تاریخ میں ہمیشہ وہابیت کی طرف سے حضرت امام حسین علیہ السلام کے قیام اور ان کی عزاداری پر شبہات پیش کیے گئے ہیں اور ان میں سے ایک شبہ عزاداری کو بدعت شمار کرنا ہے۔ اس سلسلے میں ابن تیمیہ، جو کہ وہابیت کے نظریہ پرداز ہیں، یوں کہتے ہیں:
1. “ومن حماقتهم إقامة المأتم والنياحة على من قد قتل من سنين عديدة.”
ترجمہ: شیعوں کی حماقتوں میں سے ایک یہ ہے کہ وہ سالوں پہلے قتل کیے گئے شخص کے لیے ماتم اور نوحہ کرتے ہیں۔
(منہاج السنتہ النبویہ، ابن تیمیہ، جلد 1، صفحہ 52)
2. “وصار الشيطان بسبب قتل الحسين رضي الله عنه يحدث للناس بدعتين، بدعة الحزن والبكاء والنوح يوم عاشوراء… وبدعة السرور والفرح.”
ترجمہ: شیطان نے حسین رضی اللہ عنہ کے قتل کے سبب لوگوں میں دو بدعتیں پیدا کیں: 1. عاشورہ کے دن غم اور رونے اور نوحہ کرنے کی بدعت… 2. خوشی اور مسرت کی بدعت۔
(منہاج السنتہ، ابن تیمیہ، جلد 4، صفحات 334 تا 553)
اور اسی طرح کے شبہات ابن تیمیہ نے مندرجہ ذیل متن میں بھی پیش کیے ہیں:
3. “الروافض لما ابتدعوا إقامة المأتم وإظهار الحزن يوم عاشوراء لكون الحسين قتل فيه…”
ترجمہ: روافض (شیعوں) نے عاشورہ کے دن ماتم اور غم و اندوہ کا اظہار اس وجہ سے بدعت قرار دیا کہ حسین اس دن قتل ہوئے…
(حاشیہ رد المحتار ابن عابدین، جلد 2، صفحہ 599)
جواب:
مندرجہ بالا شبہات، جو وہابیت کی طرف سے امام حسین علیہ السلام کی عزاداری کے بارے میں سب سے بنیادی شبہات میں سے ہیں، کا جواب دینے کے لیے، ہم مندرجہ ذیل حصوں میں اس کا جائزہ لیں گے:
حصہ اول: بدعت کی تعریف اور اس کے ارکان۔
حصہ دوم: قرآن اور انبیاء کے نزدیک گریہ اور آنسو کا مقام۔
حصہ سوم: نبوی سیرت میں گریہ اور آنسو کا مقام۔
حصہ چہارم: سنت نبوی میں امام حسین علیہ السلام کی عزاداری۔
حصہ پنجم: معصومین کی سیرت میں امام حسین علیہ السلام کی عزاداری۔
حصہ ششم: صحابہ کی سیرت میں عزاداری۔
حصہ ہفتم: اہل سنت میں عزاداری۔