إِنَّ الَّذِينَ يُؤْذُونَ اللَّهَ وَرَسُولَهُ لَعَنَهُمُ اللَّهُ فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ وَأَعَدَّ لَهُمْ عَذَابًا مُهِينًا
[سوره الأحزاب 57]
جو لوگ اللہ اور اس کے رسول کو اذیت دیتے ہیں، اللہ ان پر اس دنیا میں اور آخرت میں لعنت کرتا ہے اور ان کے لیے آخرت میں دردناک عذاب ہے۔
ایام فاطمی سال کے وہ درد ناک ایام ہیں جن میں اہلبیت علیہم السلام کے چاہنے والے شہزادی کونین، خاتون محشر، دختر رسولؐ، جناب سیدہ سلام اللہ علیہا کے غم کو اور مصائب و آلام کو یاد کرتے ہیں۔ ان ایام میں خصوصی طور پر آپؑ پر ہونے والے مظالم کا ذکر کیا جاتا ہے۔ یہ وہ ایام ہیں،جن میں دخترِ رسولؐ طویل مدت تک سخت مصائب و آلام سے دوچار رہنے کے بعد اس دنیاسے رخصت ہو گئیں ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رحلت کے بعد آپ کو امت کے ہاتھوں اتنے مصائب برداشت کرنے پڑے کہ آپ کی کمر خمیدہ ہوگئ، جسم لاغر ہوگیا، پہلو شکستہ ہوگیا۔ رسولؐ اکرم کی شہادت کے بعد آپ جتنے دن بھی حیات رہیں، دن رات اپنے بابا کے غم میں تڑپتی رہیں۔ آپ دن رات صرف اپنے بابا کا مرثیہ پڑھتی رہیں۔ یہ مظالم آپ کو اس لیے برداشت کرنے پڑے کیوں کہ جسم کی کمزوری اور بابا کے غم سے شکستہ دل ہونے کے باوجود آپؑ نے بڑی دلیری سے آگے بڑھ کر اپنے وقت کے امام اور حقیقی جانشین سرورِ کائنات حضرت علی ابن ابی طالب علیہ السلام کا دفاع کیا۔ خود ظالموں کے ظلم کا سامنا کیا اور اپنے گھر پر حملہ کرنے والوں سے اپنے شوہر علیؑ مرتضیٰ کی جان بچائ۔ یہی سبب ہے کہ یہ ایام عاشقان آل محمدؑ کے لیے رنج و غم کے ایام ہیں۔ یہی وہ دن ہیں جب دنیا میں علیؑ بالکل اکیلے رہ گئے۔ حسنین یتیم ہوگئے اور رسول اللہ کی اکلوتی غم خوار بیٹی اس دنیا سے چلی گئ۔
جناب زہرا کے دشمنوں سے براءت
ان ایام میں جہاں جناب سیدہ سلام اللہ علیہا کی شہادت کا ذکر ہوتا ہے وہیں ان پر ظلم کرنے والوں سے نفرت اور بیزاری کا ذکر بھی کیا جاتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ مظلوم سے ہمدردی کا تقاضہ ہے کہ ظالم سے اظہار براءت کیا جائے۔ ظالموں سے براءت اور بیزاری کرنا ایک حکم قرآنی بھی ہے۔ حکم تو یہاں تک ہے کہ تمھارے اپنے لوگ بھی اگر کفر کو ایمان پر ترجیح دیں تو انہیں بھی اپنا دوست نہ سمجھو کیوں کہ جو ایسا کرتا ہے وہ خود ظالم ہوجاتا ہے۔
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَتَّخِذُوا آبَاءَكُمْ وَإِخْوَانَكُمْ أَوْلِيَاءَ إِنِ اسْتَحَبُّوا الْكُفْرَ عَلَى الْإِيمَانِ وَمَنْ يَتَوَلَّهُمْ مِنْكُمْ فَأُولَئِكَ هُمُ الظَّالِمُونَ [سوره التوبة:23
اے ایمان لانے والو! اپنے والدین کو اور اپنے بھائیوں کو اپنا دوست نہ سمجھنا اگر وہ ایمان پر کفر کو ترجیح دیں۔ تم میں سے جو بھی کافروں کو اپنا دوست سمجھتا ہے تو وہ خود ظالموں سے ہوگا۔
اس آیت کی تفسیر میں کتاب البرہان میں امام محمد باقر علیہ السلام سے روایت ہے کہ اس آیت میں ‘ایمان’ سے مراد علی ابن ابی طالب علیہ السلام کی ولایت ہے اور ‘کفر’ سے مراد ان دونوں کی ولایت کو قبول کرنا ہے۔”
پھر جن لوگوں نے اس کفر کے ساتھ ساتھ بیت فاطمہؑ پر حملہ کیا ان کا جرم تو اور سنگین ہے۔ وہ لوگ نہ صرف یہ کہ حضرت علیؑ کی ولایت کے منکر ہوے بلکہ ایک عظیم ظلم کے مرتکب بھی قرار پائے۔
مومنوں کے لیے قرآن کا حکم ہے کہ اے حق پرست مسلمانو!! ظالموں کے ساتھ کبھی میل نہ رکھنا۔
وَلَا تَرْكَنُوا إِلَى الَّذِينَ ظَلَمُوا فَتَمَسَّكُمُ النَّارُ وَمَا لَكُمْ مِنْ دُونِ اللَّهِ مِنْ أَوْلِيَاءَ ثُمَّ لَا تُنْصَرُونَ
[سوره هود: 113]
“ظالموں کی طرف بالکل بھی مائل نہ ہونا ورنہ تم بھی آگ کی لپیٹ میں آجاوگے….”
اس آیت سے بخوبی واضح ہوجاتا ہے کہ اگر ظالموں سے براءت و بیزاری نہیں کی گئ تو ان کی سرکشی اور طغیانی کا اثر ہم کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لےگا۔ اس کے علاوہ خدا کے نزدیک ظالم کا ساتھ دینے والا بھی اس کے جرم میں شریک ہوتا ہے۔
یوں تو تاریخ بشریت کے ہر صفحے پر ظلم و استبداد کی داستانیں لکھی ہوئیں ہیں۔ مگر دختر رسولؐ پر ہونے والے مظالم شدید تر ہیں۔ ان پر اس قدر مصائب ڈھاے گئے کہ آپ اپنے اوپر ظلم کرنے والوں پر ہر نماز میں بددعا کیا کرتی تھیں۔
(ابن قتيبة: الامامةوالسياسة)
روایات بتاتی ہیں کہ خود رحمت للعالمین، سرکار انبیاء صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی دختر پر ظلم کرنے والوں پر لعنت کی ہے۔ (بحار الانوار جلد 43 صفحہ 172) اس کے علاوہ ایسے متعدد واقعات ملتے ہیں جہاں ائمہ علیہم السلام نے اپنی جدہ ماجدہ جناب فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا پر ظلم کرنے والوں پر لعنت کرنے والوں کے لیے دعا کی ہے اور اس عمل کو نیک قرار دیاہے۔ اس طرح کا ایک واقعہ ہم نے اپنے ایک مضمون میں نقل کیا ہے جسے طول مضمون کے سبب یہاں دہرا نہیں رہے ہیں۔
اس واقعے کو آپ اس لنک پر کلک کرکے پڑھ سکتے ہیں۔
اس مقام پر ہم صرف ائمہ سے مروی ان زیارات کے فقروں کو پیش کر رہے ہیں جن میں جناب سیدہ سلام اللہ علیہا پر ظلم کرنے والوں کے لیے لعنت کی گئ ہے۔
جناب سیدہ سلام اللہ علیہا کی ایک زیارت جو کتاب ‘البلد الامین’ میں نقل ہوئ ہے اس میں ہم پڑھتے ہیں:
“السلام علیک أیّتها البتول الشهیدة؛ لعن اللّه مانعک إرثک و دافعک عن حقّک،
لعن اللّه أشیاعهم و أتباعهم و ألحقهم بدرک الجحیم”
(عوالم العلوم جلد11 صفحہ 1138)
“سلام ہو آپ پر اے بتول!! اے شہیدہ راہِ خدا !! اللہ لعنت کرے اس پر جس نے آپ کو آپ کی میراث سے محروم کیا اور آپ کو آپ کے حق سے محروم رکھا۔ اللہ ان (ظالموں) پر، ان کے ساتہیوں پر اور ان کی پیروی کرنے والوں پر لعنت کرے اور ان سب کا ٹھکانہ جہنم قرار دے۔”
اسی طرح کے لعنت اور براءت کے فقرے آپؑ کی دیگر زیارتوں میں بھی نقل ہوئے ہیں۔ کتاب ‘عوالم العلوم’ کے مولف نے اپنی کتاب کی جلد 11 کے ایک باب میں ان زیارتوں میں سے کچھ کو نقل کیا ہے۔ کتاب مصباح الزائر میں خاتون محشر صلوات اللہ علیہا کی ایک زیارت میں یہ جملے ملتے ہیں۔
“السلام علیک أیّتها المظلومة الصابرة، لعن اللّه من منعک حقّک و دفعک عن إرثک؛
و لعن اللّه من ظلمک و أعنتک و غصّصک بریقک و أدخل الذلّ بیتک؛ و لعن اللّه من رضی بذلک و شایع فیه و اختاره و أعان علیه و ألحقهم بدرک الجحیم. إنّی أتقرّب إلی اللّه سبحانه بولایتکم أهل البیت و بالبراءة من أعدائکم من الجنّ و الإنس و صلّی اللّه علی محمّد و آله الطاهرین.”
(مصباح الزائر: ۲۵- ۲۶، عنه البحار: ۱۰۰/ ۱۹۸ ح ۱۶، مزار المشهدی: ص ۶۳).
“سلام ہو آپ پر اے وہ مظلومہ کہ جس نے ان مظالم پر صبر کیا! اللہ لعنت کرے اس پر جس نے آپ کو اپنا حق حاصل کرنے سے روکا اور آپ کو آپ کی میراث سے محروم کیا۔ اللہ لعنت کرے ان پر جنھوں نے آپ پر ظلم و ستم کیا اور آپ کے گھر کی بے حرمتی کی۔اللہ لعنت کرے ہر اس شخص پر جو آپ پر ظلم کرنے پر راضی ہو یا اس ظلم سے خوش ہوا ہو یا اس ظلم کے اقدام میں کسی طرح شامل ہوا ہو، اللہ ان سب کا ٹھکانہ جہنم قرار دے۔ میں آپ اہلبیتؑ کی ولایت اور جن و انس میں آپ کے تمام دشمنوں سے براءت کے ذریعے اللہ کی قربت حاصل کرنا چاہتا ہوں۔ اللہ محمدؐ اور ان کی آل پاک پر رحمت نازل فرماے۔”
ویسے تو ان زیارتوں کے لیے کوئ مخصوص ایام کا ذکر نہیں ہے اس لیے روزانہ ان کی تلاوت کرنا انسان کے ثواب میں کئ گنا اضافے کا سبب بنے گا۔ مگر ایام فاطمی سے زیادہ کون سی بہتر مناسبت ہوگی لہذا ان دنوں میں زیارتوں کی تلاوت پر خصوصی توجہ دینی چاہیے تاکہ دشمنانِ سیدہؑ پر لعنت کرکے ہم اپنی شہزادی دوعالم کی اور خدا کی خوشنودی حاصل کر سکیں۔