1,255

امیر المومنین علی ابن ابی طالب علیہ السلام کے فضائل شیعہ اور سنی تفسیر میں.

Print Friendly, PDF & Email

جار اللہ زمخشری اپنی تفسیر ( تفسیر الکشاف) میں، ‘ ‘، جلد 2۔ 4، ص۔ 197 ابن عباس سے روایت ہے کہ ایک دفعہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اپنے اصحاب کے ساتھ امام حسن علیہ السلام اور امام حسین علیہ السلام کی عیادت کے لیے تشریف لے گئے جب وہ بیمار تھے۔ اس وقت امیر المومنین علی علیہ السلام وہاں موجود تھے۔ حضور (ص) نے فرمایا
“اے ابوالحسن! آپ اپنے بچوں کی جلد صحت یابی کے لیے نذر کیوں نہیں مانتے؟ اس طرح علی (ع)،جناب زہرا(س) اورجناب فضّہ نے تین دن کے روزے رکھنے کی نظر مان لی کہ اگر بچے بیماری سے صحت یاب ہوجائیں تو یہ حضرات تین دن روزہ رکھیں گے۔ حسنین (علیہما السلام) کی صحت یابی کے بعد جب انہوں نے پہلے دن کا روزہ رکھا تو گھر میں افطاری کے لیے کچھ بھی نہیں تھا ۔ امام علی علیہ السلام نے خیبر کے ایک یہودی شمعان سے تین کلو جَو قرض لیا۔ آپ (ع) نے وہ جَو جنابِ زہرا (س) کو دیا جنہوں نے اس سے چند روٹیاں بنائیں۔ البتہ جب افطاری کے لیے بیٹھے اس وقت ان کے دروازے پر ایک فقیر نے آواز دی کہ اے اہل بیت! میں آپ کو سلام پیش کرتا ہوں۔ میں غریب اور محتاج ہوں۔ مجھے کچھ کھانے کو دو۔ یقیناً اللہ تمہیں جنت کے سامان سے نوازے گا۔ یہ التجا سن کر ان سب نے اپنے اپنے حصے کی افطاری مانگنے والے فقیر کو دے دی اور پانی سے ہی روزہ کھولا۔ دوسرے دن انہوں نے پھر روزہ رکھا۔ ایسا ہی معاملہ ہوا۔ اس بار افطار کے وقت ایک یتیم آیا اور کچھ مدد کی التجا کی۔ اس بار بھی ان تینوں نے اپنے حصے کی افطاری اس یتیم کو دی۔ جب انہوں نے تیسرے دن روزہ رکھا تو پھر افطار کے وقت ایک مسکین ان کے دروازے پر آیا اور کھانے کی درخواست کی۔ تیسری بار سب نے اپنے حصے کی افطاری اس غریب کو دے دیا۔ اگلی صبح امام علی علیہ السلام، امام حسن اور امام حسین علیہما السلام کے ساتھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے ملنے گئے، آپ نے انہیں بھوک اور پیاس کی وجہ سے کانپتے دیکھا۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا۔ ’’تمہیں اس حالت میں دیکھ کر مجھے دکھ ہوا۔‘‘ پھر حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اٹھے اور جنابِ زہرا سلام اللہ علیہا کے گھر تشریف لے گئے۔ آپ نے انہیں محراب میں بیٹھا پایا اور بھوک کی وجہ سے اس قدر کمزور ہو چکی تھی کہ آپ کا پیٹ آپ کی کمر کو چھو رہا تھا جبکہ آپ کی آنکھیں اندر دھنس چکی تھیں۔ اپنی پیاری بیٹی کو اس حالت میں دیکھ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو دکھ ہوا۔ اس وقت حضرت جبرائیل امین آسمان سے نازل ہوئے اور حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے فرمایا: اے محمد (ص)! اللہ تعالیٰ نے یہ سورہ آپ کو اور آپ کے اہل بیت علیہم السلام کو بطور سلام اور مبارکباد پیش کیا ہے۔ چنانچہ حضور (ص) نے اس موقع پر سورہ دہر کی تلاوت فرمائی۔

• مانگنے والے جبرائیل، میکائیل اور اسرافیل تھے: علامہ شافعی۔
علامہ نیشاپوری اپنی تفسیر میں اس واقعہ کو بیان کرنے کے بعد لکھتے ہیں: روایات کے مطابق تینوں راتوں میں دروازے پر آنے والا فقیر کوئی اور نہیں بلکہ جناب جبرائیل علیہ السلام تھا۔ وہ اللہ کے حکم پر ان کے صبر کا امتحان لے رہا تھا۔

شہاب الدین آلوسی نے اپنی تفسیر ” روح المعانی ” جلد 1 میں “الکشاف” کا مذکورہ واقعہ نقل کیا ہے ۔ 29 ص 158 اور تبصرے میں لکھا ہے کہ “امام علی علیہ السلام اور جناب زہرا سلام اللہ علیہا کے بارے میں کوئی کیا کہہ سکتا ہے سوائے اس کے کہ امام علی علیہ السلام تمام مومنین کے پیشوا اور پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے جانشین ہیں۔ کیا جنابِ فاطمہ رضی اللہ عنہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی محبوب اور سعادت ہیں؟ امام حسن (ع) اور امام حسین (ع) پھول کی خوشبو کی طرح ہیں اور جنت کے جوانوں کے سردار ہیں۔ یہ عقیدہ صرف شیعہ (رافضی) کا نہیں ہے۔ درحقیقت اس کے علاوہ کسی چیز پر ایمان لانا سراسر گمراہی ہے۔‘‘
چنانچہ سورہ دہر کی تمام آیات اہل بیت علیہم السلام کی فضیلت کو ثابت کرنے کے لیے نازل ہوئ ہیں۔ اس باب میں غور طلب بات یہ ہے کہ اس میں اگرچہ جنت کی نعمتوں کا ذکر ہے لیکن اس باب میں حوروں کا کوئی ذکر نہیں ہے ۔ یہ جناب فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کی تعظیم کی علامت ہے۔
مزید تفصیلات کے لیے یہ حوالے دیکھے جا سکتا ہیں:
(الف) حافظ جلال الدین السیوطی کی الدر المنثور، جلد 1 ۔ 6، ص۔ 299،
(ب) ابو حیان العندلوسی کی البحر المحیط، جلد 1۔ 8، ص۔ 395
(c) حافظ سلیمان قندوزی کی ینابیع المودۃ، صفحہ 1 ۔ 93
علامہ شافعی نے اپنی کتاب کفایة الطالب میں صفحہ ٢٤۔ 345 لکھا ہے کہ “پہلا فقیر جبرائیل، دوسرا میکائیل اور تیسرا اسرافیل تھا۔”

•حضرت ابراہیم علیہ السلام اور امام علی علیہ السلام:
علامہ شہاب الدین العلوسی البغدادی اپنی تفسیر (تفسیر) روح المعانی ، جلد 3، صفحہ 3 میں لکھتے ہیں۔ 26 حضرت ابراہیم علیہ السلام کے اللہ سے اس سوال کے بارے میں کہ وہ مردوں کو کیسے زندہ کرے گا کے بارے میں ایک ریسرچ اسکالر کا نظریہ۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنے دل کی تسکین کے لیے یہ سوال کیا تھا۔ عالم کا کہنا ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کا یہ سوال کسی طور بھی انہیں امام علی علیہ السلام سے کم اہمیت نہیں دیتا۔ اس عالم کی دلیل ہم یہاں نقل کرتے ہیں اور بعد میں اس کا تجزیہ کریں گے۔

علامہ آلوسی اس عالم کا قول ذکر کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ مجھے اس محقق کے اس قول پر تعجب ہوا جس میں وہ حضرت ابراہیم کا دفاع کرتے ہوئے کہتا ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کا سوال کسی شک کی وجہ سے نہیں تھا۔ بلکہ وہ یہ جاننے کے متمنی تھے کہ اللہ تعالیٰ مردوں کو کیسے زندہ کرے گا تاکہ آپ (ع) کو اس معاملے کا مکمل علم ہو سکے۔ معلوم ہونا چاہیے کہ اس معاملے میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کی لاعلمی ان کے کمزور ایمان کی علامت نہیں ہے۔ اس کا بہترین ثبوت یہ ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اللہ سے پوچھا کہ کیسے ؟ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام مردوں کو زندہ کرنے کے عمل کو جاننے کے لیے بے چین تھے۔

حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی یہ ظاہری بے خبری کسی طور پر بھی اس بات کی نشاندہی نہیں کرتی ہے کہ آپ (علیہ السلام) اللہ کی مطلق اور لامحدود قدرت سے ناواقف تھے۔ مُردوں کو زندہ کرنے کے “عمل” کو سمجھنا یقین کی شرط نہیں ہے۔ لہٰذا، حضرت ابراہیم علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے مردوں کو کس طرح زندہ کیا جائے گا، اس کے بارے میں آگاہی ان کے ایمان کی سطح میں اضافہ نہیں کرتی۔ چنانچہ جب امام علی علیہ السلام فرماتے ہیں کہ,” اگر غیب کے پردے اٹھا دیا جائیں تو اس سے میرے یقین میں اضافہ نہیں ہوگا” وہ خلیل اللہ کے عقیدہ کے مقابلے میں اپنے عقیدہ کی برتری ثابت کرنے کی کوشش نہیں کر رہا ہے۔( جیسا کہ جاہل شیعہ ثابت کرنے کی کوشش کر رہے ہیں)۔ ہمارے اکثر علماء بھی اس نقطہ نظر سے ناواقف ہیں اور اپنے آپ کو شیعوں کے اس تصور کی تردید کرنے میں دشواری کا شکار ہیں کہ امام علی علیہ السلام حضرت ابراہیم علیہ السلام سے افضل تھے۔
فخرالدین رازی اپنے جواب میں کہتے ہیں کہ ’’دل کا اطمینان‘‘ کا مطلب ہے ’’شک کرنے والے کے دل میں پیدا ہونے والے شبہات کو دور کر دینا‘‘ تفسیر کبیر جلد 1۔ 7، ص۔ 40۔ بے سکونی اور تذبذب کے بعد دل کی تسکین کو تمانیہ کہتے ہیں۔ یہ لفظ ‘زمین کی سکون’ سے ماخوذ ہے ۔ ایک ‘پرسکون زمین’ زمین پر وہ جگہ ہے جہاں بہتا ہوا پانی رک جاتا ہے (زمین میں ایک چھوٹا سا دباؤ کی طرح)۔ لہٰذا حضرت ابراہیم علیہ السلام کی تسکین قلب کی درخواست سے ثابت ہوتا ہے کہ آپ (ع) ایک “مکمل اور کامل ایمان” چاہتے تھے اور ان کے دل میں موجود تمام شکوک و شبہات کو دور کیا جائے۔
ایک اہم نکتہ جس کا یہاں ذکر کرنا ضروری ہے وہ یہ ہے کہ ہم نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کے بارے میں جو بھی بحث کی ہے وہ اہل بیت علیہم السلام پر لاگو نہیں ہے۔ اگر یہ فرض کر لیا جائے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام جو ‘دل کا اطمینان’ چاہتے تھے وہ مردوں کو زندہ کرنے کے عمل سے نہیں تھا، بلکہ وہ اس بات کا یقین کرنا چاہتے تھے کہ کیا وہ اللہ کے ‘دوست’ ہیں؟ امام رضا علیہ السلام کی ایک روایت اس حقیقت کی طرف اشارہ کرتی ہے۔ علی ابن محمد ابن جہم بیان کرتے ہیں:

ایک دفعہ میں مامون کے دربار میں تھا اور امام رضا علیہ السلام بھی حاضر تھے۔ مامون نے آپ (ع) سے پوچھا: اے فرزند رسول! کیا تم یہ نہیں کہتے کہ تمام انبیاء علیہم السلام معصوم تھے؟ (پھر اس نے امام رضا علیہ السلام سے پچھلے انبیاء علیہم السلام کے بارے میں کچھ سوالات پوچھے، خاص طور پر حضرت آدم علیہ السلام کے بارے میں)، پھر امام علیہ السلام سے فرمایا: “آپ کا حضرت ابراہیم علیہ السلام کے بارے میں کیا کہنا ہے؟ جب اس نے اپنے اللہ سے سوال کیا کہ اے میرے رب مجھے دکھا کہ تو مردوں کو کیسے زندہ کرے گا؟تو اللہ نے اس سے پوچھا: کیا تم ایمان نہیں رکھتے؟ دل۔”

امام رضا علیہ السلام نے جواب دیا:
اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو وحی کی کہ میں اپنے بندوں میں سے ایک خلیل بنانا چاہتا ہوں اور اگر وہ بندہ مجھ سے پوچھے کہ میں مردوں کو کیسے زندہ کروں گا؟ پھر میں اس کے سوال کا جواب دوں گا۔” حضرت ابراہیم علیہ السلام نے سوچا کہ شاید میں ہی اللہ کا خلیل ہوں۔ تو انھوں نے پوچھا، “اے میرے رب! مجھے دکھا تو مردوں کو کیسے زندہ کرے گا؟’ اللہ نے اس سے پوچھا، ‘کیا تم ایمان نہیں رکھتے؟’ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے جواب دیا ہاں۔ لیکن میں یقین کرنا چاہتا ہوں (کہ میں آپ کا دوست ہوں۔”

اگرچہ یہ روایت مختلف کتابوں مثلاً عیون الاخبار الرضا (ع)، تفسیر البرہان اور تفسیر نور الثقلین میں موجود ہے، لیکن پھر بھی یہ شک سے خالی نہیں ہے۔علامة طباطبائی (رح) نے اپنی تفسیر المیزان جلد 1 میں 1، صفحہ 147 لکھتے ہیں، “انبیاء کی عصمت کے بارے میں علی ابن جہم کا جواب (کہ وہ پیدائش سے ہی معصوم ہیں) شیعہ مذہب کے عمومی نظریہ سے متفق نہیں ہے۔ لہٰذا یہ روایت شک و شبہ سے پاک نہیں ہے۔

“حضرت ابراہیم علیہ السلام ان کے شیعوں میں سے ہیں”
قرطبی اپنی تفسیر میں لکھتے ہیں کہ الکلبی اور الفارع کہتے ہیں کہ جان لو کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام پیغمبر اکرم (ص) کے شیعوں میں سے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ لفظ سے مراد حضور صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔ جبکہ ابن عباس اور مجاہد کے نزدیک لفظ میں اسم ضمیر سے مراد حضرت نوح علیہ السلام ہیں۔ [1]
طبری لکھتے ہیں کہ بعض عربی ادیبوں کے نزدیک اس آیت کا مطلب یہ ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے شیعوں میں سے ہیں۔ [2]
فخرالدین رازی اپنی تفسیر میں لکھتے ہیں کہ لفظ کا ضمیر کس کی طرف اشارہ کرتا ہے؟ اس سلسلے میں دو آراء ہیں۔ پہلا اور زیادہ واضح قول یہ ہے کہ اس سے مراد حضرت نوح علیہ السلام ہیں اور کلبی کے نزدیک اس سے حضور صلی اللہ علیہ وسلم مراد ہیں۔ [3]
علامہ طباطبائی (رح) کہتے ہیں کہ شیعہ سے مراد “ایک گروہ” یا کسی کے نقش قدم پر چلنے والا ہے۔ مختصر یہ کہ اگر کوئی کسی کے عمل کی پیروی کرتا ہے اور اس کی تقلید کرتا ہے تو وہ اس شخص کا شیعہ ہوجاتا ہے حالانکہ پیروکار اور رہنما مختلف ادوار میں رہتے ہیں۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ سورہ سبا آیت 54 میں فرماتا ہے:”
اور ہم ان کے اور ان کے درمیان پردہ ڈال دیں گے جس طرح وہ چاہتے تھے جیسا کہ ہم نے ان سے پہلے والوں کے لیے کیا تھا۔
امام جعفر صادق علیہ السلام اس آیت کے بارے میں فرماتے ہیں۔
اس کا مطلب ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام امام علی علیہ السلام کے شیعوں میں سے ہیں۔ [4]
اہل سنت کے بہت سے علماء کا خیال ہے کہ یہ آیت امام علی علیہ السلام کے بارے میں نازل ہوئی ہے۔ فخرالدین رازی کہتے ہیں کہ ہم تک بہت سی روایات پہنچی ہیں کہ یہ آیت حضرت علی علیہ السلام کے بارے میں ہے۔

اس سلسلے میں تیسری روایت کہتی ہے کہ یہ آیت خاص طور پر امام علی علیہ السلام کی طرف اشارہ کرتی ہے۔ جس رات پیغمبر اکرم (ص) مکہ سے ہجرت کر کے غار حرا کی طرف روانہ ہوئے تو امام علی علیہ السلام اپنے بستر پر لیٹے ہوئے تھے۔ جناب جبرائیل علیہ السلام آپ کے سر کے پاس کھڑے تھے جب کہ جناب میکائیل رضی اللہ عنہ آپ کے پاؤں کے پاس کھڑے تھے۔ جب کہ حضرت جبرائیل علیہ السلام پکار رہے تھے، ’’ شاندار ! آپ جیسا کوئی نہیں اے ابو طالب کے بیٹے! اللہ فرشتوں میں فخر محسوس کر رہا ہے۔” اس وقت یہ آیت نازل ہوئی۔ [5]

ابو حیان عندلوسی بیان کرتے ہیں کہ یہ آیت اس وقت نازل ہوئی جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کی امانتیں امام علی علیہ السلام کو واپس کرنے اور ان کے قرض کی ادائیگی کی ذمہ داری سونپی تھی۔ . یہ وہ وقت تھا جب وہ مکہ سے ہجرت کر رہے تھے اور امام علی علیہ السلام کو اپنے بستر پر سونے کا حکم دیا تھا۔ [6]
شہاب الدین آلوسی کہتے ہیں: شیعہ فرقہ اور ہم میں سے بعض کا خیال ہے کہ یہ آیت امام علی علیہ السلام کی شان میں نازل ہوئی ہے جب انہیں ہجرت کی رات میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بستر پر سونے کا حکم دیا گیا تھا۔ ” [7]

کتاب کا علم کس کے پاس ہے؟
عبداللہ بن عطاء کہتے ہیں کہ ایک دفعہ میں امام محمد باقر علیہ السلام کے ساتھ مسجد میں تھا۔ اس وقت میری نظر عبداللہ ابن سلام کے بیٹے پر پڑی۔ میں نے اس کی طرف دیکھتے ہوئے کہا ’’کیا یہ لڑکا وہ نہیں ہے جس کے پاس کتاب کا علم ہے؟‘‘ اس وقت امام علیہ السلام نے فرمایا کہ یہ صرف علی ابن ابی طالب کے پاس ہے۔ [8]
ابن عباس روایت کرتے ہیں کہ جملہ ‘ صرف حضرت علی کے لیے قابل اطلاق ہے۔ جیسا کہ) اور کوئی اور نہیں کیونکہ آپ (ع) آیات کی تفسیر، تفسیر اور منسوخ شدہ آیات سے واقف ہیں۔
ابو حیان عندلوسی لکھتے ہیں: قتادہ کہتے ہیں کہ اس آیت سے عبداللہ بن سلام اور تمیم داری مراد ہیں، جبکہ مجاہد لکھتے ہیں کہ اس سے مراد صرف عبداللہ بن سلام ہے۔ تاہم ان دونوں علماء کی آراء کو قبول نہیں کیا جا سکتا۔ اس لیے کہ تمام علماء کا اس پر اجماع ہے کہ یہ آیت مکہ مکرمہ میں نازل ہوئی جبکہ عبداللہ ابن سلام مدینہ کے رہنے والے تھے۔ جناب محمد ابن حنفیہ اور امام باقر علیہ السلام کہتے ہیں کہ اس آیت سے مراد امام علی ابن ابی طالب علیہ السلام ہیں۔ [9]
آلوسی کہتے ہیں کہ جناب محمد ابن حنفیہ اور امام باقر علیہ السلام دونوں اس کے قائل ہیں کہ اس آیت میں جس شخص کا ذکر کیا گیا ہے وہ کوئی اور نہیں بلکہ حضرت علی علیہ السلام ہیں۔ [10]
ملا محسن فیض کاشانی اپنی تفسیر الصفی میں لکھتے ہیں کہ ایک شخص نے امام علی علیہ السلام سے آپ کے بلند مرتبہ کے بارے میں پوچھا۔ جواب میں علی علیہ السلام نے آیت کی تلاوت کی اور فرمایا کہ میں وہ شخص ہوں۔ [11]
علی بن ابراہیم قمی (رح) نے امام صادق (ع) سے روایت نقل کی ہے: “کتاب کا مکمل علم رکھنے والا امیر المومنین علی (ع) ہے۔” لوگوں نے اس سے پوچھا: کون افضل ہے؟ کیا پوری کتاب کا علم رکھنے والا اس شخص سے افضل ہے جس کے پاس کتاب کے علم کا کچھ حصہ ہے؟ امام علیہ السلام نے جواب دیا: “کتاب کے مکمل علم” کا ‘کتاب کے علم کے کچھ حصے’ سے موازنہ پورے سمندر کی طرح ہے جیسے مکھی کے بازو پر سمندر سے پانی کے ایک قطرے کے مقابلے میں۔ [12]
عیاشی اپنی تفسیر میں بیان کرتے ہیں کہ “لوگوں نے امام باقر (علیہ السلام) سے پوچھا کہ عبداللہ ابن سلام کا خیال ہے کہ آیت “کتاب کا علم رکھنے والا” سے مراد ان کے والد ہیں۔” امام (ع) نے فرمایا: وہ جھوٹ بول رہا ہے۔ کتاب کا مکمل علم صرف حضرت علی علیہ السلام کو ہے۔ ۔ [13]
یہاں پر ہم آیت اللہ الخوئی (رح) کے اس قول پر گفتگو کرنا چاہتے ہیں جس کا ذکر ان کی تفسیر البیان فی تفسیر القرآن میں کیا گیا ہے۔.’ وہ لکھتے ہیں: “قرآن کریم کے معجزانہ الفاظ کے ذریعہ امام علی علیہ السلام کی گواہی – دیگر فصیح و بلیغ دلائل کے باوجود – بذات خود ان کی جانشینی کی ایک آزاد دلیل ہے۔ قرآن کریم وحی الٰہی ہے اور اس کا بیان جہالت پر مبنی نہیں ہے۔ امام علی علیہ السلام فصاحت و بلاغت کے مالک اور تمام اعلیٰ صفات کے مظہر ہیں۔ وہ بہترین نمونہ ہے اور معرفت الٰہی کے اعلیٰ ترین مقام پر ہے۔ دوست اور دشمن دونوں اس کی فصاحت و بلاغت کی گواہی دیتے ہیں۔ انہوں نے آپ (ع) کے مقام اور دولت کی وجہ سے اس کی عظمت کی گواہی نہیں دی۔ یہ کیسے ممکن ہے جب امام علی علیہ السلام تقویٰ کا نشان تھے اور دنیا کی طرف جھکاؤ نہیں رکھتے تھے۔ اپ نے خلافت کو ٹھکرا دیا تھا جب اسے اس شرط کے ساتھ پیش کیا گیا تھا کہ وہ امور ابوبکر اور عمر رضی اللہ عنہما کی طرح انجام دیں اور اس سے منہ پھیر لیا۔ یہ امام علی علیہ السلام ہیں جنہوں نے معاویہ کی (ناجائز) گورنری کو چند دنوں کے لیے بھی برداشت نہیں کیا حالانکہ وہ معاویہ کو اس کے عہدے سے ہٹانے کے خطرات سے بخوبی واقف تھے۔ پس امام علی علیہ السلام پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رسالت اور قرآن کریم کے معجزانہ کلمات کی بہترین شہادت ہیں۔[14]
بعض لوگوں کا خیال ہے کہ یہ آیت ان لوگوں کے بارے میں ہے جنہوں نے اسلام قبول کیا جیسے عبداللہ ابن سلام، تمیم داری اور سلمان فارسی۔ لیکن یہ قول قابل قبول نہیں ہے کیونکہ یہ سورہ مکہ مکرمہ میں نازل ہوئی تھی جب کہ مذکورہ بالا لوگوں نے مدینہ میں اسلام قبول کیا تھا۔ ابو حیان عندلوسی کہتے ہیں کہ تمام علماء کا اس پر اجماع ہے کہ یہ سورت مکہ میں نازل ہوئی ہے۔ طبری لکھتے ہیں کہ ابو بشر کہتے ہیں کہ میں نے ابو سعید خدری سے پوچھا کہ کیا یہ آیت عبداللہ ابن سلام کی طرف اشارہ کرتی ہے ؟ اس نے کہا ‘نہیں۔ یہ سورہ مکہ مکرمہ میں نازل ہوئی تھی پھر اس کا ذکر عبداللہ ابن سلام کی طرف کیسے ہوسکتا ہے؟‘‘ [16]
قرطبی لکھتے ہیں کہ ابن جبیر کہتے ہیں کہ یہ سورت مکہ مکرمہ میں نازل ہوئی جب عبداللہ ابن سلام نے مدینہ میں اسلام قبول کیا۔ یہ آیت اس کی طرف اشارہ نہیں کر سکتی۔” [17]
شہاب الدین آلوسی نے علماء کے مندرجہ بالا آراء پر اعتراض کیا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ’’اس میں شک نہیں کہ یہ سورت مکہ مکرمہ میں نازل ہوئی لیکن اس کی چند آیات مدینہ میں بھی نازل ہوئیں۔ اور یہ آیت خاص مدینہ میں نازل ہوئی۔ لیکن آلوسی کے اس قول کی تائید میں کوئی روایت موجود نہیں ہے اس لیے اس کے دعوے پر پانی نہیں پڑتا۔
شعبی نے بھی صاف انکار کیا ہے کہ قرآن کی کوئی آیت عبداللہ ابن سلام کے حق میں نازل ہوئی ہے [18]۔ فخرالدین رازی لکھتے ہیں “ان دو آدمیوں کی باتوں سے نبوت قائم نہیں ہو سکتی جو جھوٹ بولنے سے خالی نہ ہوں۔”

[1] تفسیر جامع الاحکام القرآن، جلد 1۔ 15، ص۔ 91
[2] تفسیر طبری، ج۱، ص۱۲۵۔ 24، ص۔ 68
[3] تفسیر کبیر، ج۱، ص۱۲۵۔ 26، صفحہ 126
[4] تفسیر برہان، جلد 4، ص۔ 20
[5] تفسیر الکبیر، ج۱، ص۱۲۵۔ 5، ص۔ 223
[6] تفسیر بحر المحیط
[7] تفسیر روح المعانی، ج۱، ص۱۲۵۔ 2، ص۔ 97; تفسیر جامع الاحکام القرآن، جلد 1۔ 3، صفحہ 21
[8] ینابیع المودۃ، ص102؛ قرطبی اپنی تفسیر ‘تفسیر جامع الاحکام القرآن، جلد 1 میں’ 9، صفحہ 336
[9] تفسیر بحرالموحیط، ج۱، ص۱۲۵۔ 5، ص۔ 401
[10] تفسیر و روح المعانی، ج۱، ص۱۲۵۔ 13، صفحہ 158
[11] تفسیر الصفی، ج۱، ص۱۱۲۔ 3، ص۔ 77
[12] تفسیر القومی، ج۱، ص۱۵۔ 1، ص۔ 367
[13] تفسیر عیاشی۔ 2، صفحہ 220
[14] البیان فی تفسیر القرآن، ص 91
[15] تفسیر بحرالموحیط، ج۱، ص۱۲۵۔ 9، ص۔ 401
[16] جامع البیان، ص104
[17] جامع الاحکام القرآن، جلد 9، ص۔ 336
[18] تفسیرِ کبیر، ج۱، ص۱۵۔ 19، صفحہ 70

Short URL : https://saqlain.org/so/9a6v

اپنا تبصرہ بھیجیں

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.