وَلَا تَلْبِسُوا الْحَقَّ بِالْبَاطِلِ وَتَكْتُمُوا الْحَقَّ وَأَنْتُمْ تَعْلَ مُون
(سورہ بقرہ: 42)
حق کوباطل کا لباس نہ پہناو اور جان بوجھ کر حق کو نہ چھپاو۔
قرآن کی اس آیت میں اللہ ان یہودی علماء کی مزمت کر رہا ہے جو جان بوجھ کر لوگوں سے حق کو چھپاتے ہیں۔ یہ لوگ اپنے ذاتی مفاد کے لیے باطل کو حق کا لباس پنہا کر اپنی قوم کو گمراہ کرتے تھے۔ ان کا جرم یہ بھی تھا کہ یہ لوگ حق کو آدھا ادھورا بیان کرتے تھے تاکہ حق چھپ جائے اور اس طرح وہ اپنی قوم کو حق سے دور کردیتے۔ ان کا ایسا کرنے سے ان کی قوم دین سے گمراہ ہوگئ اور ان کی قوم کو اس بات کا پتہ بھی نہیں لگا۔
کچہ ایسا ہی امت مسلمہ میں بھی مفاد پرستوں نےانجام دیا ہے۔ یہ لوگ بھی اپنی قوم کو آدھی ادھوری بات بتاتے ہیں، حق کو چھپاتے ہیں اور باطل کو حق کا لبادہ پنہاکر بھولی بھالی قوم کو گمراہ کرتے ہیں۔
حضرت سید الشہداء امام حسین علیہ السلام کی شہادت کا واقعہ تمام عالم اسلام کے لیے ایک عظیم مصیبت ہے۔ ان کی شہادت کا غم صرف شیعوں کو ہی نہیں بلکہ سنی مسلمانوں کو بھی ہے۔ سچائ تو یہ ہے کہ محرم اور عزاداری مسلمانوں میں باہم اتحاد کا ذریعہ بن جاتا ہے۔ مگر کچھ شر پسند نہیں چاہتے کہ کسی طرح بھی سنی شیعوں کے قریب آئیں اس لیے انھوں نے شیعوں کے مراسم عزا کو اپنے اعتراضات کا شکار بنایا اور ان پر بے بنیاد الزامات لگانے شروع کر دیے کہ ‘مردوں پر رونا بدعت ہے’، ‘تعزیہ بنانا شرک ہے’، ‘علم و تابوت کی زیارت بت پرستی ہے’ وغیرہ۔ ان تمام باتوں میں رونے پر سب سے زیادہ زور دیا جاتا ہے۔ یہ لوگ رونے رلانے کو بدعت قرار دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کبھی سوگ میں گریہ نہیں کیا اور نہ ہی ان کے اصحاب نے کبھی اس طرح گریہ کیا جیسے شیعہ کرتے ہیں۔اس مضمون میں ہم ان احادیث اور روایات کو پیش کریں گے جس سے یہ ثابت ہوجائے گا کہ راہ
خدا میں قتل ہونے والے کا سوگ منانا بدعت نہیں بلکہ عین سنت ہے۔
>(ضرور پڑھیئے – کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سوگ میں گریہ کرنے سے منع فرمایا ہے؟؟)
جناب آدمؑ اور جناب ہوّا نے اپنے فرزند ہابیل کے قتل پر سوگ منایا
بات شروع کرتے ہیں آغاز بشریت سے۔ جب اس روئے زمین پر سب سے پہلا قتل ہوا اس وقت اللہ کی حجت اس زمین پر جناب آدم تھے۔
اہل تسنن کی کتابوں میں اس بات کا ذکر ملتا ہے کہ مقتول ہابیل کے والدین نے ان کی شہادت پر گریہ فرمایا ہے۔
‘ابو البشر آدمؑ اور ان کی زوجہ جناب ہوّا نے اپنے بیٹے ہابیل کے قتل پر اس قدر گریہ کیا کہ ان کے آنسو نہر کے پانی کی طرح بہہ رہے تھے۔’
(تاریخ یعقوبی: جلد 1 صفحہ 3)
اسی واقعے کو ملا حسین کاشفی نے اپنی کتاب روضة الشہداء میں اس طرح نقل کیا ہے: ‘آدمؑ کے گریے کا یہ عالم تھا کہ ان کی داہنی آنکھ کے آنسو دریائے دجلہ کی طرح اور بائیں آنکھ کے آنسو دریائے فرآت کی طرح بہہ رہے تھے۔’
(روضة الشہداء صفحہ 30)
اصحاب رسولؐ کاسوگ میں گریہ کرنا
اتنا ہی نہیں بلکہ اہل تسنن کی تاریخ کی کتابوں میں ملتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اصحاب نے بھی سوگ میں گریہ کیا ہے۔
اہل تسنن علماء نے اس بات کو باقاعدہ نقل کیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رحلت کے بعد ان کے اصحاب پر شدید غم طاری تھا۔ بعض اصحاب کی تو شدید گریے کی وجہ سے آوازیں بلند تھیں۔
کتاب مدارج النبوة میں اس طرح مرقوم ہے: ‘جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس دنیا سے رخصت ہوئے تو آپؐ کے اصحاب فراق محبوب خدا صلی اللہ علیہ وآلہ میں اس قدر غم زدہ ہوئے کہ وہ اپنے سروں پر خاک ڈالتے پھرتے تھے بالخصوص دخترِ رسولؐ جناب فاطمہؑ کہ جن کا گریہ کسی قدر کم نہیں ہو رہا تھا بلکہ دن بدن شدید تر ہوتا گیا،وہ مسلسل دن و رات گریہ کرتی تھیں۔ جب بھی وہ اپنے بچوں حسنؑ، حسینؑ کو دیکھتیں تو ان کی بدحالی اور اپنی بدحالی پر گریہ کرتیں۔ کئ دن و رات ان کے گھر سے گریہ و زاری کی آوازیں آتی رہیں ان کا مکان ‘بیت الحزن’ بن گیا تھا۔ عائشہ بھی مستقل گریہ و زاری میں مصروف رہیں۔’
(مدارج النبوّة جلد 2 صفحہ 753-754)
اس طرح اصحاب رسولؐ کے گریہ کرنے کے مزید واقعات تاریخ کے صفحات میں جا بجا ملتے ہیں۔ مسلمانوں کے دوسرے خلیفہ عمر ابن خطّاب کے بارے میں ملتا ہے کہ جب ان کو نعمان بن مرقینہ کے فوت ہونے کی خبر ملی تو وہ اپنا سر و سینہ پیٹنے لگے اور آہ و بکا کرنے لگے کہ “ہاے افسوس! کہ نعمان گزر گئے”
( کنز العمّال: کتاب الموت ،جلد 8 صفحہ 117)
تاریخ کی کتابوں میں یہ بات بھی درج ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رحلت کے وقت عائشہ نے گریہ و ماتم کیا ہے۔ اور اس بات کو خود عائشہ نے ہی بیان کیا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ کے چچا جناب عباس روایت کرتے ہیں کہ میں نے عائشہ کو کہتے ہوئے سنا کہ: “اللہ کے رسولؐ جب اس دنیا سے رخصت ہوئے تو ان کا سر میری گود میں تھا۔ اس دن میری باری تھی اس لیے وہ میرے گھر پر تھے اور میں نے اس معاملے میں کسی کے ساتھ زیادتی نہیں کی ہے۔ یہ میرا لڑکپن اور کم علمی تھی کہ میں نے ان کے سر کو اپنے زانو پر رکھا تھا۔ پھر ان کی رحلت کے بعد میں نے ان کے سر مبارک کو تکیہ پر رکھا اور دوسری عورتوں کے ساتھ اپنے چہرے اور سینے کو پیٹنا شروع کردیا”
(ابن کثیر – البدایہ و النہایہ جلد 5 صفحہ 420، تاریخ طبری جلد 9 صفحہ 183)
ابن کثیر نے ایسی ہی ایک اور روایت یوں نقل کی ہے: عائشہ کہتی ہیں، “رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے میرے زانوں پر دم توڑا۔ پھر میں نے ان کے سر مبارک کو ایک تکیہ پر رکھ دیا اور دوسری عورتوں کے ہمراہ میں بھی اپنے چہرے کو پیٹنے لگی۔”
(البدایہ و النہایہ: جلد 5)
ان روایات سے یہ بخوبی واضح ہو جاتا ہے کہ نہ صرف یہ کہ اصحاب رسولؐ نے گریہ فرمایا بلکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے خانوادے نے بھی آپؐ کی رحلت پر مسلسل گریہ فرمایا ہے۔ اور وہ کیوں گریہ نہ کرتے انھوں نے ایسی شخصیت کو کھو دیا تھا، جس سے زیادہ کوئ اور ان کا مونس و مددگار نہ تھا۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رحلت کا صدمہ ان کی بیٹی کے لیے کسی پہاڑ کے سر پر گرجانے سے کم نہ تھا۔
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ کا گریہ کرنا
مسلمانوں کی سب سے زیادہ مستند اور معتبر کتابیں صحاح ستہ میں خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے گریہ کرنے کا بھی ذکر ملتا ہے۔ روایتیں بتاتی ہیں کہ اپنے بیٹے ابراہیم کی رحلت پر بھی سرور کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے گریہ فرمایا ہے۔ یہ روایت مسلمانوں کے یہاں سب سے زیادہ معتبر مانی جانے والی حدیث کی کتاب صحیح بخاری میں موجود ہے۔ انس بن مالک نقل کرتے ہیں کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہمراہ ابو سیف کے گھر گئے تو آپؐ کے فرزند ابراہیم کا دم نکل چکا تھا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی آنکھوں سے بیساختہ آنسو جاری ہوگئے۔
عبد الرحمٰن بن عوف نے سوال کیا: “یا رسولؐ اللہ! کیا آپ رو رہے ہیں؟؟”
آپؐ نے جواب دیا:”اے ابن عوف! یہ رونا رحمت کی علامت ہے۔” آپؐ شدت سے رونے لگے اور پھر فرمایا: “آنکھیں اشک بار ہیں،دل غم زدہ ہے مگر ہم کچھ نہیں کہیں گے مگر وہی جس میں ہمارا رب راضی ہو۔ اے ابراہیم! تمھارے فراق نے ہمیں غمزدہ کردیا ہے”
(صحیح بخاری کتاب 23 جلد 2 حدیث 390)
ان مستند کتابوں میں یہ بھی نقل ہوا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ اس وقت اس قدر مغموم ہوئے کہ آپؐ نے اپنے سینے پر ماتم بھی کیا۔
(صحیح بخاری جلد 2 صفحہ 50، صحیح مسلم جلد 1. صفحہ 291، سنن نسائی: جلد 3 صفحہ 305)