کیا کثرت حق پر ہونے کی دلیل ہے؟

بعض علماء کی جانب سے وقتًا فوقتًا یہ بات پیش کی جاتی رہی ہےکہ وہ حق پر ہیں کیونکہ اکثریت ان کے ساتھ ہے،اپنی بات کو درست ثابت کرنے کے لئے وہ بعض اوقات احادیث نبوی کے مفہوم کو بدل دیتے ہیں ،تو بعض اوقات حدیث کے الفاظ میں اضافہ کر دیتے ہیں،تاکہ وہ ان کی بات کی دلیل بن سکے۔مثال کے طور پر یہ روایت جس کو ترمزی نے اپنی کتاب میں نقل کیا ہے [روى الترمذي (2167) عَنْ ابْنِ عُمَرَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ : ( إِنَّ اللَّهَ لَا يَجْمَعُ أُمَّتِي عَلَى ضَلَالَةٍ ، وَيَدُ اللَّهِ مَعَ الْجَمَاعَةِ ).] ترمزی اپنی کتاب میں ابن عمر سے نقل کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ارشاد ہے کہ اللہ میری امت کو گمراہی پر جمع نہیں کرےگا۔ اور اللہ کا ہاتھ (طاقت) جماعت کے ساتھ ہے۔اس طرح کی دیگر احادیث سے وہ یہ مطلب نکالتے ہیں کہ چونکہ اکثریت نے خلیفہ کی بیعت کرلی تھی اس لیے ان کی خلافت بر حق ہے۔ پھر اس کو اور آگے بڑھاتے ہوے یہ دعوی بھی کرتے ہیں کہ چونکہ اہل تسنن کی تعداد زیادہ ہے اس لیے وہ صحیح العقیدہ ہیں اور باقی سب گمراہ ہیں۔ ایسا ہی سوال جب ہشام بن حکم سے کیا گیا تو انہوں نے قران سے دلیل دے کر اسے باطل کردیا۔ واقعہ یہ ہے-

ایک مرتبہ ابو عبیدہ معتزلی نے ہشام بن حکم سے کہا:”ہمارا عقیدہ صحیح ہونے کی دلیل یہ ہے کہ ہماری تعداد زیادہ ہے اور تمھارے عقیدے کے باطل ہونے کی دلیل یہ ہے کہ تمھارے عقیدے پر لوگ کم ہیں، باوجود اس کے کہ تمھارے ساتھ اولادِ علیؑ کی کثرت ہے۔”
ہشام بن حکم نے اس کے جواب میں کہا:”تمھاری یہ دلیل تو جنابِ نوحؑ کی حقانیت پر سوال کھڑی کرتی ہے۔ انھوں نے اپنی قوم کے درمیان ساڑھے نو سو سال تبلیغ کی مگر ان کے ماننے والے کم تھے اور انکار کرنے والے زیادہ تھے۔ خود قرآن بتا رہا ہے (ما آمن معہ الا قلیل- ہود:40) نہیں ایمان لائے ان پر مگر بہت کم افراد۔”

صرف جناب نوح ہی نہیں بلکہ زیادہ تر انبیاء کے ماننے والے کم تھے اور ان کا انکار کرنے والے تعداد میں بہت زیادہ ہوا کرتے تھے۔ یہی سبب ہے کہ قرآن کی متعدد آیات میں اکثریت کے گمراہ ہونے کا ذکر ملتا ہے۔ اور یہ ایک واضح حقیقت بھی ہے کہ کثرت تعداد حق پرستی کی دلیل نہ ہوکر باطل پرستی کی دلیل ہوتی ہے۔

قرآن نے بارہا اکثریت کی اس شرپسندی کو بیان بھی کیا ہے۔ مثلًا
سورہ مائدہ آیت 66- (و اکثرھم لا یعقلون) ان میں سے اکثر عقل کا استعمال نہیں کرتے۔
سورہ اعراف: آیت 187- (و لکن اکثر الناس لا یعلمون) مگر لوگوں میں اکثر اس بات کو نہیں جانتے۔
سورہ غافر:آیت 59- (ولکن اکثر الناس لا یوءمنون) مگر لوگوں میں اکثر لوگ ایمان نہیں لاتے۔
سورہ مومنون: آیت 70- (و اکثرھم للحق کارھون) ان میں سے اکثریت حق کو نا پسند کرتی ہے۔
اس کے بر عکس قرآن کی بعض آیات میں اقلیت کی تعریف کی گئ ہے۔
سورہ سبا: آیت 13- (و قلیل من عبادی الشکور) میرے بندوں میں شکر گزار کم ہی لوگ ہیں۔

سورہ نساء آیت: 66- (ما فعلوہ الا قلیل منھم) ان نیکیوں کو ان میں سے کم لوگ ہی انجام دیتے تھے۔
خود ختمی مرتبت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو تبلیغ دین میں اس پریشانی کا سامنا کرنا پڑا کہ اکثریت ان کے خلاف تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم دن و رات امت کی ہدایت کے لیے فکر مند رہتے، ان کی ہدایت کے لیے دعا کرتے، ہر طرح سے کوشش کرتے کہ لوگ دعوت اسلام قبول کرکے اپنی دنیا و آخرت بنالیں مگر

اکثریت نے ان کی بات نہ مانی۔ قرآن ان حالات کی اس طرح عکاسی کرتا ہے۔
وَمَا أَكْثَرُ النَّاسِ وَلَوْ حَرَصْتَ بِمُؤْمِنِينَ . [يوسف : 103] آپ کی مشقتوں اور کوششوں کے باوجود بھی زیادہ تر لوگ ایمان نہیں لائیں گے۔
إِنَّهُ الْحَقُّ مِنْ رَبِّكَ ، وَلَكِنَّ أَكْثَرَ النَّاسِ لَا يُؤْمِنُونَ [هود : 17] یہ آپ کے رب کی طرف سے حق ہے مگر لوگوں کی اکثریت اس پر ایمان نہی رکہتی ہے۔
وَإِنْ تُطِعْ أَكْثَرَ مَنْ فِي الأرْضِ يُضِلُّوكَ عَنْ سَبِيلِ اللَّهِ[انعام : 116] . اگر آپ زمین پر اکثریت کی بات مان لیں تو یہ آپ کو اللہ کے راستے سے دور کر دیں گے۔

. [يوسف : 103] آپ کی مشقتوں اور کوششوں کے باوجود بھی زیادہ تر لوگ ایمان نہیں لائیں گے۔
إِنَّهُ الْحَقُّ مِنْ رَبِّكَ ، وَلَكِنَّ أَكْثَرَ النَّاسِ لَا يُؤْمِنُونَ [هود : 17] یہ آپ کے رب کی طرف سے حق ہے مگر لوگوں کی اکثریت اس پر ایمان نہی رکہتی ہے۔
وَإِنْ تُطِعْ أَكْثَرَ مَنْ فِي الأرْضِ يُضِلُّوكَ عَنْ سَبِيلِ اللَّهِ[انعام : 116] . اگر آپ زمین پر اکثریت کی بات مان لیں تو یہ آپ کو اللہ کے راستے سے دور کر دیں گے۔

اس لیے یہ کہنا کہ زیادہ تر لوگ ہمارے ساتھ ہیں اس لیے ہم حق پر ہیں،عبث ہے یا یہ دعوی کرنا کہ چونکہ اکثریت کسی ایک بات پر جمع ہو گئ ہے اور ان کی یہ کثرت حقانیت کی دلیل ہے، بالکل بے بنیاد، غلط فہمی اور دھوکا دینا ہے۔ یہ سراسر قرآنی فرمان کے خلاف ہے۔

پھر معیار ہدایت اور حقانیت کیا ہے؟
پھر کس معیار پر حق و باطل کو پرکھا جاے۔ خود مسلمانوں میں تہتر فرقے ہونے کی بات بتائ جاتی ہے۔ ان میں سے کون سا فرقہ ناجی ہے؟ آج ہم چودہ سو سال بعد کیسے جانیں کہ آیا ہم حق پر ہیں یا باطل پر؟ ہمارے اس سوال کا جواب قول رسولؐ ہے۔ اس روایت کو ہم بطور استدلال اہل تسنن کی کتاب سے بیان کر رہے ہیں جس پر تمام اہل اسلام کا اتفاق ہے۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے عمار بن یاسر سے وصیت فرمائ:”اے عمار اگر تم دیکھو کہ علیؑ ایک وادی میں داخل ہو رہے ہیں اور باقی لوگ دوسری وادی میں جارہے ہیں تو تم لوگوں کو چھوڑ کر علی کی پیروی کرنا کیوں کہ وہ کبھی ہدایت سے خارج نہیں ہوں گے اور نہ کبھی گمراہی میں داخل ہوں گے۔”
اہل تسنن کتاب: المناقب، خوارزمی صفحہ 105

پس معیار علی ابن ابی طالب علیہ السلام کی ذات ہے۔ یہی بات ہم نے جنگ جمل اور جنگ صفین میں بھی دیکھی۔ کثرت صحابہ ان کے ساتھ نہ تھی مگر حق انھیں کے ساتھ رہا اور رہے گا اس لیے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دعا ہے:”علی حق کے ساتھ ہے اور حق علی کے ساتھ ہے۔ یا اللہ حق کو ادھر موڑ دے جس طرف علیؑ مڑ جائیں”
(المستدرك، حاکم نیشاپوری ج3، ص134)

Short URL : https://saqlain.org/so/vio7