت اس پر عمل کرتی ہے اس لیے اس کو رد نہیں کیا جاسکتا۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ چو نکہ امت اس کو عمل کرنے کے لائق جانتی ہے اس لیے یہ قولِ رسولؐ ہو سکتا ہے! ؟؟؟ (باوجودیکہ یہ حدیث رسول سے ثابت نہ ہو)
دوسری اہم وجہ اس حدیث کی رد میں یہ ہے کہ خود مرسلِ اعظم (ص) نے اپنے اصحاب کو ہدایت یافتہ یا عادل نہیں جانا ہے۔ اس کی دلیل وہ متعدد روایات ہیں جو آنحضرت (ص) سے مروی ہیں جن میں ملتا ہے کہ ان کے صحابہ خطاؤں سے ہرگز پاک نہ تھے۔ مثلاً آپؐ کا یہ فرمانا کہ “الشرک اخفی فیکم من دبیب النمل…” شرک تمھارے اندر اس طرح چھپا ہے جیسے کالی رات میں کالی چیونٹی۔” یا یہ کہ آنحضرت (ص) نے واضح طور پر ارشاد فرمایا :”انّ فی اصحابی منافقین” – میرے اصحاب میں کچھ منافق بھی ہیں”.
ان روایات کہ علاوہ ایک روایت یہ بھی نقل ہوئ ہے , جس میں پیغمبر اعظم (ص) نے اپنے اصحاب کا اتباع کرنے ووالے کو جہنمی قرار دیا ہے۔
قال رسول الله [ص]: «یکون من اصحابی احداث بعدی، یعنی الفتنة التی کانت بینهم، فیغفرها الله لهم سابقتهم، ان اقتدی بهم قوم من بعدهم کبهم الله فی نارجهنم».
نسیم الریاض فی شرح شفاء القاضی عیاض، ج4، ص423 – 424.
لہٰذا یہ بات صاف ہوگئ کہ سید المرسلین (ص) نے امت کو ہر کس و ناکس صحابی کی پیروی کرنے سے روکا ہے۔
تیسری اہم وجہ اس حدیث کو رد کرنے کی یہ ہے کہ قرآن کریم کی آیتوں میں اللہ تبارک و تعالیٰ نے صحابہ کی مذمت فرمائ ہے۔ سورہ براءت، سورہ انفال، سورہ احزاب ، سورہ جمعہ ، سورہ منافقون وغیرہ میں آپ کو اس طرح کی آیات بآسانی مل جائیں گی۔ ان تمام آیتوں میں پرودگار عالم نے صحابہ کی سرزنش فرمائ ہے۔ ان میں بعض ایسے بھی اصحاب تھے جنھوں نے جنگ سے فرار اختیار کی اور اسلامی لشکر کی شکست کے ذمہ دار قرار پاۓ ۔ کیا ایسے افراد کی پیروی کی جاسکتی ہے؟
چوتھی وجہ تاریخی شواہد ہیں جن سے پتہ چلتا ہے کہ رسول اسلام (ص) کے بعض صحابہ نے کئ سنگین گناہان کبیرہ انجام دیے ہیں۔ رسول اکرم (ص) کے جنازے کو چھوڑ کر سقیفہ میں حصول دنیا کے لیے جمع ہونا، درِ بتول (ص) پر آگ لگا دینا، مخلص صحابہ سے جبرًا بیعت طلب کرنا، مالک بن نویرہ جیسے باعظمت صحابی کو اور ان کے قبیلے کے افراد کو بے گناہ قتل کرنا، وغیرہ۔ اس طرح متعدد مواقع پر ان لوگوں نے حکم قرآن اور شریعت اسلام کے خلاف عمل کیا۔ ان لوگوں نے بعض موقعوں پر واضح حکم قرآن اور حدیث کی موجودگی میں بے جا تاویل و اجتہاد کیا ہے۔
یہی صحابہ پرستی ہے ، جس نے اہل تسنّن کو راہ حق اور صراط مستقیم یعنی درِ اہلبیتؑ سے دور کر دیا ہے۔ بھلے ہی وہ اہلبیتؑ سے محبت کا دعویٰ کریں ،مگر جب بھی اہلبیتؑ کے کسی فرد کا کسی صحابی سے اختلاف ہوا ہے تو تاریخ گواہ ہے کہ اہل تسنّن نے صحابہ کا ساتھ دیا۔ جب دخترِ رسولؐ نے ابوبکر سے اپنی میراث طلب کی تو امت نے خاموشی اختیار کرلی اور ابوبکر کا ساتھ دیا۔ جب سقیفائ خلافت نے اعلان غدیر کے خلاف اپنا خلیفہ کھڑا کیا تو اہل تسنّن نے سقیفائ خلافت کا ساتھ دیا۔ اتنا ہی یزید جیسے بدکار کے مقابلہ کرنے والے نواسہ رسول، خاندان عصمت کے فرد اور ہدایت کا چراغ، فرزند علیؑ و فاطمہؑ کو امت نے تن و تنہا چھوڑ دیا۔ صداقت تو یہ ہے کہ مذہب اہل تسنّن میں موجود بے جا صحابہ پرستی پوری ملت کوجہنم کی طرف گھسیٹے لیے جا رہی ہے۔ اے کاش اہل بیت ع کی شان میں وارد ہونے والی عظیم الشان اور نہایت معتبر و متفق الفریقین احادیث نبوی پر اتنا ہی زور سمجھنے میں صرف کرتے تو بھی آسانی سے صحابہ اور اہلبیت ع کا فرق معلوم ہو جاتا۔