نہج البلاغہ کی حیرت انگیز خصوصیات و امتیازات میں سے ایک امتیاز مختلف اور متنوع پہلوؤں کے اعتبار سے عجیب و غریب گہرائی و گیرائی پر مشتمل ہونا ہے اور ہر پڑھنے والا پہلی فرست میں اسے دیکھ کر یقین نہیں کر سکتا کہ کیوں کر ایک انسان اس قدر جامع، معنی دار، شیرین، دقیق اور مختلف بلکہ متضاد موضوعات میں کامل طور سے مرتب اور منظم شکل میں کلام پیش کر سکتا ہے۔ یقینا یہ کام امیر المومنین علی بن ابی طالب کے علاوہ کسی دوسری شخصیت سے ناممکن ہے اس لئے کہ:
امیر المومنین علی کی وہ ذات گرامی ہے
جنکا قلب و دل اسرار الٰہی کا خزانہ ہے۔
جنکی روح، علم و دانش کا عظیم اقیانوس ہے۔
جنہوں نے فرمایا ہے:
رسول صلی اللہ علیہ و آلہ نے مجھے علم کے ہزار باب تعلیم فرمائے ہیں اورمیرے لئے ہر باب سے ہزار باب کھل گئے ہیں۔
(کنز العمال، ج ۶، ص ۳۲۲ و ۴۰۵)
اس سلسلہ میں بھی بعض علماء و دانشمند حضرات کے اعتراف کی طرف اجمالی اشارہ کروں گا:
(۱) نہج البلاغہ کے جمع کرنے والے سید رضی قدس سرہ نے خطبوں اور کلمات کے درمیان مختصر مگر مفید اور معنی دار عظمتِ نہج البلاغہ کے بارے میں اشارے کئے ہیں جو انتہائی قابل ملاحظہ ہیں جیسے:
خطبہ نمبر ۲۱ میں جہاں مولا ارشاد فرماتے ہیں:
فَاِنَّ الْغَایَةَ اَمَامَکُمْ وَ اِنَّ وَرَائَکُمُ السَّاعَةَ تَحْدُوْکُمْ تَخَفَّفُوْا تَلْحَقُوْا فَاِنَّمَا یُنْتَظَرُ بِأَوَّلِکُمْ وَ آخِرُکُمْ۔
”…قیامت تمہارے سامنے ہے۔اور موت مسلسل تمہارا تعاقب کئے ہوئے ہے۔ تاکہ تم ہلکے ہو جاؤ اور قافلہ سے ملحق ہو جاؤ۔ اور جان لو کہ تم باقی رہنے والوں کے انتظار میں رو کے گئے ہو…
اس مقام پر سید رضی فرماتے ہیں: اگر اس کلام کا خدا و رسول کے کلام کے بعد کسی دوسرے کلام سے مقائسہ کیا جائے تو امیر المومنین علی بن ابی طالب کا کلام تمام کلام پر مقدم ہوگا اور برتری حاصل ہوگی۔
(نہج البلاغہ، خطبہ ۲۱، ص ۴۲، چاپ دار الثقلین، قم)
(۲) ابن ابی الحدید معتزلی شرح نہج البلاغہ، ج ۱۱، ص ۱۵۷ میں کہتے ہیں:
میں اس ذات سے شگفت آور ہوں جو میدان جنگ میں ہوتی ہے تو ایسا خطبہ پیش کرتی ہے جس سے اسکی شیر رجل شجاع جیسی صفت و طبیعت کا اندازہ ہوتا ہے۔ پھر اس میدان جنگ میں وعظ و نصیحت کے لئے آمادہ ہوتی ہے تو ان زاہدوں اور راہبوں کے مانند نظر آتی ہے جو مخصوص لباس زیب تن کئے اپنے دیر (عبادتگاہ) میں زندگی گذار رہا ہوتا ہے۔
جو نہ کسی حیوان کا خون بہاتے ہیں نہ کسی حیوان کا گوشت کھاتے ہیں۔ وہ کبھی (بسطام بن قیس) اور (عتیبہ بن حارث) اور (عامر بن طفیل) ﴿زمانہٴ جاہلیت میں یہ تینوں میدان بَرد کے قہرمان تھے جنکی مثال پیش کی جاتی تھی﴾ کی شکل میں ظاہر ہوتی ہے تو کبھی سقراط حکیم، یوحنا اور مسیح بن مریم، کی صورت میں، میں اس ذات گرامی کی قسم کھاتا ہوں جسکی ساری امت قسم کھاتی ہے۔ میں نے اس خطبہ (خطبہٴ الہاکم التکاثر) کو پچاس سال پہلے پڑھا تھا اور اب تک ہزار بار سے زیادہ مطالعہ کر چکا ہوں، مگر جتنی مرتبہ پڑھا اتنا ہی زیادہ خوف ، وحشت اور عظیم بیداری نے میرے وجود کو جھنجھوڑا ہے اور قلب و دماغ میں گہرا اثر پیدا کیا ہے۔ جب بھی اس کے مضامین میں غور و خوض کیا تو اپنے دوستوں عزیزوں اور خاندانوں کی روحوں کی یاد میں گم ہو گیا اور ایسا تصور ہوا جیسے امام خطبہ کے جملوں کے درمیان میری بھی حالت بیان کر رہے ہیں۔
(جبکہ) اس سلسلہ میں کتنے فصیح و بلیغ واعظ و خطیب نے کلام پیش کیا ہے اور میں ایک سے کئی مرتبہ زیادہ ان لوگوں کی محفلوں میں مجلسوں میں شریک ہوا ہوں … مگر جو انقلاب اور دل میں اثر مولا کے کلام سے حاصل ہوا ہے کسی کے کلام سے حاصل نہیں ہوا ہے۔ نہ ان کے جیسا کلام دیکھنے میں آیا ہے۔
اسی طرح دوسری جگہ لکھتے ہیں:
سبحان اللہ! کس نے ان گرانبہا خصوصیات و امتیازات اور نہایت اہم ترین کمالات انہیں (علی) عطا کیا ہے؟!!! آخر یہ کیوں کر ہوا کہ سرزمین مکہ کے اس ماحول میں جس نے زندگی گذاری جہاں کسی حکیم یا فلاسفہ کے زانو ئے ادب تہیہ نہیں کیا مگر وہ الٰہی علوم اور حکمت متعالیہ میں افلاطون و ارسطو سے بھی زیادہ آگاہ اور دقیق نظر آئے جس نے عرفان و اخلاق کے ماہر تجزیہ کار اور بزرگ اساتذہ کی زندگی بھی نہ دیکھی ہو مگر وہ سقراط سے بھی برتر نظر آئے۔ جس نے اہل مکہ جیسے تجارت کرنے والوں کے درمیان تربیت پائی مگر وہ ایسا شجاع و بہادر جو انتہائی انکساری کے ساتھ زمین پر قدم رکھتے ہوئے نظر آئے…
(شرح نہج البلاغہ، ج ۱۶، ص ۱۴۶)
تو ہم بھی اس سنی بزرگ عالم دین کے صحیح گفتار و اعتراف کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہتے ہیں: ہاں ان گرانبہا کمالات و امتیازات کو اسی ذات نے عطا کیا ہے جس نے ان کے چچازاد بھائی حضرت پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو انفرادی خصوصیتوں کی شکل میں عطا فرمایا ہے۔ تاکہ وہ لوگوں کے درمیان ظاہر کریں اور اس چراغ ہدایت و سعادت کو ان کے ہاتھوں سپرد کر دیں۔ یعنی جس خدائے مہربان نے پیغمبر اسلام کو مبعوث بہ رسالت فرمایا اور اس کے لئے آپ ہی کی ذات کا انتخاب کیا … اسی پرودگار نے علی بن ابی طالب کو ان فضیلتوں کا حامل قرار دیا، اپنے حبیب کا وصی و جانشین اور اپنا ولی کے طور سے تعارف کرایا ہے۔
مزید معلومات اور اطلاع کے لئے حسب ذیل کتابیں ملاحظہ ہوں:
(۱) کتاب (کشکول) تالیف شیخ بہائی قدس سرہ (ج ۳، ص ۳۹۷)
(۲) کتاب عبقریہ الشریف الرضی) تالیب ڈاکٹر زکی مبارک (ج ۱، ص ۳۹۶)
(۳) کتاب العبقریات، تالیف عباس محمود العاقد مصری (ج ۲، ص ۱۳۸، ۱۴۴، ۱۴۵)
(۴) کتاب مصادر نہج البلاغہ تالیف محمد امین نواری (ج ۱، ص ۹۰)
(۵) کتاب اصول کافی تالیف ثقہ الاسلام کلینی قدس سرہ، (ج ۱، ص ۱۳۶)
(۶) کتاب البیان تالیف سید ابو القاسم خوئی قدس سرہ
(ماخوذ از کتاب آشنائی با نہج البلاغہ امام علی تالیف سید جعفر حسینی)