tarawweh

کیا حضرت علیؑ نے لوگوں کو نماز تراویح سے نہیں روکا تھا؟؟

نماز تراویح دراصل نماز شب کی ١١ رکعتیں ہی ہیں جن کو ‘قیام لیل’ یا ‘نماز تہجّد’ بھی کہا جاتا ہے۔ نمازِ شب امت کے لیے ‘سنّتِ موکدہ’ ہے یعنی ایک ایسی سنت جس کی بہت زیادہ تاکید کی گئ ہے۔ چونکہ یہ نماز امت کے لیے واجب نہیں ہے اس لیے اس کو کسی بھی صورت میں جماعت کے ساتھ نہیں ادا کیا جاسکتا۔ تمام اہل اسلام کا اس بات پر اتفاق ہے کہ نماز شب کو فرادہ ہی پڑھا جاتا ہے اور اس کو جماعت کے ساتھ نہیں ادا کیا جاسکتا۔
تاریخ بتاتی ہے کہ دورِ رسالت میں اور ابوبکر کے دورِ حکومت میں ماہ صیام میں نماز تراویح کا کوئ چلن نہیں تھا۔ یعنی مسلمان نماز شب کو مسجد میں یا اپنے گھر پر فرادہ ہی ادا کیا کرتے تھے۔ پھر کتاب صحیح بخاری کی ایک روایت کے مطابق عمر نے مسلمانوں کو اس نماز کو باجماعت ادا کرنے کا حکم دیا، تب ہی سے باجماعت نماز تراویح کا چلن مسلمانوں میں رواج پاگیا۔ حالانکہ صحیح بخاری کی اسی روایت میں خود عمر نے یہ اعتراف کیا ہے کہ اس طرح نماز شب کو باجماعت ادا کرنا ‘بدعتِ حسنہ’ ہے جس کو انھوں نے شروع کیا ہے۔

بحرحال اہل تسنّن کے یہاں اس نماز تراویح کے لیے بہت اہتمام کیا جاتا ہے اور ماہ صیام میں ان کے یہاں غالبًا ہر مسجد میں اس نماز کو بعد از نماز عشا باجماعت ادا کیا جاتا ہے۔ اس نماز کے متعلق جو سوالات اٹھتے ہیں ان میں ایک یہ بھی ہے کہ کیا حضرت علیؑ نے اپنے دورِ خلافت میں اس نماز کو جاری رہنے دیا تھا؟؟
اس سوال کا جواب اہل شیعہ کتب میں بآسانی مل جاتا ہے۔ اس سوال کے جواب کے لیے اس روایت کا نقل کرنا کافی ہے۔

لما قدم أمير المؤمنين (ع) الكوفة أمر الحسن بن علي (ع) أن ينادي في الناس لا صلاة في شهر رمضان في المساجد جماعة فنادى في الناس الحسن بن علي (ع) بما أمره به أمير المؤمنين (ع) فلما سمع الناس مقالة الحسن بن علي (ع) صاحوا وا عمراه وا عمراه فلما رجع الحسن إلى أمير المؤمنين (ع) قال له ما هذا الصوت قال له يا أمير المؤمنين الناس يصيحون وا عمراه وا عمراه فقال أمير المؤمنين (ع) قل لهم صلوا.

جب مولائے کائنات نے کوفے کو اپنا پایئہ تخت بنایا اور ان کے دور میں پہلی دفع رمضان کا مہینہ آیا تو آپؑ نے اپنے فرزند امام حسنؑ کو حکم دیا کہ عوام میں یہ اعلان کروا دیں کہ ماہ رمضان میں رات میں پڑھی جانے والی نماز مسجد میں جماعت سے نہیں ادا ہوگی۔ جب لوگوں نے اس اعلان کو سنا تو چیخیں مارنے لگے ‘واعمراہ’ ‘واعمراہ’ (عمر کی سنّت کو تبدیل کیا جارہا یے)۔ جب یہ آواز حضرت علیؑ تک پہنچی تو آپؑ نے فرمایا ان لوگوں کو ان کے حال پر چھوڑ دو ۔

حوالہ جات:
• الوافي، ج 11، ص: 436۔
• بحار الانوار، ج 34، ص 167، عنوان «علّة عدم تغییر أمیر المؤمنین(ع) بعض البدع فی زمانه»‏
•الکافی ج 8، ص 58
• تهذیب الاحکام، ج۳، ص۷۰
• تفسیر العیّاشی، ج۱، ص۲۷۵

اس روایت سے اس بات کا پتہ چلتا ہے کہ جب مولائے کائنات (ع) نے کوفے کے لوگوں کو عمر کی بدعت پر عمل کرنے سے روکا تو لوگوں نے اس حکم کو قبول نہیں کیا بلکہ عوام کے فتنہ پرور افراد نے یہ نعرہ بلند کیا کہ علیؑ حکومت کے بل بوتے پر عمر کی سنّت کو تبدیل کرنا چاہتے ہیں۔ اس ‘علیؑ بنام سنّتِ عمر’ کے اختلاف اور فتنے سے مسلمانوں کو بچانے کے لیے مولا علیؑ نے خاموشی اختیار کرنا گوارہ کیا اور جن کو نماز تراویح پڑھنی تھی ان کو ان کے حال پر چھوڑ دیا۔ اس طرح کی روایات کتب شیعہ میں موجود ہیں جن سے اس بات کا علم ہوتا ہے کہ امیرالمومنین نے ہر چند کوشش کی کہ مسلمان گزشتہ خلفاء کی ایجاد کردہ بدعتوں کو چھوڑ دیں اور اسلام کے حقیقی احکام کے پابند ہوجائیں مگر عوام نے ان کی باتوں پر عمل نہیں کیا اور ان بدعتوں پر عمل کرنا جاری رکھا۔ یہی صورت حال بنی اسرآئیل نے جناب موسیٰؑ کے وصی جناب ہارونؑ کے ساتھ روا رکھی تھی اور پوری قوم سامری کے فریب میں آکر گوسالہ کی پرستش کرنے لگی تھی۔

Short URL : https://saqlain.org/so/qyv0