کیا صرف ‘صحابی’ ہونا فضیلت کی دلیل ہے؟: قرآنی استدلال

…ثَانِيَ اثْنَيْنِ إِذْ هُمَا فِي الْغَارِ إِذْ يَقُولُ لِصَاحِبِهِ لَا تَحْزَنْ إِنَّ
اللَّهَ مَعَنَا…(توبہ:۴٠)
….جب وہ دونوں غار میں تھے، تب انھوں (رسولؐ اللہ) نے اپنے ساتھی سے کہا: “غمزدہ نہ ہو اللہ ہمارے ساتھ ہے….”

اہل تسنن (سنی) علماء اس بات کا بڑا شور کرتے ہیں کہ خلیفہء اول کی ایک انفرادی فضیلت یہ ہے کہ قرآن نے صرف انھیں کو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ‘صاحب’ یعنی صحابی بتایا ہے۔ یوں تو سرورؐ کائنات کے بہت سے اصحاب تھے اور ان سب کا مجموعی طور پر متعدد مقامات پر قرآن میں ذکر ہوا ہے۔ اصحاب پیغمبر کی جاں نثاری اور خدمات کی تعریف قرآن نے بیان کی ہے۔ مگر لفظ ‘صحابی’ کا استعمال انفرادی طور پر صرف خلیفہ اول کے لیے ہوا ہے۔ اتنا ہی نہیں مندرجہ بالا آیت سے وہ یہ فیصلہ بھی کرلیتے ہیں کہ قرآن نے جو ابوبکر کو ‘یارِ غار’ ہونے کی سند دی ہے یہ ان کی آنحضرتؐ سے قربت کی دلیل ہے۔

در اصل اہل تسنن (سنی) علماء کا یہ ماننا ہے کہ صحابہ میں فضیلت کی ترتیب وہی ہے جو خلافتِ راشدہ کی ترتیب ہے یعنی ان کے حساب سے چونکہ ابوبکر پہلے خلیفہ ہیں اس لیے وہ تمام اصحاب سے بلکہ تمام خلفاء سے بھی افضل اور برتر ہیں اور اپنی اس بات کو ثابت کرنے کے لیے وہ قرآن کی اس آیت کا سہارا لیتے ہیں۔ اس آیت میں جو لفظ ‘صاحب’ کا استعمال ہوا ہے یہ ان کی نظر میں خلیفہ اول کی بڑی عظیم فضیلت ہے ۔ان کا ماننا ہے کہ اس آیت میں قرآن نے اس بات کی طرف اشارہ کیا ہے کہ ابوبکر رسولؐ اکرم سے بہت قریب تھے اور ان کے بھروسے مند ساتھی بھی تھے۔

اس مضمون میں اختصار کو مدنظر رکھتے ہوئے ہم صرف لفظ ‘صحابی’ پر گفتگو کریں گے۔ آئیے قرآن کی ان آیات کا جائزہ لیا جائے جن میں لفظ ‘صاحب’ استعمال ہوا ہے۔ ہماری کوشش یہ سمجھنا ہے کہ کیا واقعًا قرآن کی نظر میں یہ لفظ ‘صحابی’ کسی شرف یا فضیلت کو ظاہر کرتا ہے؟ کیا قرآن نے کسی کو رسولؑ کا ساتھی یا ‘صحابی’ ہونے کو ایک اعزاز سمجھا ہے؟

سورہ نجم کی ایک آیت میں اللہ کفار مکہ سے مخاطب ہوتے ہوئے کہتا ہے:
مَا ضَلَّ صَاحِبُكُمْ وَمَا غَوَى (نجم:٢)
تمھارا ‘صاحب’ (ساتھی) نہ کبھی گمراہ ہوا ہے اور نہ کبھی بھٹکا ہے۔

اس آیت میں کفار مکہ کے الزام کا جواب دیا گیا ہے کہ یہ شخص جو تم کو خدا کی طرف دعوت دے رہا ہے وہ اللہ کا رسولؐ ہے، تم اس کی بات کو گمراہی یا دیوانگی نہ سمجھو۔ اس آیت میں اللہ نے رسول اللہ (ص) کو کفار کا ‘صاحب’ یعنی ساتھی بتایا ہے۔

اسی طرح ایک اور مکی سورہ میں ہم پڑھتے ہیں۔
وَمَا صَاحِبُكُمْ بِمَجْنُونٍ (تکویر:22)
خدا کفار مکہ سے کہہ رہا ہے: تمھارا صاحب (ساتھی) مجنون نہیں ہے۔

ان دونوں آیات میں لفظ صاحب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لیے استعمال ہوا ہے۔ یعنی ان دونوں آیتوں میں کفار مکہ کو سرورِ عالم کا ‘صحابی’ بتایا گیا ہے- اتنا ہی نہیں سورہ یوسف کی داستان میں خدا بتلا رہا ہے کہ کس طرح جناب یوسفؑ قید خانے میں ہونے کے باوجود تبلیغ دین کے فریضے کو نبھاتے رہے ہیں۔

جناب یوسفؑ قید خانے میں اپنے ساتھیوں سے کہتے ہیں:
يَا صَاحِبَيِ السِّجْنِ أَأَرْبَابٌ مُتَفَرِّقُونَ خَيْرٌ أَمِ اللَّهُ الْوَاحِدُ الْقَهَّارُ [يوسف: 39]
اے میرے قیدخانہ کے (‘اصحاب’) ساتھیو! مختلف خدا کی پرستش بہتر ہے یا ایک خدا کی عبادت کرنا؟؟
اس آیت میں بھی کافروں اور بت پرستوں کو خدا نے ایک نبی کا صحابی بتایا ہے۔

اسی طرح ایک اور آیت میں جناب یونس کے لیے اللہ نے لفظ ‘صاحب الحوت’ یعنی مچھلی کا ساتھی (قلم:۴٨) لفظ استعمال کیا ہے۔

ان آیات سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ قرآن میں اللہ نے اس لفظ ‘صحابی’ کو متعدد مقام پر صرف اور صرف اس کے لغوی معنی یعنی ساتھی ہو نے کے لیے استعمال کیا ہے۔

جس سے کوئ فضیلت یا شرف ظاہر نہیں ہوتا۔ اس لیے اس لفظ کا ابوبکر کے لیے استعمال ہونا کوئ اعزاز یا شرف کی بات نہیں ہے۔ اس لفظ سے صرف یہ مراد لیا گیا ہے کہ جب سرورِؐ عالم ہجرت فرما رہے تھے تو ابوبکر بھی ان کے ساتھ تھے۔ بس اس سے زیادہ اور کچھ نہیں۔
رہی بات معیارِ شرف کی، تو قرآن نے خود اس معیار کو امت کے لیے مرتب کیا ہے اور وہ یہ ہے:
سورہ ابراہیم میں اللہ جناب ابراہیمؑ کے جملوں کی تائید کرتے ہوئے نقل کرتا ہے: “فمن تبعنی فانہ منی” (ابراہیم:٣٦) ‘جو میری اتباع کرتا ہے وہی مجھ سے ہے’
یعنی قربتِ رسول کا معیار رسولؐ کے حکم کی تعمیل کرنا ہے۔ جس شخص (یا صحابی) نے جتنی زیادہ رسول خدا (ص) کی اتباع کی اتنا ہی وہ آنحضرتؐ سے قریب ہے۔ اس کا دوسرے افراد سے افضل ہونا بھی اسی اطاعتِ رسولؐ کی بنا پر ہے۔

Short URL : https://saqlain.org/so/ldwt