عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي يَعْفُورٍ قَالَ …. فَإِنَّ اللَّهَ تَبَارَكَ وَ تَعَالَى لَمْ يَخْلُقْ خَلْقاً أَنْجَسَ مِنَ الْكَلْبِ وَ إِنَّ النَّاصِبَ لَنَا أَهْلَ الْبَيْتِ.
أَنْجَسُ مِنْهُ»
اللہ تبارک و تعالیٰ نے کسی شئ کو کتّے سے زیادہ نجس نہیں خلق کیا ہے ، مگر وہ جو ہم اہلبیتؑ کا دشمن ہے یعنی ایسا شخص جو اہلبیت کا دشمن ہے ، کتّے سے زیادہ نجس ہوتا ہے۔
(علل الشرائع، ج1،ص293)
اسلامی سماج میں لفظ ‘ناصبی’ ہمیشہ سے برائ کے ساتھ منسوب کیا گیا ہے۔ دورِ رسالت سے لفظ ‘ ناصبی’ کو امیرالمومنینؑ حضرت علیؑ ابن ابی طالبؑ کے دشمنوں کے لیے استعمال کیا گیا ہے۔ مگر ان دنوں دیکھنے میں یہ آیا ہے کہ کچھ لوگ اس کے مفہوم و معنی کو بدلنے کی کوشش میں سرگرم ہیں۔ ان لوگوں کا کہنا ہے کہ ‘ناصبی’ وہ نہیں ہے کہ جس نے حضرت علیؑ سے جنگ کی ہو ، ناصبی وہ ہے ، جس کے عقیدہ میں حضرت علیؑ کی دشمنی ہو۔ اس جملے سے وہ یہ مطلب نکالنا چاہتے ہیں کہ کسی شخص یا گروہ کا حضرت علیؑ سے جنگ کرلینا اس کی خطا تو ہو سکتی ہے لیکن یہ فعل اس کو ناصبی (جہنمی) نہیں بنا دیتا ۔ چونکہ یہ لوگ تاریخی حقیقت کو جھٹلا نہیں سکتے ، اس لۓ اہل جمل و اہل صفین کے باغیوں کو ناصبی کہلائے جانے سے اور دائرہء اسلام سے خارج ہوجانے سے بچانے کے لیے اس طرح کی بے تکی باتیں کرتے ہیں۔ ورنہ کیا آپ نے کبھی دیکھا ہے یا سنا ہے کہ دو ایسے گروہ جو ایک دوسرے کے دوست ہوں ، پھر بھی ایک دوسرے کا خون بہانے پر کمر بستہ ہوں؟؟
باوجودیکہ لفظ ‘ناصبی’ کے معنی و مفہوم سے اہل علم حضرات بخوبی واقف ہیں تاہم اس مضمون میں اس لفظ کے مختلف مفاہیم پر ہم ایک طائرانہ نظر ڈالیں گے۔ اہل لغت نے لفظ ‘ناصبی’ کے معنی بیان کرتے ہوۓ حضرت علیؑ سے دشمنی رکھنے والے کو ہی ‘ناصبی’ ٹھہرایا ہے۔ مشہور عربی لغات میں ‘ناصبی’ کے معنی اس طرح بیان کیے گئے ہیں:
• الفيروزآبادى، القاموس المحيط، مؤسسة الرسالة للطباعة والنشر والتوزيع، بيروت – لبنان،ج1، ص138: «والنَّواصِبُ والنَّاصبيَّةُ وأهلُ النَّصْبِ: المُتَدَيّنونَ بِبغْضَةِ عليّ، رضي الله عنه»؛
ناصبی وہ شخص ہے جس کے عقیدے (دین) میں مولا علیؑ سے بغض شامل ہے۔
اس تعریف سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ حضرت علیؑ کی دشمنی و عداوت کو ناصبیت کہتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر کسی کے عقیدے میں حضرت علیؑ سے دشمنی شامل ہے تو وہ شخص ناصبی کہا جائے گا چاہے وہ اس دشمنی کو حرکات و سکنات سے ظاہر نہ بھی کرے۔
اسی طرح ایک اور عربی لغت میں لفظِ ‘ناصبی’ کے بارے میں مزید وضاحت اس طرح کی گئی ہے۔
• تاج العروس من جواهر القاموس، 20 جلد، دار الفكر للطباعة و النشر و التوزيع، بيروت – لبنان، اول، 1414 ه ق، ج2، ص436: « و منه النَّوَاصِبُ، و النّاصِبيَّةُ، و أَهْلُ النَّصْبِ: و هم المتَدَيِّنُون بِبغْضَةِ سيّدِنا أَميرِ المُؤْمِنينَ و يَعْسُوب المُسْلِمينَ أَبي الحَسنِ عَلِيّ بْنِ أَبي طالبٍ، رضِيَ اللّٰه تعالى عَنْهُ و كَرَّم وجْهَهُ؛ لأَنَّهم نَصَبُوا له، أَي: عادَوْهُ، و أَظْهَرُوا له الخِلافَ، و هم طائفة [من] الخَوَارِج۔
‘ناصبی’ اس شخص کو کہا جاتا ہے جس کے دین میں حضرت علیؑ ابن ابی طالب سے بغض رکھنا شامل ہے۔ یہ وہ گروہ ہے جس نے حضرت علیؑ سے عداوت رکھی اور ان کے خلاف قیام کیا اور وہ گروہِ خوارج ہے۔
اگرچہ یہاں پر صاحب لغت نے ‘ناصبی’ لفظ کا ترجمہ صحیح کیا ہے مگر صرف خوارج ہی کو بطور مثال پیش کیا ہے۔ حقیقت یہی ہے کہ جو شخص یا گروہ مولا علیؑ سے جنگ کرتا ہے وہ ناصبی ہے۔ لہٰذا اس میں اہل جمل اور اہل صفین بھی شامل ہیں۔
اور یہ بات نا قابل انکار ہے کہ حضرت علی ع سے دشمنی اور آپ کو برا بھلا کہے جانے کی رسم کو حاکم شام نے مسجدوں میں، نماز وں میں، خطبۂ جمعہ میں ایک عقیدہ بنا کر راسخ کر دیا تھا، تبھی جب ایک شخص نماز کے بعد حضرت علی ع پر لعنت کرنا بھول جاتا ہے تو بطور کفارہ ایک مقام پر مسجد کی تعمیر کرتا ہے تاکہ ترک لعن کا جبران کر سکے۔۔!!!
اب ہم اہل تشیع کے علماء اور فقہاء کی نظر میں اس لفظ کی تعریف کو سمجھتے ہیں۔ تمام شیعہ فقہاء کے نزدیک مندرجہ ذیل خصلتوں والا شخص ‘ناصبی’ کہلائے گا:
• جو شخص دل میں یا عقیدے سے حضرت علیؑ یا آلِ محمدؑ کے کسی فرد سے دشمنی رکھے اور اس کا اظہار بھی کرے۔
• جو شخص دل میں یا عقیدے سے حضرت علیؑ یا آلِ محمدؑ کے کسی فرد سے دشمنی رکھے، خواہ وہ اس کا اظہار نہ کرے۔
• جو شخص حضرت علیؑ یا آل محمدؑ کے کسی فرد سے اظہار دشمنی کرے خواہ اس کے عقیدے میں ایسا کرنا شامل نہ ہو۔
ان تمام صورتوں کی تفصیل کے لیے آپ شیعہ فقہائے کرام کے رسالوں کی طرف رجوع کر سکتے ہیں۔
اب ہم احادیثِ معصومین کی طرف رخ کرتے ہیں۔ اس حصہ میں ان احادیث کو پیش کریں گے جن سے یہ معلوم ہو جائے گا کہ اہلبیت علیہم السلام کی نظر میں کس شخص کو ‘ناصبی’ سمجھا گیا ہے۔
• شیخ عاملى، حرّ، محمد بن حسن، وسائل الشيعة، 30 جلد، مؤسسه آل اہلبيت عليهم السلام، قم – ايران، اول، 1409 ه ق، ج9، ص491: «مُحَمَّدُ بْنُ إِدْرِيسَ فِي آخِرِ السَّرَائِرِ نَقْلًا مِنْ كِتَابِ مَسَائِلِ الرِّجَالِ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ أَحْمَدَ بْنِ زِيَادٍ وَ مُوسَى بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ عَلِيِّ بْنِ عِيسَى قَالَ كَتَبْتُ إِلَيْهِ يَعْنِي عَلِيَّ بْنَ مُحَمَّدٍ علیه السلام أَسْأَلُهُ عَنِ النَّاصِبِ- هَلْ أَحْتَاجُ فِي امْتِحَانِهِ- إِلَى أَكْثَرَ مِنْ تَقْدِيمِهِ الْجِبْتَ وَ الطَّاغُوتَ- وَ اعْتِقَادِ إِمَامَتِهِمَا- فَرَجَعَ الْجَوَابُ مَنْ كَانَ عَلَى هَذَا فَهُوَ نَاصِبٌ».
امام علیؑ نقی (ع) سے ایک شخص نے خط بھیج کر سوال کیا کہ’اگر کوئ پہلے اور دوسرے کی امامت کا عقیدہ رکھتا ہے تو اس کے بارے میں آپؑ کی کیا رائے ہے؟’
حضرتؑ نے جواب دیا ‘جو بھی اس حال پر ہے وہ (ہمارے نزدیک) ناصبی ہے۔’
اس جواب سے معلوم ہوتا ہے کہ اہلبیتؑ کے دشمن کی ولایت و امامت کو قبول کرنے والا بھی ناصبی ہوتا ہے۔
امام علیہ السلام کا یہ جواب رسول اللہ (ص) کی اس حدیث سے میل کھاتا ہے جس میں آپؐ کے فرمان سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ جو بھی حضرت علیؑ کے علاوہ کسی اور کی خلافت کو قبول کرتا ہے یا یہ کہ مولا علیؑ کی جگہ پر کسی اور کو رسول اسلام (ص) کا بلافصل جانشین مانتا ہے وہ در اصل مولا علیؑ سے دشمنی کرتا ہے۔
• وہ روایت اس طرح بیان ہوئ ہے:-
رسول اکرم (ص) کے چچازاد بھائ عبد اللہ ابن عباس روایت کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ (ص) سے سوال کیا: “کیا کوئ علیؑ سے بغض رکھ سکتا ہے؟” آنحضرتؐ نے فرمایا:” ہاں ابن عباس! یہ قوم علیؑ سے بغض رکھے گی۔ وہ اپنے آپ کو میری امت میں شمار کریں گے حالانکہ اللہ نے ان کا اسلام میں کوئ حصّہ نہیں رکھا ہے۔ اے ابن عباس ! ان کے بغض کی علامت یہ ہوگی کہ وہ علیؑ پر کسی اور کو فضیلت دیں گے…۔”
(البرھان فی تفسیر القرآن ج ۵ ص ٧٧۴)
پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) نے بارہا امت کے درمیان حضرت علیؑ اور ان کی اولاد کی امامت کا اعلان کیا۔ اعلان غدیر کے بعد تو امت کے پاس کوئی جواز نہیں تھا کہ وہ حضرت علیؑ کی ولایت کا انکار کرتی ، مگر مولا علیؑ کے حق میں اعلان ہونے کے باوجود امت نے اتنی فضیلتوں کے حامل شخص کو فراموش کردیا اور مفضول شخص کی امامت کو قبول کرلیا۔ ان کا ایسا کرنا اللہ اور اس کے رسولؐ کی نافرمانی ہے ایسی صورت میں ان لوگوں کا ایمان باقی رہا نہ اسلام۔ قولِ نبیؐ کے مطابق انھوں نے ایسا صرف علیؑ کی دشمنی میں کیا ، لہٰذا یہ لوگ بھی ‘ناصبی’ کہے جائیں گے۔
• کتاب بحارالانوار میں علامہ مجلسی (رح) نے ناصبی کی ایک اور تعریف اس حدیث کی شکل میں پیش کی ہے۔
عن أبي عبد الله (عليه السلام) قال: «ليس الناصب من نصب لنا أهل البيت لأنك لا تجد رجلاً يقول: أنا أبغض محمداً وآل محمد(عليهم السلام)، ولكن الناصب من نصب لكم وهو يعلم أنكم تتولونا، وأنكم من شيعتنا۔”
امام جعفر صادق علیہ السلام فرماتے ہیں، “ناصبی وہ نہیں ہے ، جو ہم اہلبیتؑ سے دشمنی رکھے( کیونکہ تم کسی کو نہیں پاؤگے جو یہ کہے کہ میں محمدؐ اور آلِ محمدؑ سے دشمنی رکھتا ہوں ) ، بلکہ ناصبی وہ ہے جو تم شیعوں سے دشمنی رکھے جبکہ وہ جانتا ہے کہ تم ہم سے محبت کرتے ہو اور ہمارے شیعہ ہو”
(بحارالانوار ج ٦٩ ص ١٣١، ج ٢٧ ص ٢٣٣، سفینة البحار ج ٨ ص ٢۵٦)
اس روایت کے مطابق اہلبیتؑ اطہار کے نزدیک وہ شخص بھی ناصبی ہے جو ان کے شیعوں سے بغض رکھتا ہے۔ اس میں کوئ تعجب کی بات نہیں ہونی چاہیئے کیونکہ قرآن بھی اللہ کے دوستوں سے دشمنی رکھنے والوں کو اللہ کا دشمن شمار کرتا ہے۔ اسی مضمون کی ایک حدیث یہاں پر قابل ذکر ہے :
عن الرضا (ع) أنه قال: من والى أعداء الله فقد عادى أولياء ومن عادى أولياء الله فقد عادى الله تبارك وتعالى، وحق على الله عز وجل أن يدخله في نار جهنم.
(صفات الشيعة – الشيخ الصدوق – ص ٧)
امام علی رضا (ع) فرماتے ہیں،”جو اللہ کے دشمن سے دوستی رکھتا ہے وہ اللہ کے دوست سے دشمنی رکھتا ہے اور جو اللہ کے دوست سے دشمنی رکھتا ہے وہ اللہ سے دشمنی رکھتا ہے۔ اللہ کو حق حاصل ہے کہ وہ اپنے دشمن کو جہنم کی آگ میں داخل کر دے۔”
ان دونوں روایتوں کا ماحصل یہ ہے کہ اہلبیتؑ کے نزدیک ان کے دوستوں سے دشمنی کرنے والا بھی ناصبی ہے یعنی خود ان کا دشمن ہے اور ایسے شخص کا ٹھکانہ جہنم ہے۔