تشیع پر امام جعفر صادق علیہ السلام کے جو احسانات ہیں ان میں سے ایک احسان یہ بھی ہے کہ آپؑ نے کچھ ایسےافراد کی تربیت فرمائ کہ جن کی وجہ سے صحیح دین کو عوام میں پائداری ملی ہے۔ امام ششم کے انھیں اصحاب کرام کی خدمات کی وجہ سے دین کی صحیح تصویر لوگوں کے درمیان آج بھی زندہ ہے۔ آپ کا کوئ شاگرد قرآن کی تفسیر کا عالم ہوا، تو کوئ علم کلام میں ماہر ہوا، تو کوئ فقہ کے اصول میں مہارت رکھتا تھا۔ الغرض دین کے تمام شعبوں میں آپؑ نے اپنے شاگردوں کو ایسی تربیت دی کہ ان کی وجہ سے آج تشیع کے پاس علم کا ایک قیمتی خزانہ موجود ہے۔ ان تمام جلیل القدر اصحاب میں ایک نام ہشام بن حکم کا ہے۔ ہشام بن حکم الکندی ،کوفے کے رہنے والے تھے اور ان کا کمال یہ تھا کہ امامت و ولایت کے موضوع پر بڑے بڑےعلماء سے مناظرے کرتے ان کو یا تو خاموش کردیتےیا امامت کا قائل کردیتے تہے۔ ہشام کی ذہانت اور فراست کا یہ عالم تھا کہ امام جعفر صادقؑ علیہ السلام نے ان کو اجازت دی تھی کہ وہ تبلیغ امامت اور دفاع ولایت کے لیے مخالفین سے مباحثہ کریں۔
ہشام بن حکم کے مناظرے شیعوں کے جید علماء نے اپنی تالیفات میں نقل کیے ہیں۔ مندرجہ ذیل واقعہ معتبر کتابوں میں مثلا اصول کافی، احتجاج، بحار الانوار وغیرہ میں معمولی کم و بیش فرق کے ساتھ نقل ہوا ہے۔ ایک روز امام جعفر صادق علیہ السلام اپنے قریبی اصحاب کے ساتھ تشریف فرماتھے کہ آپؑ نے ہشام سے خطاب کرتے ہوے فرمایا: اے ہشام، تم سے عمرو بن عبید سے بصرہ میں کیا گفتگو ہوئ تھی؟ بیان کرو۔
ہشام: اے فرزند رسول، آپ کے سامنے بیان کرنے میں شرم محسوس کرتا ہوں۔
امام جعفرصادقؑ: کیا تم اپنے امام کی اطاعت نہیں کرو گے؟
ہشام: کیوں نہی ابھی بیان کرتا ہوں مولا!!
عمرو بن عبید کی بصرہ میں بڑی شہرت تھی۔ وہ اپنی جماعت کے سامنے تقریریں کیا کرتا تھا۔ ایک روز وہ مسجد میں بیٹھا تھا۔ لوگ اس کو گھیرے ہوے تھے۔ وہ ان کے سوالات کے جوابات دے رہاتھا۔ میں نے بھی اٹھ کر اس سے سوال کرنے کی اجازت مانگی۔ اجازت ملنے پر میں نے سوال کیا-
ہشام: کیا آپ کی آنکھیں ہیں؟
عمرو: یہ کیسا احمقانہ سوال ہے۔
ہشام: جی میرے ایسے ہی سوالات ہیں۔
عمرو: ہاں میری آنکھیں ہیں۔
ہشام: آپ ان سے کیا کام لیتے ہیں؟
عمرو: رنگ وغیرہ کو ان سے دیکھتا ہوں۔
ہشام: کیا آپ کی ناک ہے؟
عمرو: ہاں ہے۔
ہشام: آپ اس سے کیا کام لیتے ہیں؟
عمرو: میں اس سے خوشبو اور بدبو معلوم کرتا ہوں۔
ہشام: آپ کےپاس کان ہیں؟
عمرو: ہاں، ہیں
ہشام: اس سے کیا کام لیتے ہیں؟
عمرو: میں اس سے آوازیں سنتا ہوں۔
ہشام: کیا آپ کے پاس دل ہے؟
عمرو: ہاں ہے۔
ہشام: توآپ اس سے کیا کام لیتے ہیں؟
عمرو: اس کے ذریعہ ان چیزوں میں جو اعضاء و جوارح پر وارد ہوتی ہیں تمیز کرتا ہوں۔
ہشام: ان اعضاء کے صحیح و سالم ہوتے ہوئے یہ دل کے کیوں محتاج ہیں؟
عمرو: یہ اعضاء جب اپنے کام میں تردد کا شکارہوتے ہیں تو اسےدل کے سامنے پیش کرتے ہیں وہ شبہ کو دورکر دیتا ہے۔
ہشام: اس کا مطلب یہ ہواکہ خدا نے دل کو انسان کے جسم میں اس لیے رکھا ہے کہ جب کبھی اعضاء و جوارح میں اختلاف یا شبہ ہو تو وہ فیصلہ کر دیتا ہے؟
عمرو: بیشک بیشک۔
ہشام: جب خدا نے اعضاء و جوارح کو تنہا اور آزاد نہیں چھوڑا، بلکہ ان کے لئےایک امام مقرر کیا ہے تو اتنی بڑی کائنات کو بغیر امام کے کیسے چھوڑ دے گا ؟
ہشام: میری باتیں سن کر عمرو بن عبید دنگ رہ گیا اور دیر تک وہ میری طرف دیکھتا رہا پھر کہنے لگا۔
عمرو: کیا تم ہشام ہو؟
ہشام: نہیں۔
عمرو: ہشام کے دوستوں میں سےہو؟
ہشام: نہیں
عمرو: اچھا کہاں کے رہنے والے ہو؟
ہشام: کوفے کا رہنے والا ہوں۔ عمرو: پھر تو تم ہشام ہی ہو۔
ہشام: اسے یقین ہو گیا کہ میں ہشام ہوں، تواپنی جگہ مجھے دے دی۔اور جب تک میں بیٹھا رہا کوئ کلام نہی کیا۔
امام صادق علیہ السلام: مرحبا ہشام مرحبا۔ یہ تم نے کہاں سے سیکھا ہے؟
ہشام: مولا! سب آپ ہی سے سیکھا ہے بس ہم نے ترتیب دےکر بیان کر دیا ہے۔
امام صادق : اے ہشام! بخدا ابراہیم و موسی علیہما السلام کے صحیفوں میں بھی یہی لکھا ہوا ہے۔
اس واقعہ سے جناب ہشام بن حکم کی قدرو منزلت کا پتہ چلتا ہے۔ امام علیہ السلام نے نہ صرف یہ کہ ان کی تعریف اور حوصلہ افزائ فرمائ بلکہ ان کے علم کا الہامی ہونے کی طرف بھی اشارہ کیا ہے۔ امام علیہ السلام کا یہ ظاہر کرنا کہ یہ باتیں انبیاء علیہم السلام کے صحیفوں میں موجود ہیں اسی بات کی طرف اشارہ کرتا ہے ۔
اللہ ہم سب کو مدافع ولایت امیر المومنین علیہ السلام میں قرار دے۔
آمین