کیا رسول الله (ص) نے حضرت علیؑ کو اپنا بلا فصل جانشین نہیں بنایا تھا؟؟

کچھ روز قبل ایک وڈیو وائرل ہوا تھا جس میں ایک سنّی خطیب اپنے سننے والوں سے کہہ رہا تھا کہ ‘شیعہ اپنی اذان میں ہمارے خلفاء کو گالی دیتے ہیں۔’ ان کا کہنا تھا کہ ‘شیعہ اپنی اذان میں “اشھد ان علیاً ولی اللہ و وصی رسول اللہ و خلیفتہ بلافصل” (یعنی میں گواہی دیتا ہوں کہ علیؑ اللہ کے ولی ہیں، رسولؐ اللہ کے وصی اور بلافصل خلیفہ ہیں۔) کہتے ہیں۔ یہ فقرہ دراصل شیخین کو گالی دینا ہے۔ وہ جتانا یہ چاہ رہے تھے کہ یہ فقرہ شیخین کا ‘غاصبِ خلافت’ ہونا ظاہر کرتا ہے۔ اگر حضرت علیؑ کو رسول اکرم (ص) کی خلافتِ بلا فصل حاصل ہے تو ان سے قبل جو افراد خلافت کی مسند پر بیٹھے وہ غاصبانِ خلافت ہوے۔ لہٰذا ان کی یہ مانگ ہے کہ شیعہ اس فقرے کو اپنی اذان سے نکال دیں – اس سے ان کی دل آزاری ہوتی ہے۔

بہرحال ان کی بچکانہ بات کا جواب یہ ہے کہ اگر اس جملے کو گالی سمجھا گیا تو اسلام کا مقدس ترین جملہ یعنی کلمہِ شہادت “لا الٰہ الّا اللہ” بھی مشرکین کو گالی لگے گا۔ کیا ہندوں اور آتش پرستوں کی دلجوئ کی خاطر مسلمان اس جملہ کو اپنے کلمہ سے نکال دیں گے؟؟؟
سوال در اصل یہ ہونا چاہیے کہ کیا رسول اسلام (ص) نے حضرت علیؑ ابن ابی طالبؑ کو اپنا خلیفہ بلا فصل منتخب کیا تھا یا نہیں؟؟ اس کا جواب ہم اہل تسنّن کی کتابوں ہی سے پیش کر رہے ہیں۔ سرور عالم (ص) نے دعوتِ ذوالعشیرہ کے اعلان سے لیکر میدان غدیر کے اعلانِ ولایت تک کی طویل مدّت میں کئ مرتبہ حضرت علیؑ کو اپنا وصی، اپنا خلیفہ اور اپنے بعد امت کا امام ہونے کا اعلان کیا ہے۔ ان تمام روایات کو یہاں جمع کرنا مناسب نہیں صرف ایک روایت کو بطور استدلال یہاں پیش کر رہے ہیں۔

اس روایت کو احمد بن حنبل، میر سید على همدانى، ابن مغازلى شافعى، و دیلمى وغیرہ نے اپنی اپنی کتابوں میں نقل کیا ہے۔
پیامبر(صلى الله علیه وآله) نے فرمایا:
“آدمؑ کی خلقت سے چودہ ہزار سال پہلے میں اور علیؑ ایک ہی نور تھے۔ جب اللہ نے آدمؑ کو خلق کیا تو اس نور کو آدمؑ کی پشت میں رکھ دیا۔ ہم دونوں ایک ساتھ رہے یہاں تک کہ یہ نور صلبِ عبد المطلبؑ میں منتقل ہوا اور وہیں دو ٹکڑوں میں منقسم ہوا۔ مجھ کو نبوّت ملی اور علیؑ کو خلافت۔”
(اہل تسنّن حوالے: ينابيع المودة / 1 / 47 ، تاريخ مدينة دمشق / 42 / 267 ،لسان الميزان / 2 / 229 ، الفردوس بمأثور الخطاب / 3 / 283 ،ميزان الاعتدال / 2 / 258 ، مناقب أمير المؤمنين (ع) للخوارزمي / 145۔)

محبوب اِلٰہی (ص) کے اس قول سے بات اور زیادہ واضح ہوجاتی ہے کہ جب سے حضورؐ کو منصبِ نبوّت ملا تب ہی سے مولا علیؑ کو بھی منصبِ خلافت ملا ہے۔ ظاہر ہے کہ یہ خلافت، خلافتِ نبوّت محمدیؐ ہے، جو خلقت ہی سے مولا علیؑ کو عطا کی گئ تھی۔

یہی خلافت جو حضرت علیؑ کو خلقت آدمؑ کے پہلے سے حاصل تھی اسی کا سرکاری اعلان میدان غدیر میں ہوا۔ اس خلافتِ بلافصل کا علم تمام اکابر صحابہ کو پہلے ہی سے تھا۔اسی لیے کسی بزرگ صحابی نے اس پر اعتراض بھی نہیں کیا۔ شیخین نے بھی غدیر میں اس ‘بلا فصل ولایت’ کو رسول اللہ (ص) سے مولا علیؑ کی طرف منتقل ہوتے ہوے مشاہدہ کیا۔ میدان غدیر میں اعلانِ ولایت علیؑ کے بعد رسول اللہ (ص) نے تمام اصحاب کو حکم دیا کہ وہ حضرت علیؑ کو “مومنوں کا مولا” بننے پر مبارک باد پیش کریں۔ عمر اور ابوبکر نے اس موقع پر جو تہنیت کے جملے ادا کیے ہیں اس بات کا ثبوت ہے کہ مولا علیؑ کو یہ منصب ‘بلافصل’ ہی ملا تھا۔ اہل تسنّن کی کتابوں میں اس طرح کی متعدد روایات نقل ہوئ ہیں یہاں پر ہم صرف ایک ہی پر اکتفا کر رہے ہیں۔

الحافظ أبو بكر عبد الله بن محمد بن أبي شيبة المتوفى 235 (المترجم ص 89 أخرج بإسناده في (المصنف) عن البراء بن عازب قال: كنا مع رسول الله (ص) في سفر فنزلنا بغدير خم فنودي الصلاة جامعة، وكُسح لرسول الله (ص) تحت شجرة فصلى الظهر، فأخذ بيد علي فقال: ألستم تعلمون أني أولى بكل مؤمن من نفسه ؟ قالوا: بلى . فأخذ بيد علي فقال: اللهم: من كنت مولاه فعلي مولاه، اللهم وال من والاه، وعاد من عاداه . فلقيه عمر بعد ذلك فقال: هنيئا لك يا بن أبي طالب ؟ أصبحت وأمسيت مولى كل مؤمن ومؤمنة .
( إمام الحنابلة أحمد بن حنبل المتوفى 241.
في مسنده (4/281))

اس روایت میں جو بات قابل توجہ ہے وہ یہ کہ عمر ابن خطاب کا مولا علیؑ کو ان جملوں میں مبارک باد دینا ہے:
“هنيئا لك يا بن أبي طالب !! أصبحت وأمسيت مولى كل مؤمن ومؤمنة”
“مبارک ہو تم کو اے فرزند ابوطالبؑ! تم آج سے تمام مومن مرد اور عورت کے مولا بن گئے ہو۔”
مسلمانوں کے دوسرے خلیفہ عمر کے اس جملے کے بعد کسی وضاحت کی ضرورت نہیں رہتی۔ حضرت علیؑ کو میدانِ غدیر ہی میں رسول اللہ (ص) کی جانشینی مل گئ تھی جس کا باقاعدہ اعلان بھی ہوا۔ اگر یہ مبارک باد اس لیے دی گئ کہ علیؑ مسلمانوں کے چوتھے خلیفہ ہوں گے تو پھر پہلے تین خلفاء کے لیے یہی اہتمام کیوں نہیں ہوا؟؟

بہرحال ایک بات تو طے ہے کہ حضرت علیؑ کی خلافت کا علم امت میں کسی فرد کو ہو یا نہ ہو، تمام امہات المومنین کو اس اعلان کی خبر ضرور تھی۔ ان میں ابوبکر کی بیٹی عائشہ بھی شامل ہیں۔ مندرجہ ذیل روایت سے آپ کو اس بات کا باقاعدہ اندازہ ہوجائے گا۔ اس روایت میں رسول اللہ (ص) کی ایک زوجہ جناب ام سلمہ، آنحضرت کی دوسری زوجہ عائشہ کو رسول اکرم (ص) کے اس قول کی یادآوری کرا رہی ہیں جو حضورؐ نے اپنی تمام ازواج کو بتایا تھا۔ آپ بھی اس قول کو بغور ملاحظہ فرمائیے:

الفتوح – في خبر دخول عائشة على أم سلمة قبل حرب الجمل؛ تدعوها للمسير إلى البصرة -: ثم جعلت أم سلمة تذكر عائشة فضائل علي (رضي الله عنه)، وعبد الله بن الزبير على الباب يسمع ذلك كله، فصاح بأم سلمة وقال: يا بنت أبي أمية! إننا قد عرفنا عداوتك لآل الزبير!
فقالت أم سلمة: والله لتوردنها، ثم لا تصدرنها أنت ولا أبوك! أتطمع أن يرضى المهاجرون والأنصار بأبيك الزبير وصاحبه طلحة، وعلي بن أبي طالب حي، وهو ولي كل مؤمن ومؤمنة!!
فقال عبد الله بن الزبير: ما سمعنا هذا من رسول الله (صلى الله عليه وآله) ساعة قط!
فقالت أم سلمة: إن لم تكن أنت سمعته فقد سمعته خالتك عائشة، وها هي فاسألها! فقد سمعته (صلى الله عليه وآله) يقول: ” علي خليفتي عليكم في حياتي ومماتي؛ فمن عصاه فقد عصاني ” أتشهدين يا عائشة بهذا، أم لا؟
فقالت عائشة: اللهم نعم.
قالت أم سلمة: فاتقي الله يا عائشة في نفسك، واحذري ما حذرك الله ورسوله (صلى الله عليه وآله)، ولا تكوني صاحبة كلاب الحوأب، ولا يغرنك الزبير وطلحة؛ فإنهما لا يغنيان عنك من الله شيئا!

جنگ جمل کے لیے جانے سے پہلے عائشہ، جناب ام سلمہؓ سے ملنے ان کے گھر آئی- مقصد یہ تھا کہ ام سلمہؓ کو بھی اپنے ساتھ بصرہ لے چلیں تاکہ وہ بھی اس جنگ میں عائشہ کے لشکر میں شامل ہوکر مولا علیؑ سے جنگ کریں۔ عائشہ کی پیش کش سن کر جناب ام سلمہؓ نے عائشہ سے حضرت علیؑ کے فضائل بیان کرنا شروع کردیئے۔ دروازے پر کھڑے عبد اللہ ابن زبیر ان کی پوری بات سن رہے تھے۔ انھوں نے جناب ام سلمہ کو جھڑکتے ہوے کہا: “اے ابی امیہ کی بیٹی! ہم جانتے ہیں کہ تم یہ باتیں آلِ زبیر کی عداوت میں کہہ رہی ہو۔” جناب ام سلمہ نے اس کو سمجھایا کہ رحلتِ رسولؐ سے لے کر آج تک صرف علیؑ ابن ابی طالبؑ ہی مومنوں کے مولا ہیں۔
عبداللہ ابن زبیر نے کہا: “ہم نے ہرگز ایسی کوئ بات رسول اللہ (ص) سے نہیں سنی ہے۔”
جناب ام سلمہ نے جواب دیا: “اگر تم نے نہیں سنا ہے تو کیا؟ تمھاری خالہ عائشہ نے تو سنا ہے۔ ان سے پوچھ لو کہ جو میں نے کہا ہے وہ سچ ہے یا نہیں؟ میں نے رسول اللہ (ص) کو یہ کہتے ہوے سنا ہے کہ “علیؑ تم سب پر میرے خلیفہ ہیں میری زندگی میں بھی اور میرے مرنے کے بعد بھی۔ جس نے علیؑ کی مخالفت کی اس نے میری مخالفت کی۔” اے عائشہ کیا تم اس بات کی گواہی دیتی ہو یا نہیں؟؟”
عائشہ نے کہا: “ہاں!! آنحضرتؐ نے ایسا کہا تھا۔” (اس کے بعد جناب ام سلمہ نے عائشہ کو جنگ میں جانے سے روکنے کی کوشش کی مگر….)
(كتاب الفتوح – أحمد بن أعثم الكوفي – ج ٢ – ص ٤٥٤)

اس روایت سے بھی بخوبی ظاہر ہوجاتا ہے کہ حضرت علیؑ کو ولایت رسول اللہ (ص) کی زندگی میں بھی حاصل تھی اور آنحضرتؐ کے وصال کے بعد بھی اور یہی ولایت ‘خلافتِ بلافصل’ تھی۔
لہٰذا جن مولوی صاحب کو ہماری اذان میں “خلیفتہ بلافصل” کا جملہ گالی لگتا ہے وہ جان لیں کہ حضرت علیؑ کو شیعوں نے رسول الله (ص) کا بلافصل جانشین نہیں بنایا ہے بلکہ خود بحکم خدا، مرسلؐ اعظم نے بنایا ہے۔ اگر ہماری بات کا اعتبار نہ ہو تو اپنی چہیتی ‘جمل والی امّی’ سے اس بات کی تصدیق کرالیں!!!

Short URL : https://saqlain.org/so/p715